• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں قوم نے ایٹمی دھماکوں کی 19ویں سالگرہ بڑے جوش و خروش سے منائی۔ ’’یوم تکبیر‘‘ ہمیں اُس دن کی یاد دلاتا ہے جب 28مئی 1998ء کو پاکستان نے چاغی کی پہاڑیوں میں یکے بعد دیگرے 5دھماکے کئے جس کے بعد پاکستان ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن کر ابھرا۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے سر فخر سے بلند ہوگئے کیونکہ آج مسلمان فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہم بھی ایٹمی طاقت ہیں۔‘‘ میرا یہ معمول رہا ہے کہ ہر سال ’’یوم تکبیر‘‘ کے دن پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فون کرکے اُنہیں اِس دن کی مبارکباد دیتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بناکر ملکی سلامتی کو یقینی بنادیا۔
بھارت ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1974ء میں پاکستان تشریف لائے، 1975ء میں کہوٹہ کے مقام پر یورینیم پلانٹ کی افزودگی کیلئے عمارت کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا جو دو سال کے مختصر عرصے میں مکمل کرلی گئی، 1978ء کے اوائل میں یورینیم کی افزودگی کا آغاز کیا گیا اور 6 اپریل 1978ء کو پاکستان نے ایٹم بم گریٹ یورینیم کی افزودگی حاصل کرلی۔ 1983ء میں ضیاء الحق دور حکومت میں پاکستان نے کئی کولڈ ٹیسٹ کئے جو کامیاب رہے اور بالآخر پاکستان نے 1984ء میں ایٹم بم تیار کرلیا جس کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بذریعہ خط صدر جنرل ضیاء الحق کو مطلع کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1978ء میں جب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو کہوٹہ کے مقام پر پاکستان کے نیوکلیئر پلانٹ کی موجودگی کا علم ہوا تو ’’را‘‘ نے کہوٹہ نیوکلیئر پلانٹ فضائی حملہ کرکے تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا تاہم اپنے مذموم عزائم کی تکمیل سے قبل ’’را‘‘ یہ ثبوت حاصل کرنا چاہتی تھی کہ آیا کہوٹہ کے مقام پر یورینیم کی افزودگی کا کام جاری ہے یا نہیں؟ اس مقصد کیلئے ’’را‘‘ نے منفرد حربہ اختیار کرتے ہوئے کہوٹہ کے مقام پر اُس نائی (باربر) کی دکان کا پتہ لگایا جہاں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری میں کام کرنے والے سائنسدان بال کٹوانے جایا کرتے تھے۔ ’’را‘‘ نے اِس دکان سے سائنسدانوں کے بالوں کے نمونے حاصل کئے اور جب ان بالوں کے ٹیسٹ کروائے گئے تو ان میں ریڈی ایشن کے اثرات (Radiation Traces) پائے گئے جو اِس بات کا ثبوت تھے کہ لیبارٹری میں یورینیم کی افزودگی جاری تھی۔
’’را‘‘ نے یہ معلومات امریکی سی آئی اے سے شیئر کی جس پر سی آئی اے نے ’’را‘‘ کو مشورہ دیا کہ وہ پڑوسی ملک پاکستان کو ایٹمی پروگرام سے باز رکھے جس کے فوراً بعد ’’را‘‘ نے کہوٹہ کے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو فضائی حملے میں تباہ کرنے کا پروگرام بنایا مگر جب ’’را‘‘ نے اس سلسلے میں بھارتی وزیراعظم مراجی ڈیسائی سے اجازت طلب کی تو انہوں نے اس خوف سے کہ اس ایڈونچر کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ نہ چھڑ جائے، ’’را‘‘ کو مشن کی اجازت نہ دی جس پر ’’را‘‘ اپنے وزیراعظم سے سخت مایوس ہوئی اور پھر ’’را‘‘ نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے یہ کہہ کر راضی کرلیا کہ ’’اگر پاکستان نے اسلامی ایٹم بم بنالیا تو وہ بھارت کے علاوہ اسرائیل کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔‘‘ ’’موساد‘‘ جس کے حوصلے عراقی ایٹمی ری ایکٹر تباہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی بلند تھے، نے ’’را‘‘ سے مل کر کہوٹہ نیوکلیئر پاور پلانٹ تباہ کرنے کی حامی بھرلی لیکن جب پاکستان کو بھارتی اور اسرائیلی مذموم منصوبے کا علم ہوا تو حکومت نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کی فضائی نگرانی میں اضافہ کردیا اور اطراف میں بڑی تعداد میں طیارہ شکن میزائل نصب کردیئے جس کے باعث بھارتی اور اسرائیلی مشن شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اسی طرح 1990ء میں جب حکومت کو یہ اطلاعات ملیں کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستانی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا مشترکہ منصوبہ بنایا ہے تو حکومت پاکستان نے نئی دہلی کو پیغام بھیجا کہ ’’اگر پاکستان کی نیوکلیئر تنصیبات پر کوئی حملہ ہوا تو اِس کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہراتے ہوئے بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی۔