• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی کی طرح گزشتہ ہفتہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا سال 2017-18 بجٹ کا بھی سنگین المیہ یہ رہا کہ بجٹ کی کل رقم کا سب سے بڑا حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے گا۔ اس المیہ پر میں نے گزشتہ سالوں کے دوران کئی بار لکھا لیکن کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ سود کتنا بڑا گناہ ہے اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں۔ اس سے مسلمانوں کو سختی سے منع کیا گیا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حال یہ ہے کہ ہم سود کو چھوڑنےکےلیے تیار نہیں۔ ہمارے لوگ بھوکے مر رہے ہیں، پاکستان کی تقریباً نصف آبادی کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں،تنگدستی سے بے زار خودکشیوں اور غربت ، بھوک اور افلاس کے مارے ماں باپ کی طرف سے اپنے بچوں کو قتل کر نے کے واقعات بڑھ رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ سود کی مدمیں1363 ارب روپے کی خطیر رقم نئے سال کے بجٹ میں مختص کر رہے ہیں۔ عام طورپر جب سود کی ادائیگی کی بات کی جاتی ہے تو تاثر یہ دیاجاتاہے کہ یہ تو ہماری مجبوری ہے کیوں کہ اس ادائیگی کا تعلق بیرونی قرضوں سے ہے جو حقیقت نہیں بلکہ مکمل جھوٹ اور فراڈہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق سود کے لیے مختص 1363 ارب روپے میں سے صرف 132 ارب روپے بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں خرچ کیے جائیں گے جبکہ اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کےلیے1231 ارب روپے بجٹ میں رکھا گیا ہے۔ زرا سوچیں اگر ہر سال یہ رقم پاکستان کے غریبوں پر خرچ کی جائے تو کیا چند ہی سالوں میں یہاںکوئی غریب رہے گا؟ بلکہ یہ تو اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بناسکتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی سوچتاہی نہیں۔ افسوس اس بات کاہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین اپنے دین کی تعلیمات کے برخلاف اس غیر اسلامی کام کےلیے آنکھیں بند کر کے اپنا ووٹ ڈال کر ہر سال بجٹ پاس کروادیتے ہیں۔ اس گناہ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوتی ہیں۔ ویسے تو بجٹ اجلاسوں کا بائیکاٹ ایک عام معمول ہے، اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی طرف سے بجٹ کی مخالفت اور اپنے من پسند تجاویز کی شمولیت کےلیے بھی بہت آوازیں اٹھائی جاتی ہیں لیکن کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی سیاسی جماعت نے بجٹ اجلاس کا اس لیے بائیکاٹ کر دیا ہو کیوں کہ اس بجٹ میں سود جیسی لعنت کے لیے اتنا بڑی رقم رکھی گئی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سنا کہ حکومتی اراکین جو اپنے حلقوں کے ترقیاتی بجٹ کے لیے انفرادی اور اجتمائی طورپر حکومت اور وزیر اعظم پر دبائو ڈالتے ہیں، کبھی سود کے معاملے پر بھی وزیر اعظم کے سامنے ڈٹ گئے ہوں یا انہوں نے انکار کر دیا ہو کہ ایسے سودی بجٹ کو پاس کروانے کےلیے اُن کا ووٹ دستیاب نہ ہو گا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ وہ ان معاملات سے ناواقف ہے۔ بجٹ دستاویزات کو دیکھیں تو سب سے پہلے نظر ہی سود کی ادائیگی (interest payments) پرپڑتی ہے کیوں کہ یہ رقم پاکستان کے دفاع یا ترقیاتی کاموں کےلیے مختص رقوم سے بھی زیادہ ہے ۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں سود کی ادائیگی کے لیے دس ہزار ارب روپِےسے زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا جو ایک طرف اللہ تعالی کی ناراضی کا سبب ہے تو دوسری طرف یہ پاکستان اور اس کی غریب عوام کے ساتھ انتہائی درجہ کی زیادتی ۔ یہ رقم اگر لوگوںپر خرچ کیجائے تو اُن کی زندگی بدل جائے۔ لیکن یہ سارا پیسہ اُن چند جیبوں میں چلاجاتاہے جو بینکنگ کے نام پر حکومت کو سالانہ کھربوں روپے قرض دے کر اس سودی رقم میں ہر سال اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ جس حساب سے حکومتیں اندرونی قرضوں کے شکنجے میں پھنستی جا رہی ہےتو اُس تناظر میں ڈر ہے کہ کہیں دو چار دہائیوں کے بعد پاکستان کا تمام کا تمام بجٹ ہی سود نہ کھا جائے۔ گویا ہم اپنی دنیا بھی خراب کر رہے ہیں اور آخرت بھی۔ کاش کوئی سوچے تو!!!



.
تازہ ترین