• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرآن پاک کی تلاوت کے خاص آداب ہیں اور تلاوت کو خوش الحانی سے ادا کرنے کے فن کو ’’حسن ِقرات‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ مفسرین اور شارحین نے فنِ قرات کے حصول کو فرض ِکفایہ اور اس کے مطابق تلاوت کو فرِض عین قرار دیا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام وہ نبی تھے ،جن کا لحن ایک مثال قرار دیا جاتا ہے۔ ’’حضرت داؤد علیہ السلام ستر لہجوں (طرزوں) کے ساتھ زبور پڑھتے تھے اور ان کی قرا ت میں ایسا سوز و گداز تھا کہ سب پر رقت طاری ہو جاتی۔ جو شخص بھی آپ کی قرا ت کو سنتا آنسوئوں کے سیلاب میں ڈوب جاتا ۔ ’’لحن‘‘ کے لغوی معنی گانا اور غنا ہے۔ اس کی جمع"الحان" ہے۔ اصطلاحی لحاظ سے اس سے مراد مختلف انواع واقسام کی وہ آوازیں ہیں جو غنا کے وقت نکلتی ہیں۔گویا غنا کے وقت نکلنے والی آوازوں کی مختلف انواع واقسام کو نغمات اور الحان کہا جاتا ہے۔ہرلحن کا ایک اصطلاحی نام ہے، ان تمام الحان کے مجموعہ کو قانون النغم (قواعد ِموسیقی) کا نام دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ ہی قرآنِ کریم کو خوش الحانی سے پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ ایک حدیث میں قرآنِ کریم کو عرب کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور شیطانی اور فحش قسم کے گانے گانے والے فاسق و فاجر گلوکاروں اور عیسائی چرچوں کے راہبوں اور نوحہ گروں کے لہجوں میں قرآن کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’سب سے خوبصورت قرات اس شخص کی ہے جو پڑھے تو یوں لگے کہ اس کا دل خوفِ الٰہی سے کانپ رہا ہے۔‘‘ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اسے اہل عرب مثلا قراء ِحجاز و مصر کے لہجوں میں ہی پڑھا جانا چاہئے۔ کسی کو اگر اللہ نے فطری طور پر خوبصورت آواز سے نوازا ہے تو اس کے لئے قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنا بہت آسان ہوگا اور جو شخص طبعاًخوش آواز نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو،مسلسل مشق اور ٹریننگ سے اپنی آواز کوخوبصورت بنانے کی کوشش کرے۔نبی ﷺ قرآنِ مجید نہایت خوش الحانی، خوش آوازی اور ترنم سے پڑھتے تھے۔ قرآن پڑھنے میں کوئی شخص بھی آپ ﷺ سے زیادہ خوش آواز نہیں تھا۔ چنانچہ صحیحین میں جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو نمازِمغرب میں سورۃالطور کی تلاوت کرتے سنا۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز اور قرات کسی کی نہیں سنی۔‘‘ احادیث میں ایسی متعدد روایات ہیں جن میں نبیﷺ نے ان صحابہ کی تعریف کی اور انہیں ان کی حالت پر برقرار رکھا جنہیں اللہ نے خوبصورت آواز سے نوازا تھا اور وہ قرآن کو ترنم اور خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔
ہم نے اپنی تاریخی کتابوں میں تو ایسی بہت سی مسلمان ہستیوں اور حکمرانوں کے نام سنے ہیں اور پڑھے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا قرآنِ کریم اور اس کی تلاوت کو بنا رکھا تھا اور اپنی زندگی شریعت کے مطابق بسر کی تھی لیکن بد قسمتی سے یہ سب کچھ ماضی ہی کا حصہ ہے اور موجودہ دور میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے جس کو دیگر حکمراں یا عوام اپنے لئے رول ماڈل بنا سکیں۔ اگرچہ عرب حکمراں عربی پر مکمل مہارت رکھتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمیں موجودہ دور میں ایسا کوئی عرب حکمراں نظر نہیں آتا ہے جس کو قرآن کریم کی تلاوت پر دسترس حاصل ہو اور وہ حسنِ قرات یا خوش الحانی کے فن سے آگاہ ہو۔
