• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ایک ڈاکٹر منٹو سے ملاقات پورے سرینگر سے ملاقات کے برابر ہو گی۔‘‘ یہ پیغام مجھے سرینگر سے موصول ہوا تھا۔ مانچسٹر سے لندن تک چار گھنٹے کے بائی روڈ سفر کے دوران ڈاکٹر منٹو نے کئی مرتبہ کال کی اور پیغام بھیجا لیکن میں نے نامعلوم اور غیرشناسا نمبر سے آنے والی کال نہ سننے کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہ کالیں اور پیغامات نظرانداز کر دیئے۔ ڈاکٹر منٹو نے برمنگھم میں بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مرتضیٰ علی شاہ اور بسیم بیگ چغتائی صاحب نے برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں غیرضروری ملاقاتوں سے گریز کا مشورہ دیا تھا کیونکہ ہم برطانوی انتخابات کی جائزہ مہم میں زیادہ سے زیادہ امیدواروں سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ تین دن کا تھکا دینے والا سفر ختم ہونے پر مجھے کچھ آرام کی طلب تھی کیونکہ اگلے دن لندن سے اسلام آباد تک کا سفر پی آئی اے پر کرنا تھا اور پی آئی اے کسی بھی وقت مسافروں کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن سرینگر سے موصول ہونے والے پیغام کے بعد میں سوچنے لگا کہ ڈاکٹر منٹو کو کب اور کیسے ملوں؟ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اُن کا فون آ گیا۔ وہ برمنگھم میں تھے اور اگلی صبح ملاقات کے متمنی تھے۔ میں نے انہیں دریائے ٹیمز کے کنارے واقع رافائل ہوٹل کا ایڈریس سمجھانے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے کہا وہ ہوٹل میں نہیں ملیں گے۔ انہوں نے مجھے اگلی صبح ہائیڈ پارک کے ماربل آرچ والے کونے میں بلا لیا۔ صبح ہوئی تو سمیع یوسفزئی ملنے آ گئے۔ ان سے کچھ دیر تک پاک افغان تعلقات پر گفتگو ہوئی اور پھر اُنہوں نے مجھے ماربل آرچ کے سامنے ڈراپ کر دیا۔ ڈاکٹر منٹو اپنے بیٹے کے ہمراہ میرا انتظار کر رہے تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ شام کو میری واپسی ہے تو مسکرائے اور اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میں نے کہا تھا ناں کہ حامد میر پاکستان اور ہندوستان کا کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے نہیں رُک سکتا۔‘‘
اُن کے بیٹے نے کہا کہ آپ میچ تو نہیں دیکھیں گے لیکن پاکستان واپس جا کر کسی مشہور ہندوستانی ٹی وی چینل کے ساتھ مل کر کرکٹ میچ سے قبل خوب ہلہ گلہ کریں گے اور سکندر بخت صاحب آپ کے ساتھ مل کر بھارتی مہمانوں کے ساتھ اٹھکیلیاں بھی کریں گے۔ میں خاموش رہا۔ ڈاکٹر منٹو نے کہا کہ کھیل میں سیاست نہیں آنی چاہئے لیکن ہندوستان کھیل میں سیاست لے آیا ہے اُس نے پہلے بنگلہ دیش کو اپنے ساتھ ملایا اب افغانستان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور کرکٹ کو بلیک میلنگ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اب چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان اور ہندوستان کا میچ برطانیہ میں کھیلا جائے گا ہم چاہتے ہیں کہ اس میچ میں ہم سیاہ جھنڈے لے کر جائیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم پر احتجاج کریں۔ ڈاکٹر منٹو نے کہا کہ آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ دنیا کو یہ ضرور بتا دیں کہ کرکٹ میچ میں سیاہ جھنڈے لہرانے کا مقصد بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ میں خاموش تھا۔ ڈاکٹر منٹو کی آواز کچھ بلند ہو گئی۔ انہوں نے کہا ہماری صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ ہماری آواز بن جائیں، ہم بہت دُکھی لوگ ہیں ہم پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور آپ لوگ پاناما کیس میں الجھے ہوئے ہیں آپ کو سجن جندل سے ملاقات تو یاد رہتی ہے بس ہم یاد نہیں رہتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کلبھوشن یادیو کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں کیسے پہنچا اور پھر اچانک ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے پر آمادگی کیسے ظاہر کر دی لیکن ہم پاکستان کے ارباب اختیار کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم صرف اپنا دکھ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے ڈاکٹر منٹو سے وعدہ کیا کہ اگر آپ نے ہندوستان اور پاکستان کے میچ میں سیاہ جھنڈے لہرائے تو میں ان جھنڈوں کا مقصد ضرور بیان کر دوں گا۔ یہ سُن کر ڈاکٹر منٹو کی آنکھیں آنسوئوں سے جھلملا گئیں اور انہوں نے میرا ہاتھ چوم کر کہا کہ دنیا کی ایک مظلوم قوم کا یہ پردیسی بوڑھا آپ کو ہمیشہ دعائیں دے گا۔
