• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ بال ٹمپرنگ کی مانند شعر ٹمپرنگ جرم نہیں ورنہ میں یہ لکھنے کی جسارت کیسے کرتا۔کیسے دور میں زندہ ہیںجان! بہت شرمندہ ہیںیہ دور ہماری تاریخ میں اپنے لطیفوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے مثلاً پچھلے دنوں سرکاری خرچ پر اشتہار چھپے جن میں ’’برادران‘‘ کی تصویریں حسب معمول عوام کا منہ چڑا رہی ہیں اور سلوگن یہ ہے۔’’سوچ نواز کی۔ جوش شہباز کا‘‘ یعنی باقی سب بتاشے بیچ رہے ہیں۔ جس پر سوچ کی تہمت لگائی گئی، پہلے اس کا حال سن لیں ایک انگریزی رسالہ ہے "GLOBAL AGE"میں بھی اس کے لئے کالم لکھتا ہوں۔ اس کے تازہ ترین شمارے میں سینئر سیاستدان سیدہ عابدہ حسین کا انٹرویو بھی شامل ہے جس میں محترمہ بتاتی ہیں کہ جب دوسری بار میاں نواز شریف کی حکومت گئی تو آپ یعنی محترمہ نے نواز شریف کو منیر نیازی کی شہرئہ آفاق نظم سنائی جس کا یہ مصرع محاورہ بن چکا ہے ’’کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ عظیم قائد نے پوچھا۔۔۔ ’’کیا یہ آپ نے لکھا ہے؟‘‘ عابدہ بی بی نے بتایا۔۔۔ ’’نہیں، منیر نیازی نے لکھا ہے‘‘ جس پر عظیم قائد نے مزید پوچھا۔۔۔ ’’یہ کون ہے؟‘‘ ایسے شخص پر ’’سوچ‘‘ کا الزام لگانے پر بھی ’’جے آئی ٹی‘‘ بنانے کی ضرورت ہے لیکن یہاں تو ستم ظریف اس پر ’’وژن‘‘ کی تہمت دھرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ تو حال ہے ’’سوچ‘‘ والے کا تو اب مس گائیڈڈ ’’جوش‘‘ والے کا بھی سن لیں جو ’’سستی روٹی اسکیم‘‘ سے شروع ہو کر ’’آشیانہ‘‘ سے ہوتے ہوئے ’’دانش اسکولوں‘‘ تک پہنچے تو خبر آئی کہ پنجاب میں شرح خواندگی میں دو فیصد کمی ہو چکی ہے۔ چھ ماہ، سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعویدار اس بے سمت ’’جوش‘‘ کے عہد بارے مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہو گا کہ یہ ایک مضحکہ خیز دور تھا جس میں عوام کو دو وقت کی روٹی اور چلو بھر صاف پانی تو میسر نہ تھا لیکن پھرتے وہ اورنج ٹرینوں اور میٹرو بسوں پر تھے۔کیسے دور میں زندہ ہیںجان! بہت شرمندہ ہیںچنڈال چوکڑی نے چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے کہ ان کے آقا تین نسلوں کا حساب دے رہے ہیں حالانکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ پچھلی اور اگلی نسل کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جھوٹ در جھوٹ در جھوٹ بولنے کی مہارت ایکسپورٹ ہو سکتی تو پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر ہمالیہ سے اونچے نکل جاتے لیکن افسوس اس جنس کی طلب صرف مقامی منڈی تک ہی محدود ہے اور بین الاقوامی منڈی میں اس ’’ٹیکنالوجی‘‘ یا ’’کموڈٹی‘‘ کی کوئی ڈیمانڈ نہیں۔ کمال دیکھو کہ الزامات کا دفاع وہ کر رہے ہیں جو ’’واردات‘‘ کے وقت پیدا نہیں ہوئے تھے یا پیمپرز پہنے پھرتے تھے، بڑی بات ہے پرائمری اسٹیج پر ہوں گے۔ تنہائی میں کبھی کبھی سوچتے تو ہوں گے کہ کر کیا رہے ہیں لیکن کیا کریں ’’پیشہ ورانہ‘‘ مجبوریاں اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہونا تو ’’پیکیج‘‘ کا حصہ ہے اور یوں بھی مارکیٹ میں اچھے سے اچھا ڈیٹرجنٹ اور صابن موجود ہے جس کی خریداری کے لئے سرکاری فنڈز کی بھی کوئی کمی نہیں جنہیں جمہوری زبان میں ’’ترقیاتی فنڈز‘‘ کہتے ہیں۔دوسری طرف تن تنہا نہیں۔۔۔ عوام کے ساتھ عمران خان چٹان کی طرح جم کے کھڑا ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے ٹانکے ادھیڑ رہا ہے۔ پاکستان میں حالات کو جوں کا توں رکھنے پر مصر گینگز کسی بھی قیمت پر عمران کو عضو معطل بنانا اور میدان سے نکالنا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ سے بے نیاز اپنے محاذ پر ڈٹ کے کھڑا ہے۔ اوپر اللہ نیچے عوام اور ایسی تیسی عوام خور نظام کی۔ گزشتہ اتوار میں نے ’’میرے مطابق‘‘ میں کہا تھا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب عمران خان کے اہداف سے بڑا نہیں۔ وزارت عظمیٰ کے کھیل سے نکلنا بھی پڑے تو وہ ’’رہبر‘‘ کے طور پر عوام کی حقیقی آزادی کا جہاد اکبر جاری رکھ سکتا ہے جیسے امام خمینی اپنے طور پر اپنے ملک میں منصبوں سے ماورا تھا۔اگلے روز پیر کو ہی عمران خان کا یہ اعصاب شکن اعلان سامنے آ گیا۔۔۔ ’’کرپشن سے قوم کو نجات دلانے کے لئے میری نا اہلی ایک حقیر قربانی ہو گی‘‘۔ ’’سیاست بذریعہ دولت اور دولت بذریعہ سیاست‘‘ قسم کی ذہنیت کے منہ پر عمران خان کے اس زناٹے دار تھپڑ کی گونج صدیوں تک تاریخ کی وادیوں میں گونجتی اور اس قوم کا حوصلہ بڑھاتی رہے گی۔دو خبریںپہلی یہ کہ سپریم کورٹ نے حسین نواز کے اعتراضات مسترد کر دیئے۔ ’’شکوک پر ’’جے آئی ٹی‘‘ تبدیل نہیں ہو گی اور اگر قطری شہزادہ نہ آئے تو خط کھڑکی سے باہر پھینک دیں‘‘یہاں مجھے یاد آیا حال ہی میں قطریوں کو زبردست سہولتیں اور چھوٹیں دی گئی ہیں۔ اس اخباری اطلاع کی تصدیق کے بعد سوال تو ان سہولتوں پر بھی بنتا ہے۔ ایک ضمنی بطور برسبیل تذکرہ کہکیمرے کا موجد مجھے اپنا محسن محسوس ہونے لگا ہے۔ تصویریں نہ ہوتیں تو مجھے کیسے معلوم ہوتا کہ اکثر شہزادے بھی مصلیوں اور کوچوانوں یعنی عام انسانوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔دوسری خبر یہ کہ جمائما کی طرف سے تصدیق ہو گئی اور عمران خان نے آف شور کمپنی کا جزوی ریکارڈ بھی دے دیا۔ بنی گالہ زمین خریداری کی منی ٹریل کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش۔ان دونوں خبروں کو ملائیں تو ایک تیسری خبر بنتی دکھائی دیتی ہے جو مدتوں بعد شاید پہلی خیر کی خبر ہو گی۔ یہاں مجھے اپنا بہت ہی پیارا دوست صلاح الدین درانی عرف صلو درانی یاد آیا جو کینیڈا سے کال کر کے پہلا سوال یہ کرتا ہے ’’کوئی خیر کی خبر تو نہیں؟‘‘صلو درانی کو خبر ہو کہ خیر کی خبروں کا امکان خاصا روشن دکھائی دیتا ہے۔



.
تازہ ترین