• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز میں نے مسلم لیگ(ن) کے رہنما سینیٹر نہال ہاشمی کو بہت غصے کے عالم میں ان لوگوں پر چڑھائی کرتے دیکھا جو وزیر اعظم اور ان کے بچوں سے حساب مانگتے ہیں اورکہا وقت آنے پر ہم بھی ان سے اور ان کے بچوں سے اسی طرح حساب مانگیں گے، یہ ان کے الفاظ کا مفہوم ہے ، ورنہ ان کی زبان اس سے کہیں زیادہ سخت تھی، جس پر سب سے پہلے خود ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اس کا نوٹس لیا اور بہت بڑی سزا بھی سنادی۔ ان کی بنیادی رکنیت منسوخ کردی اور ان سے استعفیٰ بھی لے لیا یعنی اب وہ سینیٹر بھی نہیں رہے، اس کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ مسلم لیگ کی اس اصول پرستی کی تعریف کی جاتی جس نے اپنے ایک ایسے رہنما کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیا جو ان کا جیالا ہے، جس نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں اور جو آمر پرویز مشرف کے سامنے ڈٹ گیا تھا، مگر اپوزیشن نے مسلم لیگ کی اس اصول پرستی کی تعریف تو کیا کرنا تھی، الٹا الزامات کی توپوں کا رخ اس بااصول جماعت کی طرف کردیا ہے۔سپریم کورٹ نے بھی سوموٹو لیتے ہوئے نہال ہاشمی کو نوٹس جاری کردیا ہے۔
نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا، اس کی توثیق تو نہیں کی جاسکتی مگر آپ یہ ضرور دیکھئے کہ یہ رویہ آیا کہاں سے ہے؟ اس رویے کے بانی عمران خان ہیں، جو اداروں کو خوفناک دھمکیاں دیتے ہیں، جو نہ عدالت کو خاطر میں لاتے ہیں اور اگر فوج اپنا ٹویٹ واپس لے لیں جو جمہوریت کے لئے فوج کی طرف سے ایک خیر سگالی پیغام تھا، تو عمران خان کی سوشل میڈیا فوج، پاکستانی فوج اور اس کے سالار کو بھی غلیظ گالیاں دینے لگتی ہے۔ اس وقت عمران خان سے بڑا سیاسی بلیک میلر کوئی نہیں ہے، کئی ادارے اس کی دھمکیوں سے لرزاں و ترساں نظر آتے ہیں اور یوں عوام محسوس کرتے ہیں کہ شاید شریف فیملی کو انصاف کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں پیش آئیں۔ خان صاحب نہال ہاشمی سے کہیں زیادہ سخت زبان استعمال کرتے ہیں، وہ اداروں اور ان کے سربراہوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، ان کی مسلسل کردار کشی کرتے ہیں، مگر آج تک عدالت نے اس حوالے سے سوموٹو نوٹس نہیں لیا بلکہ ہتک عزت کے کئ مقدموں میں وہ مطلوب ہیں، عدالت کی طرف سے انہیں پیشی کے نوٹس بھی جاچکے ہیں لیکن وہ یہ نوٹس ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں،چنانچہ اب یہ سوچ پروان چڑھنے لگی ہے کہ بھینس اسی کی ہوگی، جس کے پاس لاٹھی ہوگی، کیا ہمارے اداروں کو اس طرح کی سوچ کو پروان چڑھنے کا موقع دینا چاہئے؟
آپ ذرا جے آئی ٹی پر بھی ایک نظر ڈالیں، انصار عباسی کی رپورٹ کے بعد اس کے ان دو ارکان کی پوزیشن’’واضح‘‘ نہیں رہی، بظاہر شریف فیملی کے اعتراض کے باوجود وہ اسے تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کو روزے کی حالت میں تین تین گھنٹے انتظار کرایا جاتا ہے اور ان پر چار چار گھنٹے جرح کی جاتی ہے، مگر ان کی زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں آتا۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے دو ججوں کی طرف سے اپنے فیصلے میں پاکستان کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ یقیناً قانون اور تہذیب کے دائرے میں آتی ہوگی، چنانچہ اس پر بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا، البتہ عمران خان کےبارے میں لفظوں کا انتخاب عموماً بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے مسلم لیگی کارکنوں کے دلوں میں اپنے وزیر اعظم سے ہونے والے برتائو کے حوالے سے ایک لاوا سا پک رہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ نہال ہاشمی کا بیان اسی لاوے کی نمائندگی نہ کررہا ہو؟ اللہ کرے ایسا نہ ہو کیونکہ عمران خان کی یہ زبانی اور اداروں کو دھمکیوں کی روش اس قابل نہیں کہ اس کی پیروی کی جائے۔ یہ روش ملک و قوم کو ایک بڑی تباہی کی طرف لے جائے گی تاہم تمام اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی خوف یا کسی دبائو کو خاطر میں لا ئے بغیر اپنے فرائض انجام دیں۔
آپ اندازہ لگائیں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ بنی گالہ کا بیس سالہ ریکارڈ کہاں سے لائیں اور شریف فیملی سے چالیس سالہ ریکارڈ طلب کیا جارہا ہے۔ اللہ جانے وہ کون بقراط تھا جس نے یہ مشورہ دیا تھا کہ شریف فیملی عدالت کو یقین دلائیں کہ وقت آنے پر سب ریکارڈ پیش کردیا جائے گا، حالانکہ جس جائیداد پر سوال اٹھائے جارہے ہیںاور منی ٹریل کی بات کی جارہی ہے ان سب کا تعلق مرحوم و مغفور میاں محمد شریف کی زندگی سے ہے۔ پوری دنیا میں یہ قانون ہے کہ وفات کے بعد مرحوم کے سارے کھاتے بند ہوجاتے ہیں، اگر اس نے دس بیس قتل بھی کئے ہیں ان کی پرسش بھی نہیں ہوتی ، جبکہ میاں شریف مرحوم اور ان کے تمام خاندان کا کڑا احتساب ان کی زندگی میں ہوچکا ہے اور اس میں ایک دھیلے کی گڑبڑ بھی سامنے نہیں آئی، مگر میڈیا کا ایک حصہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ نواز شریف کا امیج آصف زرداری جیسا بنا کر پیش کیا جائے یہ اور ان کے سرپرست لاکھ کوشش کریں اس کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ لوگ اندھے نہیں ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس شخص کی ساری کمائی اس کی وہ نیک نامی ہے جو اس کی مالی اور کردار کی پاک دامنی کے سبب ہے،وہ اس وقت پاکستان کی بقا اور استحکام کا استعارہ ہے، اس کے بغیر پاکستان میں جو باقی بچتا ہے وہ شیخ رشید اور اس کے ’’باس‘‘ ہی ہیں، اللہ تعالیٰ پاکستان پر یہ وقت کبھی نہ لائے۔



.
تازہ ترین