• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس پر بننے والی جے آئی ٹی نے باضابطہ کام شروع کردیا ہے۔وزیراعظم نوازشریف کے بیٹے حسین نواز دوسری مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ملکی تاریخ میں نئے باب رقم ہورہے ہیں۔ 20کروڑ عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم کا بیٹا ڈھائی گھنٹے تک انتظار گاہ میں بیٹھتا ہے اور کوئی قیامت نہیں اترتی۔اس سے پہلے ہم نے وہ منظر بھی دیکھا تھاجب ایک ریٹائر ڈ آرمی چیف کو عدالت طلب کرتی ہے تو وہ دل کے اسپتال کا رخ کرلیتے ہیں ۔آج بھی ملک کی عدالتیں سابق آمر پرویز مشرف کو بار بار طلب کرکے اشتہاری قرار دے چکی ہیں مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔کیونکہ بہرحال مشرف صاحب ’’قانون سے بالاتر‘‘تھے۔آج وزیراعظم نوازشریف کے بیٹے سے ہونے والی پوچھ گچھ کے بعد ماضی کے چند واقعات یاد آگئے۔جن کا آگے چل کر تذکرہ کروں گا۔لیکن جے آئی ٹی کے حوالے سے دی نیوز کے سینئر صحافی انصار عباسی کی خبر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔انصار عباسی کی خبرکی کسی ادارے نے اب تک تردید نہیں کی ہے اور میری اطلاعات کے مطابق تردید کرنا شایدممکن بھی نہیں ہے۔کیونکہ کسی بھی ذمہ دار شخص سے معاملے کی تحقیق کرالیں تو سامنے آجائے گا کہ صرف گورنر اسٹیٹ بنک اور چیئر مین ایس ای سی پی نہیں بلکہ چیئرمین نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کوبھی من پسند افراد کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کا کہا گیا تھا۔کچھ معاملات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔اگر ان افراد کو جے آئی ٹی میں شامل نہ کیا جاتا تو شاید معاملے کو نظر انداز کردیا جاتا مگر جب جے آئی ٹی کے ممبران وہی افراد تھے۔جن کے بارے میں بعض اداروں کے سربراہان کو پہلے ہی واٹس ایپ اور فیس ٹائم پر کہا گیا تھا تو معاملہ سنگین ہوجاتا ہے۔
قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی عدالت تفتیش کے عمل پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔تفتیش ہمیشہ غیر جانبدار اور آزادانہ کی جاتی ہےتاکہ جب عدالت کیس کا فیصلہ سنائے تو معاملے میں جانبداری کا عنصرشامل نہ ہو۔ماضی کی مثال سامنے ہے کہ جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے کا کیس سامنے آیا تو تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کو صرف اس لئے نہیں بھیجا گیا ۔کیونکہ عدالت کسی بھی قانون کے تحت من پسند فرد کو تفتیشی مقرر نہیں کرسکتی تھی۔ملکی تاریخ میں ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے جب سرکاری افسران جن میں پولیس اور ایف آئی اے کے لوگوں نے عدالت میں واضح بتایا کہ آپ تفتیش پر اثر انداز نہیں ہوسکتے،تفتیش کرنا ہمارا کام ہے۔دی نیوز کی خبر نے بہت سے پہلوؤں سے پردہ اٹھایا ہے اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے انصار عباسی مزید تحقیقاتی خبریں بھی سامنے لائیں گے۔لیکن حالیہ خبر کے شائع ہونے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا عدالت اپنی مرضی سے من پسند افراد کا نام جے آئی ٹی میں شامل کرسکتی ہے۔کیونکہ اگر وزیراعظم نوازشریف پر انگلی اٹھائی جاتی ہے کہ بے شک وہ اس ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں مگر اس معاملے میں پارٹی ہیں ۔اس لئیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے خلاف تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے ممبران کے نام بھی خود شامل کریں۔تو پھر ایک لمحے کو سوچیے کہ کیا جس فریق نے ان کے خلاف فیصلہ سنایا ہے ،کیا وہ جے آئی ٹی میں من پسند ممبران شامل کرسکتا ہے؟