‘‘ بعد ازاں امریکی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے یہ انکشاف ہوا کہ ’’پاکستان نے نیوکلیئر وارہیڈ سے لیسF-16طیاروں کا ایک اسکوارڈن ایئربیس منتقل کردیا ہے جنہیں حکم ملتے ہی بھارتی نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کرنا ہے۔‘‘ اس انکشاف کے بعد دشمن طاقتیں، پاکستان کے نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کرنے سے باز رہیں مگر بعد میں یہ دشمن طاقتیں، ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو اغوا اور قتل کرنے کا منصوبہ بناتی رہیں جس میں بھی اُنہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
میرے نزدیک پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سہرا 4 ہیروز کے سر جاتا ہے جن میں پہلے ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوںنے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب دیکھا اور پھر اِس کی بنیاد بھی رکھی۔ جنرل ضیاء الحق جنہوں نے امریکی دبائو میں آئے بغیر ایٹمی پروگرام جاری رکھا اور ہر طرح کی مالی معاونت فراہم کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بناکر ملکی سلامتی کو یقینی بنادیا۔ نواز شریف جنہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کے دبائو اور لالچ میں آئے بغیر ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کو عالمی سطح پر ایٹمی ملک کے طور پر منوایا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو امریکی وزیر خارجہ نے اُنہیں دھمکی دی کہ ’’اگر ایٹمی پروگرام شروع کیا تو انہیں عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔‘‘ اس طرح ذوالفقار بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی پاداش میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ جنرل ضیاء الحق کو ایٹمی پروگرام جاری رکھنے اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے پر فضائی حادثے میں اڑادیا گیا۔ یہ وہی جنرل ضیاء الحق تھے جنہوں نے اسرائیل کو دھمکی دی تھی کہ ’’اگر اسرائیل نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی کوشش کی تو وہ خود ایٹم بم گدھے پر باندھ کر تل ابیب میں ایسا دھماکہ کریں گے کہ اسرائیل کا وجود دنیا سے مٹ جائے گا۔‘‘
زندہ قومیں اپنے ہیروز کے احسانوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور اُنہیں فراموش نہیں کرتیں۔ ہمیں چاہئے کہ وہ افراد جن کا پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں حصہ ہے، کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں جس کے وہ حقدار نہیں۔ بھارت نے ایٹمی پروگرام کے خالق عبدالکلام کو اُن کی خدمات کے صلے میں صدر کے عہدے پر فائز کردیا جبکہ ہم نے اپنے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو زندگی میں ہی اُن کی خدمات کا صلہ ذلت و رسوائی کی صورت میں دے کر احسان کا بدلہ چکا دیا جس کے وہ قطعاً حقدار نہیں۔ اس بار ’’یوم تکبیر‘‘ کے موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہایت افسردہ نظر آئے کیونکہ کسی ٹی وی چینل نے نہ انہیں ’’یوم تکبیر‘‘ کے حوالے سے کسی پروگرام میں بلانا مناسب سمجھا اور نہ ہی اُن کی خدمات کا اعتراف میڈیا پر کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف کو بھی ایٹمی دھماکے کرنے کی قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے، آج اُنہیں تضحیک کا نشانہ بناکر اُن کی کردار کشی کی جارہی ہے جبکہ کچھ لوگ اُنہیں سیکورٹی رسک جیسے القابات سے بھی نواز رہے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اگر نواز شریف محب وطن نہ ہوتے اور اُس وقت ملکی مفاد پر بھارت یا کلنٹن سے اپنی دوستی کو ترجیح دیتے تو آج پاکستان عالمی سطح پر ایٹمی ملک کے طور پر نہ ابھرتا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ملک و قوم کی مضبوط دفاع کی ضمانت ہے۔ ہمیں ’’یوم تکبیر‘‘ مناتے وقت یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایٹمی طاقت کے حصول میں ہمیں صرف اور صرف اللہ کی مدد حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ دشمن طاقتیں اپنے مذموم ہتھکنڈوں میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔


.
تازہ ترین