• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہال ہی نہال ایک ہے ہماری چنڈال چوکڑی لیکن فی الحال خود کو نہال تک محدودرکھتے ہیں جس نے جوش خوشامد میں اپنے آقائوں کی ن لیگ کے مائنڈ سیٹ کو پوری طرح بے نقاب کرکے رکھ دیا۔ خدا جانے لوگ کیوں تھو تھو کررہے ہیں، برا منا رہے ہیں، غصہ دکھارہے ہیں۔ مجھے تو نہال نے نہال کردیا۔ گھر کا بھیدی ہے ناں اس لئے اس نے لنکا ڈھا بھی دی، جلا بھی دی کہ یہی ان کا حقیقی اور اصلی چہرہ ہے۔ جوش خوشامد یا جوش جذبات میں صحیح بات باہر آگئی ہے، تو برا منانے کی بجائے اس جمہوری نو نہال کا شکریہ ادا کرناچاہئے۔یہی وہ جمہوریت ہے جس پر میں اکثر سرعام لعنت بھیجا کرتا ہوں ورنہ جمہوریت کی برکات سے تو میرا باورچی بھی ان لونڈوں لپاٹوں سے زیادہ واقف ہے جو مجھے جمہوریت دشمن یا انارکسٹ کہتے ہیں۔ مستثنیات کو چھوڑ کر ہم میں سے اکثر کوہی دولت اور طاقت ہضم نہیں ہوتی اور یہ پاکستان تک محدود نہیں، پوری غیرمہذب دنیاکا المیہ ہے جسے پہلے ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ اور اب پیار سے ‘‘ ترقی پذیر‘‘ دنیا کہتے ہیں حالانکہ ’’ترقی‘‘پوش آبادیوں، بیش قیمت کاروں، جدید ترین سیل فونوں، ریشمی شاہرائوں، پرتعیش فیریوں، فلک بوس عمارتوں، ڈیزائنرز سوٹوں، مگرمچھ کی کھال کے بوٹوں یا رائیل سیلوٹوں کا نام نہیں..... خوبصورت انسانی رویوں کا نام ہے، تعصبات سے پاک قوت ِ برداشت کا نام ہے۔ بامعنی تخلیق و تعمیر، تقدیر بدل دینے والی ایجاد و اختراع کا نام ہے لیکن ان کی جمہوری اور ترقی کیا ہے؟’’شریف فیملی کا حساب لینے والوں کو چھوڑیں گے نہیں‘‘’’آج حاضر سروس ہو کل ریٹائر ہو جائو گے، تمہارے بچوں اور خاندان کے لئے زمین تنگ کردیں گے۔‘‘’’حساب لینے والوں کایوم حساب بنا دیا جائے گا‘‘یہاں مجھے آصف زرداری بھی یاد آ تے ہیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ ان صاحب نے بھی سرعام یہی بات کی تھی کہ..... ’’تم نے صرف تین سال جبکہ ہم نے مستقلاً یہیں رہنا ہے‘‘ آج ن لیگ کا جمہوری نونہال سوفیصد وہی بات کر رہا ہے کہ ’’آج حاضر سروس ہو کل تم نے ریٹائر ہو جانا ہے تو تمہیںہمارے غیظ و غضب کا سامنا کرنا ہوگا‘‘..... تو کوئی ہے اس ملک میں جو اس پر غور کرے کہ جس ’’تم‘‘کو دھمکایا جارہا ہے یہ ’’تم‘‘ دراصل ہے کون؟جنہیں دھمکی دی گئی وہ ’’جے آئی ٹی‘‘ کے ممبرز ہیں یا انہیں اس کام کے لئے منتخب کرنے والے وہ منصف جن پر یہ لوگ ماضی میں چڑھ دوڑے تھے۔ ان کی زندگیاں ’’کیس‘‘ سے شروع کر ’’بریف کیس‘‘ پر ختم ہوتی ہیں اوراسی ڈرل کو یہ جمہوریت کہتے ہیں۔فوج اور فلوک کی یہ پیداوار تو کسی کھاتے میں نہیں، میں آصف زرداری سے پیچھے بھٹو مرحوم تک بھی جائوں تو یہی کچھ ہے۔ اعلیٰ ترین تعلیم سے آراستہ بھٹو، جمہوریت کے چیمپئن بھٹو، قائد عوام بھٹو کی اندرونی کیفیت بھی ایسی ہی ’’جمہوری‘‘ تھی ورنہ جے اے رحیم جیسے شخص کو اس بری طرح اس کے گھر میں پٹوایا جاتا؟ پیاری پارلیمان کے معزز ارکان کو اس طرح ایوان سے باہر پھنکوایا جاتا؟ مختار رانا اور معراج محمد خان کےساتھ یہی سلوک ہوتا؟ قصور کے ایم این کی گھریلو خواتین کے ساتھ وہی رویہ رکھاجاتا جو بھٹو نے رکھا؟ اسی لئے توکہتا ہوں کہ طاقت اور دولت انہیں ہضم نہیں ہوتی۔ نہ بھٹو کو پچتی تھی نہ اس کے کسی ’’ریپلیکا‘‘ کو..... یہ تو ایم این ایز، ایم پی ایز سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے، اپنے وزیروں تک کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے اور یہ میں نہیں، چند روز پہلےان کے ذاتی وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے کہا جس نے نجانے کیوں پھر اپنا استعفیٰ واپس لے لیا ہے۔پچھلے دنوں ڈاکٹرمبشر حسن کا انٹرویو پڑھا جس میں وہ کہتے ہیں ’’بھٹو کے لئے ذاتی وفاداری بہت اہم تھی‘‘ یہی وڈیرانہ کومپلکس وائرس کی طرح ہمیں کھا گیا کہ بھٹو تو بھٹو تھا، یہ نومولود اشرافیہ بھی یہی چاہتی ہے۔ ان کے نزدیک نہ میرٹ میٹر کرتا ہے نہ پرفارمنس کوئی معنی رکھتی ہے۔ کوئی ریاست یا حکومت کا وفادار بھلے نہ ہو، ان کی وفاداری ضروری ہے، اسی لئے بیچارے طبلوں اور ڈھولوں کی طرح بجتے رہتے ہیں۔سجن جندال سے لے کر نہال تک صرف ’’میں‘‘ ہے جو اپنی پوجا میں مصروف رہتی ہے۔ دولت اور طاقت کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کے بھوکے..... قدم قدم اورفیتہ فیتہ اس کریڈٹ کے بھوکے جس کا وجود ہی کوئی نہیں۔ خود اپنے کندھوں کو ہی زور زور سے تھپتھپاتے ہیں چاہے کندھا اتر جائے۔ایک اور ’’سکول آف تھاٹ‘‘ بھی ہےکہ یکے از چنڈال چوکڑی نے جو کچھ کہا وہ جوش خطابت یا جوش خوشامد میں نہیں جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر، ناپ تول کر شاہی اشارے پر کہا تاکہ لائوڈ اینڈ کلیئر انداز میں پیغام خاص و عام تک پہنچ جائے اوریہ استعفیٰ، معطلی، انضباطی کارروائی اور شوکاز نوٹس صرف اور صرف ڈھکوسلہ ہے۔اعتزاز احسن نے ٹھیک کہا کہ سپریم کورٹ ایسا ایکشن لے کہ آئندہ کسی کو جرأت نہ ہو۔ سپریم کورٹ روندنے پر بھی کوئی ایکشن ہو جاتا تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ہیجان ہذیان کی صورت سامنے آ رہا ہے کہ ہیلی کاپٹر کیس میں عامر عزیز تفتیشی تھے، جسٹس شیخ عظمت سعید استقاثہ کے وکیل کے طور پر ’’نیب‘‘میں فرائض انجام دے رہے تھے، ڈار نے منی لانڈرنگ کا بیان عامر عزیز کو دیا تھا، سعید احمداہم گواہ تھے اور یہی وہ پس منظر ہے جس کے سبب لیگی رہنمائوں میں ہیجان ہے جو ہذیان کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔آگےآگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔نوٹ: گزشتہ کالم میں دو کالے تول میری بدخطی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تصحیح فرمایئے۔’’عوام کو پینے کا صاف پانی تو دینا نہیں واٹر کینن حاضر ہے‘‘’’سٹیفن ہاکنگ پلکوں سے ’’درِیار‘‘ پر دستک دیتا ہے اور اس کی سنی جاتی ہے۔ ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں لیکن نہ یار سنتا ہے نہ شہریار‘‘ (درِیار کو دربار کردیا گیا تھا)



.
تازہ ترین