عرب ممالک کے علاوہ بھی مختلف اسلامی ممالک کے رہنماؤں کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جن کو حسنِ قرات پر کمال حاصل ہو۔ البتہ ترکی جہاں طویل عرصے تک سیکولرازم کی وجہ سے اسلام پسند رہنماؤں کے لئے اقتدار کے دروازے بند رکھے گئے اس لحاظ سے بڑا خوش قسمت ملک ہے جسےسلطنتِ عثمانیہ کے بعد پہلی بار ایک ایسا حکمراں نصیب ہوا ہے جس کو نہ صرف مذہبِ اسلام اور شریعت سے متعلق مکمل آگاہی حاصل ہے بلکہ وہ قرآنِ پاک کی تلاوت خوش الحانی سے کرنے اور آوازِ داؤدی میں اذان دینے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ صدر رجب طیب ایردوان جنہوں نے ترکی کے ’’امام خطیب اسکول‘‘ ( ان امام خطیب اسکولوں میں مذہب اسلام اور شریعت کے تمام مضامین کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی بہر مند کیا جاتا ہے اور یوںان اسکولوں سے فارغ التحصیل طلبا دیگر اسکولوں کے مقابلے میں دہرے تعلیمی نظام سے فارغ التحصیل سمجھے جاتے ہیں اوراسی وجہ سے ان کو عام اسکولوں سے فارغ طلبا پر معلومات کے میدان میں برتری حاصل ہوتی ہے )۔ ان مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایردوان نے تلاوت کلامِ پاک میں بھی مہارت حاصل کی۔ ایردوان نے تلاوت کے اصولوں، لہجوں، طرزوں اور باریکیوں پر خصوصی توجہ دی اور اپنی اس خصوصیت ہی کی بنا وہ دورانِ تعلیم ہی حسنِ قرات کے ماہر سمجھے جانے لگے اور گردو نواح کے لوگوں کو اپنی قرات اور خوش الحانی سے فیض یاب کرنے لگے۔ترکی میں ان ہی کے دور میں قرات کے مقابلے بھی کروائے جانے لگے ورنہ اس سے قبل ایک سیکولر ترکی میں قرات کے مقابلے کروانے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ انہوں نے حسنِ قرات کے پانچویں سالانہ مقابلے میں شرکت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انسان کو ہمیشہ ہی علم و حکمت کے وسیلے قرآنِ کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے، ایک مسلمان ہونے کے نا تے ہمیں روز مرہ کی زندگی میں پہنچنے والے نقصانات، ذہنی آلودگی کو دور کرنے اور روح کی پاکیزگی کے لئے تلاوتِ کلامِ پاک ہی کا سہارا لینا چاہئے۔‘‘ انہوں نے کہا تھا کہ قرات کے اس مقابلے جس میں62 ممالک کے قاریوں نے حصہ لیا ہے اس کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقابلے کی اہمیت کو بھی بڑھا دیا جائے گا۔ انہوں نے اس موقع پر تلاوت ِ کلام پاک میں مختلف پوزیشنز حاصل کرنے والے قاریوں کو انعامات سے بھی نوازا۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی خوش الحانی سے حسنِ قرات کی ویڈیوز بڑی تعداد میں یو ٹیوب پر موجود ہیں جو انہوں نے مختلف مواقع پر اپنی فیملی، دوستوں اور احباب کی محفل میں کی ہیں۔ علاوہ ازیں 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد انہوں نے صبح کی جو اذان دی تھی وہ بھی یو ٹیوب پر موجود ہے اور لوگ ان کی آوازِ داؤدی میں دی گئی اذان سے بڑے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔
جمہوریہ ترکی کے قیام کے وقت غازی مصطفیٰ کمال نے ترکی کی پہلی قومی اسمبلی کی بنیاد بھی جمعہ کے روز رکھی تھی اور باقاعدہ تلاوتِ کلام پاک اور دعا کے بعد ہی اس پہلی قومی اسمبلی کی بنیاد رکھی گئی تھی لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے سیکولرازم کے نام پر تمام سرکاری اداروں سے مساجد کے نام و نشان ہی کو مٹادیا۔ اس چیز کی خلش کو صدر ایردوان نے اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے دارالحکومت انقرہ میں تعمیر کروائے گئے نئے صدارتی محل سے ملحقہ ’’ ملت مسجد‘‘ تعمیر کروا کر نا م نہاد سیکولرازم پر عمل درآمد روک کر سیکولرازم کی صحیح روح پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔صدر ایردوان ’’ ملت ‘‘جہاں وہ اکثر نماز پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور کئی ایک مواقع پرخود بھی جماعت کی امامت کرچکے ہیں جلدہی نماز جمعہ کا خطبہ دئیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئیں اور ان خبروں کے بارے میں صدارتی محل کی جانب سےابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس خبر کی تردید کی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک صدر اور عوام کے ہر دلعزیز ہیرو جلد ہی اس مسجد میں خطبہ بھی دیں گے جو کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں کا خاصہ ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اس روایت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اب نظریں صدر ایردوان کے ملت مسجد میں نمازِ جمعہ کے خطبے کی جانب مرکوز ہیں۔



.
تازہ ترین