• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کی دنیا میں شدت پسندی اور دہشت گردی اتنی بڑی لعنت ہیں کہ جو لوگ اس کا ارتکاب کرنے میں پیش پیش ہیں وہ بھی بظاہر اس کے خلاف یوں بول رہے ہوتے ہیں کہ گویا ان کا اس برائی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اگر آپ کا سابقہ القاعدہ یا طالبان جیسے متشدد گروہوں کے کسی نظریاتی و فکری ساتھی یا ہمدرد سے پڑ جائے تو آپ کو حیرت ہو گی کہ وہ بھی دہشت گردی کے خلاف یوں بول رہا ہو گا جیسے اس سے بڑھ کر امن کا پرچارک کوئی نہیں۔ نائن الیون سے بھی پہلے کی بات ہے ہم نے اپنے معروف اسکالرز سے اس ایشو پر مباحثہ کیا تو اُن میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے کہا کہ خود کش حملوں کو خود کش حملے نہیں فدائی حملے کہو۔ یہ تو اپنی جانوں پر کھیل جانے والے عظیم لوگ ہیں۔ البتہ جاوید غامدی صاحب نے یہ کہا کہ میرے نزدیک مذہب میں جہاد کی پرائیویٹائزیشن ناجائزہے آج وقت کافی بدل گیا ہے جو اس برائی کے ماسٹر مائنڈ تھے آج انہوں نے بھی عالمی رائے کے دباؤ میں کسی حد تک اس برائی کی سر پرستی سے ہاتھ کھینچا ہے تو اس کے اثرات نچلی سطح تک محسوس ہونے لگے ہیں ان دنوں اسلام آباد میں کچھ علماء حضرات نے اس نوع کا فتویٰ جاری فرمایا ہے کہ پرائیوٹ جہاد نہیں ہونا چاہئے اور خود کش حملے بھی حرام کی موت ہیں تو مدرسہ حقانیہ کے بڑے استاد نے اس پر اپنے تحفظات کا کھلے بندوں اظہار کر دیا ہے یہ کہ مغرب کی کٹھ پتلی حکومتیں کون ہوتی ہیں جہاد کروانے والی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت ریاض میں جو عرب اسلامی امریکی سربراہی کانفرنس ہوئی ہے اس پر بھی مباحثہ جاری ہے عرب و عجم میں ہر کوئی اس پر مثبت یا منفی اظہارِ خیال کر رہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نواز شریف فرما رہے ہیں کہ ہم انتہاپسندی کے خلاف بننے والے ریاض عالمی مرکز کا حصہ ہونگے یا نہیں ہونگے اس کا فیصلہ ابھی نہیں کیا البتہ یہ واضح ہے کہ مغرب ٹیررازم کے خلاف صف آرا ہو چکا ہے اور مسلم امہ بھی پیچھے نہیں رہے گی۔ مشیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف سخت باتیں کرتے رہے ہیں اب ان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اب وہ اس برائی کے خلاف مسلمانوں کا تعاون چاہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی پوری تقریر میں کہیں پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا ہے البتہ ہمارے ہمسایہ ہندوستان اور افغانستان کا ذکرکرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ انہیں بد ترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے صریح الفاظ ضروری نہیں ہوتے مگر پھر بھی دہشت گردی کے حوالے سے امریکیوں کی ہمارے متعلق کیا سوچ ہے اس کا ادراک ہم امریکی کانگریس کے رکن ایڈم کنرنگر کے تازہ اظہارِ خیال سے کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کو اپنی افغان پالیسی کی تعمیل کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی بھی موثر اقدام اٹھا لینا چاہئے ہمیں ایک مرتبہ پھر طالبان، حقانی نیٹ ورک، القاعدہ یا پاکستان میں موجود ان جیسے دیگر گروپس کے خلاف اسٹرائیک کا سوچنا پڑے گا۔ ہم پاکستان کو مکمل طور پر پیچھے نہیں کر سکتے کیونکہ دوسرے پہلو سے وہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اندرونِ ملک ہماری سیاسی و عسکری قیادت اور رائے عامہ کا موقف قطعی مختلف ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں کوئی کردار سرے سے ادا ہی نہیں کیا۔ دہشت گر د گروہوں یا تنظیموں کی کبھی کوئی خفیہ مدد یا ہمدردی تک نہیں کی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس دنیا ہمارے اس موقف کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہے پوری عالمی برادری اور عالمی میڈیا اس حوالے سے کامل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ہمارے وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کیخلاف بڑی قربانیاں دی ہیں دنیا کو ان کا اعتراف کرنا چاہئے ہم نے 120ارب ڈالر اور ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی ہیں ہمارے آرمی چیف نے بھی امریکی سفیر سے کہاہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہو رہی اور نہ ہی پاکستان کیخلاف کسی دوسرے ملک کی سر زمین کا استعمال برداشت کیا جائیگا۔
عالمی برادری کا اصرار ہے کہ ہم انڈیا کے ساتھ دشمنی کا نظریہ ختم کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو نارمل بنائیں یورپ، امریکہ، روس، چین، مسلم اور عرب ورلڈ سبھی ہمیں یہی سمجھاتے رہتے ہیں کہ اگر دنیا میں اقوامِ عالم کے دوش بدوش آگے بڑھنا ہے اور اپنے عوام کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہے تو اپنے ہمسایوں بالخصوص انڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناؤ۔ انڈیا کے حوالے سے ہمارے جو بھی تحفظات ہیں افغانستان کے حوالے سے تو وہ بھی نہیں ہیں افغانستان تو ہمارا برادر مسلم ہمسایہ ہے لیکن عوامی طور پر ہم یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے افغانوں کی اپنی کوئی سوچ یا وژن نہیں ہے وہ تو بس بھارت سرکار کے پیچھے لگے ہوئے ہیں انہی کی لگائی بجھائی پر ہمارے خلاف بھڑکنے لگتے ہیں۔ ہماری رائے میں ہمیں خارجی تعلقات و معاملات پر اس نوع کی زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے کسی بھی قوم کو اتنے ہولے درجے میں پیش نہیں کرنا چاہئے اگر افغان بھائیوں کو ہم سے شکایات ہیں تو ہمیں مل بیٹھ کر انہیں حل کرنا چاہئے۔
اگر ہم سعودی عرب سے مثالی عقیدت اور لازوال دوستی کے باوجود ایران کا ایک ہمسایہ ملک کی حیثیت سے لحاظ کر سکتے ہیں تو افغانستان کا کیوں نہیں کر سکتے بلکہ اس سے اگلی بات یہ ہے کہ ہمیں عالمی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے انڈیا کیساتھ بھی اپنے معاملات درست کرتے ہوئے ہر تنازع کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہئے۔ ہمیں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ انڈیا میں پاکستان سے بھی زیادہ مسلمان بستے ہیں جن کی یہ آرزو ہے کہ ہم اُن کے ملک سے دوستانہ تعلقات قائم کریں۔ انہی آدرشوں اور سوچوں کے ساتھ ہم نہ صرف شدت پسندی و دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر اپنے متعلق پائی جانے والی منفی سوچوں کو بھی ختم کروا سکتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم عوامی ترقی و خوشحالی کے ساتھ اقوامِ عالم میں وطنِ عزیز کا لبرل اور روشن چہرہ پیش کریں۔



.
تازہ ترین