• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریاض میں مسلمان حکمرانوں کے سامنے مدبر اور مقرر بن کر ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کے خلاف جنگ تیز کرنے کی ہدایات دینے کے بعد اسرائیل میں اس کی سلامتی اور ترقی و استحکام میں امریکی حمایت کا اعادہ کرکے ویٹی کن میں پوپ سے ملاقات اور اظہار عقیدت کیا اور پھر برسلز میں نیٹو کے اتحادی یورپی لیڈروں کو مالی اخراجات میں اپنا مزید شیئر ادا کرنے کا درس دینے کے بعد ہمارے صدر ڈونلڈ ٹرمپ واپس اسکینڈل سے بحران زدہ واشنگٹن میں پہنچ گئے ہیں۔ان کا 9 دن کا غیرملکی دورہ بھی داخلی بحران اور اسکینڈل کی شدت کم نہیں کرسکا بلکہ شدت یوں بڑھ گئی ہے کہ صدر ٹرمپ کے ذہین اور متحرک مشیر اور داماد جیرڈ کشنر بھی اب تحقیقات اور اسکینڈل کی زد میں دکھائی دیتے ہیں۔ واشنگٹن واپسی سے قبل ہی آغاز رمضان کے حوالے سے وہائٹ ہائوس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنے مسلمان امریکی شہریوں کو مبارکباد کا جو پیغام جاری کیا ہے اس میں بھی مبارکباد کم اور ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کے خلاف جنگ کرنے کی تاکید اور ریاض میں ٹرمپ کی تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے۔تاہم غیرمسلم اکثریتی آبادی اور سیکولر آئین والے امریکہ میں صرف ایک فیصد آبادی والی مسلم اقلیت نے رمضان کا آغاز کردیا ہے۔ رمضان میں نہ تو لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے نہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے حتی کہ پاکستان سے سخت کوالٹی کنٹرول کے معیار کے تحت امریکہ میں دستیاب دالوں اور کھانے کی اشیاء کی قیمتیں اور سپلائی بدستور وہی ہیں جو رمضان سے قبل تھیں۔ مساجد کے اردگرد مقامی پولیس کی نگرانی اور سیکورٹی کے انتظامات ہیں۔ بڑے شہروں اور زیادہ ٹریفک والے علاقوں میں تراویح اور نماز کے اوقات میں کار پارکنگ اور ڈبل پارکنگ میں پولیس مدد فراہم کررہی ہے۔ نیویارک کے پولیس کمشنر نے رمضان کے آغاز سے قبل ہی پولیس ہیڈ کوارٹرز کے وسیع ہال میں پولیس کے مسلمان افسروں اور مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کا سالانہ اجتماع کرکے اپنے سینئر معاونین کی موجودگی میںتقریر اور سوال و جواب کی نشست بھی منعقد کی اور رمضان کا استقبال کرتے ہوئے ماہ صیام کے دوران مساجد کے اردگرد سیکورٹی انتظامات کی تفصیل بھی بتائی۔ جی ہاں! 325 ملین آبادی والے وسیع و عریض امریکہ میں صرف ایک فیصد آبادی کے حامل مسلمانوں کو امریکہ کا لبرل غیرمسلم اور روادار معاشرہ یہ ماحول فراہم کررہا ہے۔ اگر کوئی متعصب شخص صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے پیدا کردہ ماحول اور اپنے تعصب کے تحت کسی مسلمان سے غلط سلوک کرتا ہے تو اسے بھی معاشرہ اور قانون جرم قرار دیتا ہے۔ دلوںکا حال تو کوئی نہیں جانتا مگر عوامی طور پر منتخب نمائندےبھی مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد اور عیدالفطر کے موقع پر اسکولوں میں تعطیل کے بھی حامی ہیں۔ نیویارک کے میئر دی بلازیو ایک لبرل سیاستدان ہیں، اپنے دائرہ اختیار میں وہ رمضان کی تہنیت، اسکولوں میں طلبہ کو عید کی تعطیلات، پارکنگ رولز میں نرمی اور پولیس کی جانب سے مساجد کو سیکورٹی کی فراہمی انہی کے فیصلوں اور اقدامات کا نتیجہ ہے۔ امریکی اراکین کانگریس میں سے چار ڈیموکریٹ اراکین ٹام سوزی (نیویارک) باربرا کامسٹوک (ورجینیا) کے علاوہ دو بھارتی نژاد ہندو مذہب کے حامل اراکین کانگریس راجہ کرشنا مورتی (شکاگو) اور پرامیلا جیاپال (واشنگٹن ٹیسٹ) خود آگے بڑھ کر جنگ/جیو کے ذریعے امریکی مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دے چکے ہیں۔ تاحال مسلمان کمیونٹی امریکہ میں رواداری کے ماحول میں آزادی سے رمضان گزار رہی ہے۔