• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھاگ اخبار نویس کسی خبر کو اچھا یا برا نہیں لکھتے، محض ’دلچسپ ‘کے اسم صفت سے بیان کیا کرتے ہیں۔ مرحوم عبداللہ ملک تو بری سے بری خبر کا ابتدائیہ کچھ یوں لکھتے تھے کہ ’لطف کی بات تو یہ ہے…‘۔ تو آئیے کچھ دلچسپ خبروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان تحریک انصاف میں شامل ہو گئیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی موجودگی میں انہوں نے جوولولہ انگیز تقریر کی اس سے بیگم جہاں آرا شاہ نواز کی سیاست تازہ ہو گئی۔ قاف لیگ سے مسلم لیگ میں آنے والے زاہد حامد پر پھبتیوں کی لین ڈوری باندھنے والوں کو غالباً قاف لیگ سے نکل کر پیپلز پارٹی سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں محترمہ فردوس عاشق اعوان کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ہمارے ہر دلعزیز فواد چوہدری بھی تو قاف لیگ سے پیپلز پارٹی کے راستے تحریک انصاف کی ترجمانی تک پہنچے ہیں۔ آج کل منی ٹریل یعنی اس کوٹھری کے دھا ن دوسری کوٹھری تک پہنچانے کے قصے عام ہیں۔ پوچھا جاتا ہے کہ پیسہ کدھر سے ہوتا ہوا کہاں پہنچا۔ یہ سوال آداب کے منافی ہے کہ سیاسی وابستگی کا ٹریل بھی معلوم کر لیا جائے۔ ہماری تاریخ میں یونینسٹ پارٹی، ری پبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی پٹریاٹ اورمسلم لیگ (ق) کی روایت پر سوال اٹھانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوال البتہ کرتے رہنا چاہئے کہ جب فضل الٰہی چوہدری اور رفیق تارڑ کو ایوان صدر سے ڈنڈا ڈولی کر کے رخصت کیا جا تا ہے تو سیاسی رسوخ کا کھرا نکالنے والے کھوجی علالت طبع کے باعث رخصت پر کیوں چلے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی میں مختصر نویسی کے امام پولینڈ کے ادیب گبرئیل لائوب نے اپنی کتاب ’رنجیدہ منطق‘ (Angry Logic ) میں لکھا تھا کہ’ ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگ لگانے والے چوہوں کو مطعون کیوں کیا جاتا ہے۔ ڈوبتے ہوئے جہاز میں چوہوں کا کام ہی کیا ہے؟‘
خیال تو یہ تھا کہ اب تک انتخابی مہم شروع ہو جائے گی۔ مارچ میں سینیٹ کی باون نشستوں کے لئے انتخاب ہو گا اور پھر 2018 ء میں کسی وقت عام انتخابات منعقد ہوں گے۔ اس نقشے پر دھند کے ٹکڑے نمودار ہو رہے ہیں۔ قریب سو برس پہلے مولانا ابوالکلام آزاد نے قول فیصل کے ایک معروف جملے میں میدان جنگ اور کمرہ عدالت میں ہونے والی ناانصافیوں کا موازنہ کیا تھا۔ مولانا آ زاد صاحب بصیرت تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میدان جنگ اور کمرہ عدالت میں حد فاصل معدوم ہونے لگے تو ناانصافی کا جوہر بدل جاتا ہے۔ کمزور مزید کمزور ہو جاتا ہے اور طاقتور کے ترکش میں تیر بڑھ جاتے ہیں۔ کمرہ عدالت اور میدان جنگ میں امتیاز کرنے والی لکیر تب معدوم ہوتی ہے جب ناانصافی کا اسکرپٹ ناکام ہو جائے۔ تمثیل کے اجزا کا قوام بگڑ جائے۔ نیم حکیم کے صدری نسخے کے اجزا باہم متصادم ہو جائیں۔ ایسے موسم میں وبا، ابتلا اور آفتوں کا اندیشہ جنم لیتا ہے۔
دنیا بھر کی سیاست میں مثالی شفافیت کہیں نہیں پائی جاتی۔ دو دفعہ وزیراعظم رہنے کے بعد اندرا گاندھی کو کرپشن کے الزام میں جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی۔ بوفورز توپوں کا اسکینڈل راجیو گاندھی کو لے ڈوبا تھا۔ بھارت کے صوبے بہار میں چارہ اسکینڈل تو ابھی کل کی بات ہے۔ ان دنوں امریکہ میں انتخابی مہم کے دوران ممکنہ بے قاعدگیوں پر بحث ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے بجٹ تقریر سے کئی گھنٹے پہلے نجی ٹیلی وژن چینلز پر طمطراق سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ ہمارے چینل نے بجٹ کی دستاویزات حاصل کر لی ہیں۔ سننے والے کو خیال آیا کہ 1947ء میں برطانیہ کے وزیر خزانہ ڈالٹن کو بجٹ کے بارے میں تفصیلات افشا کرنے پر مستعفی ہونا پڑا تھا۔ استعفے کا مطالبہ ہماری تاریخ میں بھی ایک مقام رکھتا ہے۔ پہلے پہل حمید نظامی نے خواجہ ناظم الدین سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا اور پھر گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ صاحب کو برطرف کر دیا۔ استعفے کا مطالبہ جنرل ایوب اور بھٹو صاحب سے بھی کیا جاتا تھا۔ میاں نواز شریف نے بھی 1999ء میں استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا۔ آج کل بھی استعفیٰ مانگنے کا موسم ہے۔ کرپشن یا بدعنوانی کی جواب دہی ضرور ہونی چاہئے۔ اسی طرح حکومت اخلاقی جواز کھو بیٹھے تو اسے اقتدار میں رہنے کا حق نہیں رہتا۔ تاہم ہماری مشکل شاعر نے کچھ یوں بیان کی ہے ’معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے‘۔ ہماری تاریخ میں کرپشن کی دہائی جمہور کو حق حکمرانی سے محروم کرنے کا بیانیہ ہے۔ یہ کہنا لاحاصل ہے کہ نادیدہ لکیر کے دونوں طرف کرپشن ایک حقیقت ہے۔ کرپشن کا سدباب جمہور کی حکمرانی کو مضبوط کرنے سے کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کشتی میں سوراخ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قطعات اراضی کے ضمن میں جنرل مٹھا کی خودنوشت پڑھنی چاہئے۔ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی بوجوہ خود نوشت ’یہ خاموشی کب تک‘ میں بھی نیب کا کچھ احوال بیان کیا گیا ہے اور یہ پوچھنا تو قطعی نامناسب ہے کہ برادران یوسف ان دنوں وطن عزیز سے باہر کیوں ہیں؟ کرپشن ایک جرم ہے اور اس کی جواب دہی ہونی چاہئے لیکن اگر کرپشن کو آئینی بندوبست کی بنیادوں پر چلانے کے لئے کدال میں بدل دیا جائے تو عدالت اور محاذ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اس سے معاملات درست نہیں ہوتے، مزید پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔
کرپشن کے بیانئے کا ایک ناگزیر نتیجہ فرشتوں کا پولٹری فارم قائم کرنا ہے۔ صاف ستھرے اور دیانت دار مسیحا تیار کئے جاتے ہیںاور انہیں صنعت و حرفت کی نمائش میں، شوکت اسلام کے جلوسوں میں، دھرنے کے کنٹینروں میں اور نائن زیروکی محل سرائوں میں رونمائی دی جاتی ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد بہت دیانت دار شخص تھے۔ اصغر خان صاحب کی دیانت ضرب المثل تھی۔ ایک وقت میں ایسا بھی آیا جب میاں نواز شریف کو شرافت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا۔ پرویز مشرف کا بے داغ دامن تو کسی بحث سے ماورا تھا۔ کروشیے کی ٹوپی پہن کر چیف جسٹس افتخار چوہدری نماز جمعہ ادا کرنے نکلتے تو بادل کا ٹکڑا ان کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ علامہ طاہر القادری کی مسیحائی اور دیانت داری میں کسے کلام ہو سکتا ہے۔ ایک صاحب اقتدار نے سراج الحق صاحب کو آئین کی دفعات 62-63 پر پورا اترنے کی سند عطا کر دی۔ اس میں کچھ تسامح ہوا۔62-63کی پاسداری پر عمران خان کا حق ہے۔ ایک طرف فرشتے اور مسیحا ہوں گے اور دوسری طرف چور، لٹیرے اور ڈاکو ہوں گے تو ایک ناگزیر المیہ پیدا ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی مرحلے پر کسی کو کہنا پڑتا ہے کہ ’میں فرشتے کہاں سے لائوں‘۔ فرشتوں کے معاملات عالم ملکوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ آئیے اردو کے شاعر احمد شمیم کی نظم کا اقتباس پڑھتے ہیں۔
ہوا میں رچ گئی ہے دور سے آتے ہوئے چیتے کی بو
پتے لرزتے ہیں !
پنہ گاہوں کے دروازوں پہ بیٹھے بے کماں لشکر
ہماری مختصر سانسوں کے ضامن ہو نہیں سکتے
نئے الفاظ کے ایندھن سے
ہم ٹھٹھری ہوئی راتوں کو روشن کر نہیں سکتے



.
تازہ ترین