• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ابھی خود طالبعلمی کی زندگی گزار رہا تھاکیمرج یونیورسٹی کے امتحان میں ورلڈ ریکارڈبنانے کی وجہ سے مجھے ہر جگہ پذیرائی مل رہی تھی لیکن چیزوں کو پرکھنے کے فن سے ابھی ناآشنا تھا دوسروں کی شخصیت کا اندازہ لگانےمیں بھی نابلد تھا لیکن میرے سامنے جو شخص بیٹھا تھا اس کی شخصیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا آج سے کئی سال پہلے میں پاکستان کے دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے اور تیسری مرتبہ پھر وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھنے والےپاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کے سامنے بیٹھا تھا، معصوم سی شکل و صورت اور باتیں کرنے کا انداز بھی بڑا معصومانہ لگ رہا تھا، دوسروں کی بات بھی غور سے سنتے اور اپنے بھائی میاں شہباز شریف کے مقابلے میں کم سوالات کرتے ، میاں شہباز شریف سے ملاقات بہت بعد میں ہوئی تھی تو مجھے انداز ہوا کہ کسی بھی حوالے سے بات کو سمجھنے کیلئے کئی سوالات کرتے ہیں اور نکتہ چینی بھی ہوتی ہے لیکن میاں محمد نواز شریف سنتے ہیں اور جب ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرتے تو ان کے ہاتھوں کی انگلیاں پوری طرح کھلی ہوتیں، حالانکہ جو لوگ ہاتھ ہلا کر بات کرتے ہیں ان کا انگوٹھا توعلیحدہ ہوتاہے لیکن انگلیاں قریب قریب ہوتی ہیں، میاں صاحب خوش ہوں تو لاہوری اندازمیں ہلکی پھلکی جگت لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن جگت کرتےہوئے بھی شرارت کی بجائے معصومیت ٹپک رہی ہوتی ہے ، مجھ سے جب مخاطب ہوئے تو سوشل میڈیا کے حو الے سے میر ی رائے جا ننے کی کو شش کی۔ اس وقت تک پاکستان میں سوشل میڈیا کے الفاظ اتنے زبان زد عام نہیں ہوئےتھےجتنےآج کل ہیں میں نے کہا سر! یہ وہ ننگی اور دو دھاری تلوار ہے جو آئندہ ہر کسی کے ہاتھ میں ہوگی اور یہ میڈیا کی وہ شکل ہوگی جسے زور زبردستی یا اشتہار سے روکا نہیں جاسکے گا، لوگ سوشل میڈیا پر نہ صرف اپنی مرضی کی بات کرتے ہیں بلکہ اپنی مرضی کی تنقید بھی کرتے ہیں ، لوگ حکمرانوں سے لے کر ہر دوسرے پر حقائق یا حقائق سے ہٹ کر بات کرتے ہیں اپنی درست یا غلط سوچ کا پرچار کرتے ہیں بغیر کسی بڑے پلیٹ فارم کے اس سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی صلاحیتیوں اور فن کا مظاہرہ کرسکتے ہیں،اخبارات یا الیکٹرانک میڈیاکی مدد کے بغیر سوشل میڈیا پر اپنی سیاست، اپنے منشور یا اپنے نکتہ نظر کا اظہار کرسکتے ہیں اوراسمارٹ فون نے سوشل میڈیاتک رسائی اور اپنے مکمل خیالات کے اظہار کو بہت آسان بنادیاہے اور یہ سوشل میڈیا ہی بڑے بڑے انقلاب کا باعث بنے گا، یہ گفتگو کر کے میں خا مو ش ہو گیا۔ ہوسکتا ہے میں غلط سمجھا ہوں لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میاں محمد نواز شریف کویا تو میری بات پسند نہیں آئی یا سمجھ نہیں آئی آج کافی سال گذرنے کے بعد مجھے یہ یقین ہوگیاہے کہ انہیں میری بات سمجھ نہیں آئی تھی ور نہ آج اس کا ادراک ہوا ہو تا اور ان کی حکومت سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرنے ،حکومت یا کچھ اداروںپر تنقید کرنے والوں کو یوں اٹھا نہ لیتی، لارڈ ایکٹن کا کہنا ہے کہ اختیارات آپ کو کرپشن کی طرف لے جاسکتے ہیں لیکن کلی طورپر اختیارات آپ کو مکمل کرپٹ کردیتے ہیں اور خاص طورپر اس وقت جب آپ پر کوئی چیک نہ ہویا تنقید کا کوئی ذریعہ آپ نہ رہنے دیں۔ حکومتوں اور ملکوں کیلئے کلی طورپر اختیارات جس پر کسی کو تنقید اور بولنے والا نہ رہنے دیاجائے تو سب کچھ ہی تباہ ہوجاتاہے اور میڈیا اور خاص طورپر آزاد میڈیا تو ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے خواہ اس کی شکل سوشل میڈیا کے طورپر ہو اور سوشل میڈیا نے اس وجہ سے بھی سینگ زیادہ تیز کرلئے ہیں کہ یا تو آپ سرکاری میڈیا کے ذریعےہروقت اپنی اچھائیوں کا پرچار کرتے نظر آ تےہیں اور دیگر میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش، لیکن سوشل میڈیا کے نکلتے ہوئے سینگ آ پ گرفتاریوں سے نہیں روک سکتے کیونکہ آپ کسی بھی ملک میں بیٹھ کر اپنی رائے اور بیانیہ دےسکتے ہیں اور اس کو روکنے کی بجائے اسے اچھے بیانیہ میں تبدیل کیاجاسکتا ہے اور جب ہر چیز اور اظہار رائےپرپابندی عائد کردی جا تی ہے تو پھر وہ رائے ایک ایسےپریشر ککر کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس کے نیچے آگ تو جل رہی ہے لیکن پریشر کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اس لئے اس پریشر ککر کے پاس سوائے پھٹنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا، بری رائے اور برےبیانیہ کا مقابلہ اچھی رائے اور اچھے بیانیہ سے کیاجاسکتا ہے گرفتاریوں اور مار دھاڑ سے نہیں۔


.
تازہ ترین