• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس دن وزیر خزانہ اسحاق ڈار سالانہ بجٹ پیش کرنے جارہے تھے اسی دن کسان اتحاد کے احتجاجی اجتماع پر لاٹھیاں برسائی گئیں، شرکاء پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں اور ان پرپانی کے کنستر پھینکے گئے۔ کسان بجٹ پیش کئے جانے کے موقع پر اس لئے احتجاج کر رہے تھے کہ وہ بجٹ میں زرعی شعبے سے متعلق حکومتی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جس بے دردی سے کسانوں کو مارا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست کے پاس کسانوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں زرعی شعبہ جن مسائل کا شکار ہے اور کسانوں کی حالت جس تیزی کے ساتھ بگڑ رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر زرعی شعبے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو ملک میں بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
کسانوں کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کی حکومت ان کو وہی مراعات دے جو کہ ہندوستان میں دی جاتی ہیں۔ کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہندوستانی پنجاب میں بجلی بھی مفت ہے ، کھاد اور پیداواری عمل میں استعمال ہونے والی دوسری چیزوں پر بھی سبسڈی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والی اجناس ہندوستان سے ہونے والی درآمدات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں حکومت زرعی شعبے کو اس قدر مراعات دیتی ہے تو پھر ہندوستان کے کسانوں میں وسیع پیمانے پر کیوں خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ کیوں ہندوستانی کسان مہینوں سے دہلی میں ڈیرے ڈالے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ ہندوستان میں کسانوں کو دی جانے والی مراعات کافی نہیں ہیں جس کی وجہ سے کسان اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زرعی شعبہ دنیا بھر میں بحران کا شکار ہے۔ امریکہ اور یورپ کے امیر ممالک زرعی شعبے کو وسیع پیمانے پر سبسڈی دیتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں امیر ملکوں کی مراعات یافتہ اجناس کاغریب ممالک مقابلہ نہیں کر سکتے۔ امیر ممالک سے آنے والی سستی زرعی اجناس غریب ملکوں کے کسانوں کے لئے زہر قاتل ہیں۔ مثلاً امریکہ اور آسٹریلیا میں پیدا ہونے والی گندم عالمی منڈی میں کافی سستے داموں پر دستیاب ہوتی ہے۔ پاکستان میں گندم مہنگی پیدا ہوتی ہے لہذا اس کو برآمد کرنا ناممکن ہے۔ اسی لئے پاکستان میں گندم کے انبار سڑ رہے ہیں اور ان کا عالمی منڈی تک پہنچنا نا ممکن عمل ہے۔ حکومت گندم کی جو کم از کم قیمت مقرر کرتی ہے وہ منڈی کی قیمتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، حکومت کی اپنی خریداری بڑے زمینداروں تک محدود رہتی ہے,عام کسان منڈی کوکم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح گنا ہے جس کا معاوضہ کئی مہینوں کی کشمکش کے بعد ملتا ہے۔ مزید برآں پاکستان میں بجلی، کھاد اور بیج بہت مہنگے ہیں، لہذا کسانوں کو اپنی پیداواری لاگت کا پورا کرنا بھی محال ہوتا ہے۔
پاکستان میں زرعی شعبہ ساختی مسائل کا شکار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجاب ، خیبر پختونخوا اور دوسرے بہت سے علاقوں میں زمین نسل در نسل اس طرح سے تقسیم ہوئی ہے کہ اب زرعی قطعات معاشی لحاظ سے قابل عمل نہیں رہے۔ لیکن اب بھی آبادی کا چالیس فیصد سے زیادہ حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان کی قومی پیداوار میں زرعی شعبہ سکڑ کر بیس فیصد رہ گیا ہے جبکہ اس پر انحصار چالیس فیصد کا ہے۔ اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کا قومی پیداوار میں سکڑتا ہوا زرعی شعبہ سب کو روزگار مہیا نہیں کر سکتا۔ زراعت میں مشینی کاشت کی وجہ سے بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ملک میں صنعتی انقلاب برپا کیا جائے جس سے دیہات کی وافر لیبر کو روزگار مل سکے۔ امریکہ میں پانچ فیصد سے بھی کم آبادی زرعی شعبے پر انحصار کرتی ہے اور یہی حال دوسرے صنعتی ممالک کا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان ممالک میں زرعی شعبہ حکومتی مراعات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ ممالک اپنے زرعی شعبے کو اس لئے سبسڈی دے سکتے ہیں کیونکہ وہ باقی شعبوں سے مقدور بھر ٹیکس جمع کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں ٹیکس جمع کرنے کی استعداد بہت کم ہے کہاں سے زرعی شعبے کو خصوصی مراعات دے سکتے ہیں؟ یہ امر واضح ہے کہ جب تک پاکستان میں غیر زرعی شعبے پورا ٹیکس ادا نہیں کریں گے تب تک زرعی شعبے کو سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔ اگر پاکستان میں صنعتی انقلاب آجائے اور آبادی کا پانچ فیصد حصہ بھی زرعی شعبے پر انحصار کر رہا ہو تب بھی اس شعبے کو سبسڈی کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان کے موجودہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے ایک کھرب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت کے اس پیکیج سے چھوٹے کسانوں کو قرضے دئیے جائیں گے اور زرعی پیداوار میں استعمال ہونے والی دوسری اشیا پر سبسڈی دی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسانوں کو قرضے دینے سے ان کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہندوستان میں کئی دہائیوں سے کسانوں کو سستے قرضے فراہم کئے جاتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مقروض کسان قرضے کی قسطیں واپس نہیں کر پاتے اور خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ جب کسانوں کی پیداواری لاگت پوری نہیں ہوگی تو وہ قرضہ کہاں سے واپس کریں گے۔ ویسے تو کسان اتحاد کا دعوی ہے کہ چھوٹے کسانوں کو قرضے دستیاب ہی نہیں ہیں لیکن اگر ہو بھی جائیں تو ان سے کسانوں کی حالت زار میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ اس کاواحد حل یہ ہے کہ زرعی پیداوار میںاستعمال ہونے والی اشیا پر سبسڈی دی جائے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں مسئلہ یہ ہے کہ ہر طرح کی سبسڈی امیر کسانوں ، کھاد اوربیج پیدا کرنے والوں تک محدود رہتی ہے۔
پاکستان میں زرعی شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے سب سے پہلے تو آبادی کے بڑے حصے کا زراعت پر انحصار کم کیا جائے۔اگر زرعی شعبہ قومی پیداوار کا بیس فیصد ہے تو وہ اتنی ہی آبادی کی کفالت کر سکتا ہے۔ وافر افرادی قوت کو صنعتی شعبوں میں روزگار مہیا ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا ہو بھی جائے تب بھی زرعی شعبے کو سبسڈی دینا لازمی ہوگا اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ٹیکسوں کے نظام کو فعال نہ بنایا جائے۔



.
تازہ ترین