اس طرح کے حساس معاملے کو فوری دیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر اس معاملے کو ادھورا چھوڑا گیا تو یہ تاثر مزید شدت اختیار کرجائے گا کہ یہ سب کچھ تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے لئے کیا گیا ہے۔ذاتی رائے ہے کہ کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ تحقیقات پر اثر انداز ہو اور جے آئی ٹی میں من پسند افراد کے چناؤ کے لئے دباؤ ڈالے۔ وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کا مطالبہ جائز ہے کہ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لے کر معاملے کو دیکھنا چاہئے۔
جبکہ حسین نواز کی جے آئی ٹی میں دومرتبہ پیش ہونے کی بات کی جائے تو یہ قابل تعریف ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نظر آرہی ہے۔لیکن قانون کی حکمرانی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اختیارات اور متعین حدود سے تجاوز کیا جائے۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جسٹس(ر) خلیل الرحمان رمدے نے سابق چیف جسٹس سے کہا تھا کہ بیٹے کے معاملے کی وجہ سے آپ کی بہت سبکی ہوتی ہے۔براہ کرم آپ اسے نظر انداز کردیں۔سابق چیف جسٹس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور کہنے لگے کہ ’’میں کیا کروں،اس میں میری جان ہے ،میں بہت مجبور ہوں‘‘۔اولاد بہت خوفناک چیز ہوتی ہے۔ملک کا وزیراعظم ہوکر اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والا سلوک برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کے سارے نظریات اور اختلافا ت مونس الٰہی کے چند دن کے ریمانڈ پر ختم ہوگئے تھے اور بھٹو کی پھانسی تحریر کرنے والے قلم کو محفوظ رکھنے والوں نے آصف زرداری سے صلح کرنے میں عافیت جانی تھی۔اولاد ایسی چیز ہوتی ہے۔جو بڑے بڑے بااصول افراد کو بھی جھکنے پر مجبور کردیتی ہے۔وزیراعظم نوازشریف کے حوصلے کی داد دینی چاہئے ۔جو اپنے اس بیٹے کے ساتھ جے آئی ٹی کا رویہ برداشت کررہا ہے۔جس نے اسی سیاسی انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے سیاست میں آنے کو ترجیح نہیں دی تھی۔بہرحال قانون کی حکمرانی اور شفاف تحقیقات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ لیکن شفاف تحقیقات کوکسی کی عزت نفس مجروح کرنےسے تشریح نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بننے والی جے آئی ٹی وسیع اختیارات کی حامل ہے۔لیکن وسیع اختیارات ہونا اور کسی کو بلا کر طویل انتظار کرانا غیر مناسب ہے۔اگر کسی کو اللہ نے عزت دی ہے تو انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ اس کو چیلنج کرے۔وزیراعظم نوازشریف عوامی مینڈیٹ لے کر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ۔اگر چند افسران مل کر عوامی مینڈیٹ کی تذلیل شروع کردیں گے تو پھر بات بہت دور تلک جائے گی۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو بھی بیانات دیتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے۔نہال ہاشمی نے جس انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا اس کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔اگر کسی معاملے پر اختلاف ہے تو مہذب انداز میں دلیل سے بات کریں۔جے آئی ٹی کے ممبران کے حوالے سے جو شکوک و شبہات ہے اس پر کھل کر بات ہونی چاہئےلیکن دھمکی آمیز لہجے میں با ت کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ ملکی اداروں کا رویہ غیر جاندارانہ نظر آنا چاہئے، وگرنہ عوامی مینڈیٹ کی توہین سے ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔باقی بات رہی وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کی تو وزیراعظم نوازشریف نے اس مرتبہ بھی ایسا پتا کھیلا ہے جس کی سمجھ سیاسی پنڈٹوں کو کچھ عرصے بعد آئے گی۔



.
تازہ ترین