• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی جون پاکستان میں شدید گرمی اور بے رحم لُو کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ دن بہت طویل ہوتے ہیں یعنی سورج کا زمین سے رابطے کا دورانیہ باقی مہینوں کی نسبت کچھ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماحول میں تپش کی شدت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ گرمی سے لوگوں کے مزاج کا پارہ خطرناک حد عبور کر چکا ہوتا ہے اس لئے اس موسم میں ذرا سی تلخ بات طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہے۔ پاکستان میں بجٹ اور الیکشن کے لئے نہ جانے کیوں ان سخت ترین موسم والے مہینوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ انتخابات تو پھر پانچ سال بعد ہوتے ہیں مگر بجٹ ہر سال امتحانی شیڈول کی طرح نازل ہوتا ہے اور سب کو امتحان میں ڈال کر چلا جاتا ہے کیوں کہ اس مہینے ہونے والے فیصلے پورا سال برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ پھر کچھ سالوں سے رمضان کا مقدس مہینہ بھی اسی موسم سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے میں بجلی کے نئے منصوبوں کی تکمیل کے باوجود لوڈ شیڈنگ ناقابل فہم ہے۔ جمہوری حکومت کے لئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے کیوں کہ اس نے الیکشن کے وقت عوام سے جو وعدے کئے ہوتے ہیں ان کو بجٹ کے ذریعے ہی ایفاکیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری حکومت جمہور کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتی ہے اس لئے اسے اکثریت کا زیادہ خیال کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ایک طرف سرمایہ کار اور دیگر اداروں کے مفادات ہوتے ہیں جنہیں ساتھ لے کر چلنا بھی اس کی مجبوری ہوتی ہے تو دوسری طرف آنکھوں میں خوابوں کا کشکول لئے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جو غربت کے صحرا میں ایک پیالے کی آس میں کھڑے ہوتے ہیں۔ حکومت کے لئے یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں ہوتا کہ وہ طاقت ور طبقے کے مفادات پسِ پشت ڈال کر سفید پوش اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے حق میں فیصلہ کرے۔ تاہم جو حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے وہ عوام کی رائے کو اپنے حق میں کر لیتی ہے۔ موجودہ حکومت کا اس دورانئے کا یہ آخری بجٹ ہے اس لئے یہ کئی گنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بہرحال وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے اقتدار میں پہلی بار پانچواں بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پاکستان پر قرضوں اور سود کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے جمہور دوست بجٹ کی توقع کم کم ہی تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پچھلے کچھ سالوں سے ایک ایسا ماحول ہماری قسمت رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے لئے دفاع کے شعبے کو زیادہ ترجیح دینا ضروری ہو گیا تھا۔ دنیا اس وقت کھانے پینے کی چیزوں سے زیادہ اسلحے کی خرید و فروخت پر پیسہ خرچ کر رہی ہے اور یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام ترقی پذیر ممالک جہاں بھوک رقص کرتی ہے، بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا معیار بہت ناقص ہے، انہیں دفاعی خدشات زیادہ لاحق ہیں۔ خطے میں پاکستان کی جو پوزیشن ہے اس کے ہر طرف کوئی نہ کوئی چال اور سرنگ بچھی ہوئی ہے۔ بظاہر دوست نظر آنے والے اندر سے کوئی اور کھیل کھیلتے اور سازشیں رچاتے پھر رہے ہیں۔ دنیا کی بہترین انٹیلی جنس قوتیں پاکستان کے وسائل کو قابو میں کرنے کے لئے ملک کو خانہ جنگی اور دیگر حادثات کا شکار کرتی رہتی ہیں۔ ٹرمپ کا حالیہ دورہ سعودی عرب خطے میں امن و امان کی بجائے ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھ چکا ہے۔ ان سب شاطر ذہنوں کی تیار کردہ سازشوں کا قلع قمع اور سرحدوں پر تیرتے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے دفاع کو پہلے نمبر پر رکھنا حکومت کی مجبوری بن چکا ہے۔ اس خطے کے تمام ممالک جب تک آپس میں دوستی اور بھائی چارے کو فروغ نہیں دیں گے عالمی طاقتیں اپنا اثر دکھاتی رہیں گی۔ ان کے ملک خوشحال تر اور ہم قرضوں تلے دبتے چلے جائیں گے اور ہماری خود مختاری غلامی میں ڈھلتی جائے گی کیوں کہ آج روایتی غلامی کا دور نہیں۔ اب معاشی حوالے سے دنیا میں حکمرانی اور غلامی کے معیار طے کئے جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو خطے کے تمام ممالک کچھ عرصے کے لئے غربت کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کا قلع قمع کرنے کی تدبیریں کریں اور آپسی اختلافات کو بھلے ختم نہ کریں مگر نظرانداز کرنے والی فائل میں رکھ دیں۔ بہرحال موجودہ حکومت ایک ایسا بجٹ پیش کر چکی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے کہنے کو بہت کچھ ہے۔ حکومت دفاعی پوزیشن پر نہیں کیوں کہ اس بجٹ میں کچھ انقلابی اقدامات بھی موجود ہیں اور تنقید کرنے کے لئے اپوزیشن کو بھی کچھ مواد میسر ہے۔ بہرحال کچھ لوگ منطقی اور کچھ اختلاف برائے اختلاف کے تحت تنقید کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بجٹ سے پہلی ترقیاتی مد کو تین گنا کرنے کی خوشخبری سنا کر بہت ساری آنکھوں میں خواب بو دیئے تھے۔ لوگ ایک ایسی زندگی کا تصور کرنے لگے تھے جس میں انہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو ترجیحی بنیادوں پر رکھا جائے گا۔ بہرحال حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں الائونسز ضم کر کے انہیں وقتی طور پر خوش کر چکی ہے۔ بہرحال اپنے بیٹے کی نوکری اور گھر کے لئے ایک سرکاری ملازم کی خود کشی معاشرے کی اصل تصویر سامنے لا چکی ہے۔ آشیانہ کی اسکیم بہت اچھی ہے۔ حکومت کو فلیٹوں کی طرز پر غریب لوگوں کے لئے رہائشی سہولتوں کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے ورنہ خود کشیاں ہوتی رہیں گی۔ کسی بھی ریاست کی پہچان اس کی بلند و بالا عمارتوں اور چند فیصد لوگوں کی پرتعیش زندگی نہیں ہوتی بلکہ عام آدمی کا معیارِ زندگی دیکھ کر ملکوں کی خوشحالی اور ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی طرف سفر آغاز کرنے کے لئے اکثریت کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی ضرورت ہے جب کہ ہمارے ہاں غریب اور امیر طبقے میں دن بدن فرق بڑھتا جا رہا ہے جو باعثِ تشویش ہے۔ اس ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کا آغاز عوام کا مورال بلند کر کے انہیں اچھے شہری بنانے سے ہو گا۔ دیگر ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے ان کے اندر جو احساسِ کمتری اور بے بسی جاگزیں ہو چکا ہے اس کا خاتمہ کر کے خود اعتمادی کو ان کی پہچان بنا سکتے ہیں، اندر سے مضبوط اکثریت خوش آئند مستقبل کی ضمانت ہے ورنہ جس کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں، جس کے عزیز بیماری کی اذیت سے دوچار ہوں، جس کے سر کا سائبان موسم کی شدت سے نہ بچا سکے اسے کوئی کمزور لمحہ یرغمال کر کے راہِ راست سے بھٹکا سکتا ہے۔ اس لئے حکومت سے گزارش ہے کہ وہ بجٹ کے دوران کچھ اور انقلابی اقدامات کرے، غیر ضروری اخراجات کو کم سے کم کر دے۔ حکومت اپنے اخراجات پہلے بھی کافی کم کر چکی ہے لیکن ابھی اس میں بڑی گنجائش ہے تاہم پنجاب اس بار بھی ایک عوام دوست بجٹ دے کر پوری دنیا سے شاباش حاصل کرنے کی تیاری کر رہا ہے جو یقیناً یہاں کے لوگوں کے درمیان موجود طبقاتی فرق کو کم سے کم کرنے کی طرف سفر کا آغاز ہو گا۔ اصل مسئلہ تو اس طبقاتی فرق کو کم کرنا ہی ہے۔


.
تازہ ترین