ممکن ہے آپ کی نظر ریاست اوریگن کی ٹرین میں دو مسلم مسافر لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے واقعہ پر پڑی ہو کہ ایک امریکی نوجوان مسلمانوں کے خلاف اور نسل پرستی پر مبنی کلمات سے دو مسلمان لڑکیوں کو ہراساں کررہا تھا،اس نوعیت کے اکا دکا واقعات اور جرائم کسی بھی معاشرے میں ہوتے رہتے ہیں لیکن مذکورہ واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسی امریکی معاشرے کے تین غیرمسلم امریکی مسافروں نے آگے بڑھ کر اس متعصب امریکی کی مزاحمت کی جو مسلمان لڑکیوں کو ہراساں کررہا تھا۔ متعصب امریکی چاقو سے مسلح تھا لہٰذا منع کرنے والے امریکیوں پر چاقو سے حملہ کرکے ان تینوں افراد کو شدید زخمی کردیا ۔ ایک 53 سالہ زخمی موقع پر ہی جاں  بحق اور دوسرا نوجوان اسپتال جاکر انتقال کرگیا جبکہ تیسرا شدید زخمی اور زیرعلاج ہے۔ان تینوں امریکیوںنے رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حجاب پہنے مسلم لڑکیوں کی آزادی اور نسلی و مذہبی شناخت کی حمایت میں آگے آکر اپنی جان دی ہے۔ امریکی معاشرے کی یہی رواداری، برداشت اور عدم تعصب انتہائی قابل ستائش ہے۔ اس سانحہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ریاست اوریگن میں ہونے والے اس سانحہ کے دو مقتولین اور زخمی امریکیوں کو ہیرو قرار دیتے ہوئے نیویارک میں حالیہ دنوں میں قائم ہونے والی تنظیم ’’امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی‘‘ نے ان امریکیوں کے خاندانوں کیلئے فنڈ جمع کرنے کی مہم شروع کردی ہے تاکہ مسلم کمیونٹی کی جانب سے ان جراتمند مقتولین اوران کے خاندانوں کیلئے علامتی اعزاز اور غم میں شرکت کی جاسکے۔اپنے 9 دن کے غیرملکی دورے سے واپسی پر صحافیوں اور امریکی عوام کےکہنے پر تعصب، تشدد اور قتل کے اس واقعہ کے بارے میںاپنے ٹوئٹر بیان میںٹرمپ نے قاتلانہ حملے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقتولین اور زخمی امریکن نفرت اور عدم برداشت کے خلاف کھڑے ہوئے۔
صدر ٹرمپ تو اپنے ٹوئٹر کے ذریعے اپنا 9 روز کا غیرملکی دورہ کامیاب قرار دے رہے ہیں لیکن ان کی واشنگٹن واپسی سے قبل ہی جرمن چانسلر اینجلامرکل نے ایک ہی مختصر بیان سے صدر ٹرمپ کے کامیاب دورے کا دعویٰ مسترد کردیا ہے۔ ریاض میں تاکیدی خطاب اور سامعین کی خاموشی پر خوشی اور تل ابیب میں میزبانوں کو خوش کرنے کو اپنی کامیابی سمجھنے والے صدر ٹرمپ نے نیٹو کے اتحادی ممالک کو بھی جب اپنے خطاب میں فوجی اخراجات کا بوجھ مزید شیئر کرنے کی تلقین کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کہہ ڈالا تو یورپ کی سب سے مضبوط معیشت جرمنی کی چانسلر اینجلامرکل نے ایک بیان میں کہہ دیا کہ جرمنی اور یورپ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے روس، برطانیہ اور امریکہ سے دوستانہ تعلقات کی ضرورت پر تو زور دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یورپی ممالک کو اپنےمعاملات اور منزل کو خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ امریکہ میں نئے صدر اور برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جس میں ہم دوسروں پر مکمل بھروسہ نہیں کرسکتے۔ اینجلا مرکل اور یورپی لیڈر صدر ٹرمپ کے اس بیان سے بھی ناراض ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدہ کو تسلیم کرنے کے بارےمیں ابھی کوئی فیصلہ کریں گے۔195 ممالک اس معاہدہ پر دستخط کرچکے ہیں جی 7 ممالک بھی اس پر عمل چاہتے ہیں مگر صدر ٹرمپ کے رویہ پر ناراض ہیں اور وہ اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ واشنگٹن واپسی پر ٹرمپ کوداخلی سیاست کے بحرانوں اور اسکینڈل میں شدت کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کے مشیر خاص اور چہیتے داماد کو روس کے حوالے سے شدت اختیار کرتا ہوا اسکینڈل اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔وہائٹ ہائوس کے مشیران میں تبدیلیوںکی افواہیں بھی گردش میں ہیں۔امریکہ سے 9روز کی غیرحاضری نے بھی صدر ٹرمپ کے داخلی بحران کی شدت کو کم نہیں کیا بلکہ خارجی اور داخلی مسائل بڑھادیئے۔



.
تازہ ترین