• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے معروف ٹی وی آرٹسٹ کاشف محمود جو پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم اور متحرک کارکن رہے ہیں ان سے پاکستان تحریک انصاف کے حوالہ سے فون پر بات چیت ہوئی۔ میرے لئے یہ امر انتہائی حیران کن تھا کہ کاشف محمود جیسے متحرک اور عمران خان کے ہر دلعزیز ساتھی یہ کہہ رہے تھے کہ اب میں پی ٹی آئی کے لئے پہلے جیسی گرم جوشی کے ساتھ کردار ادا نہیں کر رہا ۔میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں تبدیلی کے نعرہ اور سوچ کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا ۔ میری پوری فیملی مسلم لیگ سے تعلق رکھتی ہے اور ہمارا آبائی گھر بھی میاں نواز شریف کے حلقہ میں ہے لیکن میں سمجھتا تھا کہ عمران خان اس قوم اور ملک کے لئے امید کی ایک روشن کرن کی طرح ہیں لہٰذا میں نے اپنے خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے تحریک انصاف کا علم اٹھایا۔ میری عمران خان سے محبت اور پارٹی سے والہانہ وابستگی کبھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ بطور اداکار میں نے ہر فورم پر عمران خان سے اپنی عقیدت کا بھرپور اظہار کیا ،میں سمجھتا تھا کہ تحریک انصاف واقعی ملک میں تبدیلی لا سکتی ہے اور عمران خان ہی ایسی شخصیت ہیںجو حقیقی معنوں میں پاکستانی قوم کے لئے نجات دہندہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اب مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ تحریک انصاف کو ایک روایتی پاکستانی سیاسی جماعت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے گلہ کیا کہ میری طرح پی ٹی آئی کے سینکڑوں بے لوث کارکنان جنہوں نے 126 دن کے دھرنےمیں بھرپور شرکت کی تھی اب بد دل ہو تے جا رہے ہیں ۔ کاشف محمود نے کہا کہ جہاں کہیں بھی عمران خان کا جلسہ ہوتا میں ایک متحرک اور بے لوث کارکن کی حیثیت سے اس میں شامل ہوتا رہا۔ لاک ڈائون کے اعلان کے بعد دوسرے کارکنان کی طرح میں نے بھی بھرپور انداز سے اس احتجاجی لاک ڈائون میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں پنجاب پولیس نے میرے گھر پر چھاپہ مارا اور مجھے گرفتار کر لیا گیا لیکن پی ٹی آئی کے کسی بھی رہنما نے اس موقع پر میری داد رسی نہیں کی اور نہ ہی کسی نے مجھ سے پوچھا کہ مجھ پر کیا بیتی۔ میرا کسی سے گلہ نہیں بالخصوص تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے تو بالکل بھی نہیں کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ اس واقعہ کا علم ان کو ہرگز نہیں ہوگا لیکن ہماری تیسرے درجہ کی قیادت کو سب علم تھا لیکن کسی نے بھی فون کر کے مجھ سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرنا گوارہ نہیں کیا۔ کاشف محمود نے کہا کہ ویسے بھی اب جس طرح کے لوگ پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں اس سے پارٹی کے نظریاتی کارکنان میں بے چینی اور مایوسی بڑھ رہی ہے اور یہ تاثر دن بہ دن تقویت پکڑ رہا ہے کہ پی ٹی آئی جو کبھی ایک تحریک تھی اب تیزی سے ایک روایتی سیاسی جماعت میں تبدیل ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں آج بھی عمران خان کو پسند کرتا ہوں اور ووٹ بھی انہی کو دوںگا لیکن اب بطور کارکن پارٹی میں فعال کردار ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ مجھے اس تمام گفتگو سے یاد آیا کہ 2013ء کے الیکشن میں کاشف محمود نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے چونکہ میں پاکستان تحریک انصاف کو ایک دہائی سے زائد عرصہ تک بطور رپورٹر کور کرتا رہا ہوں اس بنیاد پر مجھے بھی اس پروگرام میں بطور مہمان بلایا گیا ۔اس موقع پر کاشف محمود پی ٹی آئی کو لے کر اتنے جذباتی ہو رہے تھے کہ وہ کسی صورت میں بھی پی ٹی آئی کی ہار تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ ایک موقع پر ہمارے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جب میں نے ان کو یہ خبر دی کہ پی ٹی آئی لاہور میں قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ کے علاوہ باقی تمام سیٹوں سے ہار رہی ہے ۔ اس ٹی وی پروگرام کے بعد بھی جب کبھی میری ان سے بات ہوتی تو وہ ہمیشہ عمران خان کو لے کر انتہائی جذباتی ہو جاتے تھے لیکن ان کی مجھ سے فون پر ہونے والی گفتگو میرے لئے کم جبکہ پی ٹی آئی کے لئے زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ میں کاشف محمود کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کارکنا ن کو جانتا ہوں جن کے جذبات کچھ مختلف نہیں ان میں سے درجنوں ایسے ہیں جنہوں نے نظریاتی طور پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی لیکن اب ان کو پارٹی میں اپنا فعال کردار نظر نہیں آ رہا یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ان کارکنان میں اب مایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے نتھیا گلی کے پر فضامقام پر پی ٹی آئی کے چیئرمین سے ملاقات کی اور پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان پیشہ کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہیں انہوں نے مشرف دور میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مخصوص نشست پر منتخب ہوئیں ۔ 2008ء میں جب ان کو اندازہ ہوا کہ مشرف حکومت کی حمایت کرنے والی جماعت مسلم لیگ ق کا کوئی مستقبل نہیں تو وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئیں۔ 2008ء کے عام انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سیالکوٹ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں جس کے بعد ان کو وفاقی وزیر اطلاعات و ثقافت کا اہم ترین قلم دان بھی سونپا گیا۔ ان کے دور وزارت میں بہت سے الزامات لگائے گئے۔پھر اچانک ان کو وزارت اطلاعات و ثقافت کے منصب سے ہٹا دیا گیا اور ان کے بعد یہ ذمہ داری قمر زمان کائرہ کے سپرد کر دی گئی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو وزارت سے ہٹائے جانے کی بحث پر مزید گفتگو کرنے کی بجائے میں ان کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ ایک متحرک سیاسی خاتون رہنما ہیں سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنا ان کی حکمت عملی ہے یا پھر وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ایسا کئے بغیر سیاست میں زندہ رہنا مشکل ہے ۔ فردوس عاشق اعوان جنہوں نے اب پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔پی ٹی آئی میں ان کی شمولیت کے حوالہ سے گزشتہ کئی ماہ سے اطلاعات تھیں لیکن یہ بھی کہا جاتا رہا کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے رابطہ کرنے کی وجہ سے انہوں نے کچھ عرصہ کے لئے پی ٹی آئی میں جانے کا فیصلہ مؤخر کر دیا تھا لیکن موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر انہوں نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان یہ سمجھتی ہیں کہ پنجاب کے سیاسی منظر نامہ میں پیپلز پارٹی کا مستقبل نظر نہیں آرہا اور 2018ء کے انتخابات میں پنجاب میں اصل معرکہ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہونے جا رہا ہے ۔اسی بنا پر ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی پلیٹ فارم سے سیاست کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فردوس عاشق اعوان کے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے سے پارٹی کے اندر ایک واضح تضاد پایا جا رہا ہے جس میں ایک طرف نظریاتی لوگ کھڑے ہیں تو دوسری جانب روایتی سیاستدان دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجہ میں آئندہ چند ماہ تک اتار چڑھائو کی کیفیت مزید بڑھ جائے گی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لئے آنے والا ہر دن مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ان کو آئندہ دنوں میں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ایک روایتی سیاستدان کے طور پر اپنا ووٹ بینک اور اپنے حلقہ میں مضبوط امیدوار کو ملا کر 2018ء کے الیکشن میں جائیں گے یا پھر اپنے نظریات کی بنیاد پر اپنے ان ساتھیوں کو الیکشن کے میدان میں اتاریں گے جو سیاسی مفاد کی بجائے صرف اور صرف نظریاتی طور پر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔



.
تازہ ترین