ڈاکٹر منٹو کے لہجے اور اُن کی باتوں میں موجود درد ناقابل بیان تھا۔ اُنہوں نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک پرانی البم نکالی اور ڈاکٹر عبدالاحد گورو کے ساتھ اپنی تصاویر دکھانے لگے۔ ڈاکٹر گورو کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے سرینگر میں قتل کروایا تھا اور الزام کشمیری حریت پسندوں پر لگا دیا تھا لیکن سرینگر کے ایک ڈی سی وجاہت حبیب اللہ نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر گورو کی موت کی اصل کہانی بے نقاب کر دی اور بتایا کہ اس قتل کا ماسٹر مائنڈ کشمیر پولیس کا آئی جی بی ایس بیدی تھا۔ ڈاکٹر گورو کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے حریت رہنما یاسین ملک کا علاج کیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد سرینگر کے ایک اور سرجن ڈاکٹر فاروق احمد مشائی بھی بھارتی سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے جس کے بعد ڈاکٹر منٹو اپنے اہل خانہ کے ساتھ برطانیہ آ گئے۔ وہ کئی سال تک برطانیہ میں خاموشی سے زندگی گزارتے رہے۔ پھر اُن کے وکیل دوست جلیل اندرابی کو راشٹریہ رائفلز نے اغوا کیا اور قتل کر کے لاش دریائے جہلم میں پھینک دی۔ اس واقعے کے بعد ڈاکٹر منٹو چین سے نہیں بیٹھے۔ وہ تقریباً روزانہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط لکھ کر اُسے کشمیر پر سیکورٹی کونسل کی قراردادیں یاد کراتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک اقوام متحدہ کو ساڑھے تین ہزار خط لکھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر منٹو کہہ رہے تھے کہ ہم کشمیری پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں ہم نے پاکستان کے پرچم کو اپنا کفن بنا لیا ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں سے ہمیں بہت شکوے ہیں۔ انہوں نے بتایا ایک دن میں لندن میں پرویز مشرف کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اُنہیں پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ دربدر کیوں ہیں؟ مشرف نے کہا نہیں۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ آپ نے من موہن سنگھ کے ساتھ مل کر ہماری تحریک آزادی کا سودا کرنے کی کوشش کی لہٰذا رسوائی آپ کا مقدر بنی۔ آپ کو کبھی عزت نہیں ملے گی۔ ڈاکٹر منٹو نے کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ مجھے کہا کہ ہمارا ایک پیغام نواز شریف تک پہنچا دیجئے گا۔ اُنہیں کہئے گا کہ آپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہمارے مجاہد برہان وانی کا نام لیا آپ کا بہت شکریہ لیکن اوفا میں مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں سے کشمیر کا ذکر غائب تھا۔ نواز شریف ذرا غور کریں، جب انہوں نے اوفا میں کشمیر کا ذکر گول کیا اُس کے بعد سے اُنہیں چین کی نیند نصیب نہیں ہوئی۔ سجن جندل سے ملاقات بھی اکسیر ثابت نہ ہوئی بلکہ معاملات اتنے بگڑے کہ آج پورا خاندان جے آئی ٹی کو بھگت رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ جے آئی ٹی کا کشمیر سے کیا تعلق ہے؟ ڈاکٹر منٹو نے کہا کہ جو بھی کشمیریوں کا درد بھلائے گا وہ خود کسی جان لیوا درد کا شکار ہو جائے گا۔ اجازت لینے سے قبل ڈاکٹر منٹو نے کہا ہمیں راحیل شریف سے بھی بڑی اُمید تھی کہ اسلامی اتحاد کا سربراہ بن کر ہماری آواز بنے گا لیکن وہ بھی ہمیں بھول گیا۔ راحیل شریف کا انجام مشرف اور نواز شریف سے مختلف نہ ہو گا۔



.
تازہ ترین