• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت مافیا بن گئی، جسٹس عظمت، ریمارکس حلف کے منافی، حکومت

اسلام آباد(نمائندہ جنگ،نیوز ایجنسیاں)مسلم لیگ ن کے مستعفی سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنے متنازع بیان کے خلاف سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کےموقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ اللہ اور عدلیہ دونوں سے معافی مانگتا ہوں۔ جبکہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ حکومت سیسلین مافیا بن گئی ہے، ڈکٹیٹر مشرف کا مقابلہ کیا، کسی کی دھمکیوں میں آنیوالے نہیں۔ اس کے جواب میں حکومت کے ترجمان نے ایک  بیان میں کہا ہے کہ ریمارکس ضابطہ اخلاق اور حلف کے منافی ہیں۔حکومت کو سیسیلین مافیا اور اٹارنی جنرل کو اس کا نمائندہ قرار دینا انتہائی افسوسناک ہے، جس سے دنیا بھر میں ایک ملک کی حیثیت سے پاکستان کی شناخت اور وقار کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران بنچ کےسربراہ جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رجسٹرار کو جے آئی ٹی کے ارکان منتخب کرنے کا کام ہم نے سونپا، معاملات بڑھا چڑھاکر پیش کرنے پر سخت ایکشن لیں گے۔ بنچ کے ایک اور رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پاناما کیس کے دوران وزیروں کے بیان ہمارے سامنے ہیں، اداروں کو متنازع بنانے کی اجازت نہیں دینگے۔ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے مستعفی سینیٹر نہال ہاشمی کی معافی کی استدعا مسترد کردی اور انہیں توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے پیر  5جون تک جواب طلب کرلیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کو مقدمہ کا پراسیکیوٹر مقرر کرتے ہوئے انہیں ملزم نہال ہاشمی کی تقریر میں دی جانے والی دھمکیوں کے حوالے سے اس کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کیلئے مواد اکٹھا کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی عملدرآمد /خصوصی بنچ نے جمعرات کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی اور توہین عدالت کے مبینہ مرتکب ،نہال ہاشمی پیش ہوئے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیا حالات و واقعات ہو رہے ہیں؟ حکومت کے خود ساختہ ترجمان توہین عدالت کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ہیں، لیکن ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور کسی قسم کے نتائج سے نہیں گھبرائیں گے،جے آئی ٹی ہم نے بنائی ہے اور رجسٹرار کو بھی ہم نے ہدایات جاری کی تھیں لیکن جے آئی ٹی سے متعلق مبالغہ آرائی کی جا رہی ہے،ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے، ہم فرشتے نہیں مگر جو کام کرتے ہیں قانون کے مطابق کرتے ہیں، چاہے انجام جو بھی ہو، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے فوجی آمریت کا سامنا بھی کیا ہے لیکن انہوں نے بھی ہمارے بچوں کو دھمکیاں نہیں دی ہیں، آپ کی حکومت میں ہمارے بچوں کو دھمکایا جارہا ہے،جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جو بھی عدلیہ کی تضحیک کرے گا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، آپ کی حکومت ہمارے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نہال ہاشمی کی آواز میں کوئی اور بول رہا تھا، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بڑوں کی لڑائی میں بچوں کو لانے کا رواج نہیں ہے ،انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بچوں کو لڑائی میں شامل کرنیوالے کون لوگ ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بزدل لوگ ایسا کرتے ہیں،جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بزدل نہیں بلکہ مافیا اور دہشت گرد ایسا کرتے ہیں، مبارک ہو مسٹر اٹارنی جنرل! آپ کی حکومت نے سیسیلین مافیا(The Sicilian Mafia،اٹلی کے جرائم پیشہ افراد کا گروہ) کو جوائن کرلیا ہے، مافیا والے ایسی دھمکیاں دیتے ہیں،بچوں کی دھمکیاں دیتے ہیں ،جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہمیں نتائج کا خوف نہیں،ہم نے جے آئی ٹی کو منتخب کیا ہے اورہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ انہو ں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ عدالت کی معاونت کریں کہ ایسی دھمکیوں پر نہال ہاشمی کے خلاف کیا کیا فوجداری کارروائی کی جا سکتی ہے ؟ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس سارے عمل سے پیچھے ہٹ جائیں ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس د یئے کہ اداروں کو ایک منظم سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے سیکیورٹی اینڈ اسٹاک ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو سربراہ بلال رسول کو پاناما لیکس کی تحقیقات میں شامل کرنے کیلئے کہا تھا، عدالت کسی کو اداروں کو متنازع یا بدنام کرنے کی اجازت نہیں دے گی،پاناما کیس کی سماعت کے دوران کابینہ کے ارکان بھی دھمکیاں دیتے رہے ہیں،دوران سماعت ملزم نہال ہاشمی نے اپنی تقریر کے حوالے سے وضاحت کرتے ہو ئے موقف اختیار کیا کہ میں حالت وضو میں ہوں اور کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ کسی ادارے کو دھمکی نہیں دی ہے ،میں روزے سے تھا، خواب میں بھی توہین عدالت کا نہیں سوچ سکتا، میں نے اپنی تقریر میں کسی ادارے کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ عمومی طور پر بات کی تھی،انہوں نے کہا کہ میں اپنے کہے پر شرمندہ ہوں اور عدالت سے معافی کا طلب گار ہوں، اس لیے امید ہے کہ عدالت مجھے معاف کردے گی ،جس پر فاضل عدالت نے کہا کہ ہم آپ کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کررہے ہیں،آپ آئندہ سماعت تک اس پر جواب داخل کریں،جسٹس اعجاز افضل خان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی حکومت میں ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں،  اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے، کیس کے نتائج جو بھی ہوں ہم کسی سے نہیں ڈرتے ہیں، بعد ازاں فاضل عدالت نے نہال ہاشمی کی معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کو مقدمہ کا پراسیکیوٹر مقرر کرتے ہوئے انہیں ملزم نہال ہاشمی کی تقریر میں دی جانے والی دھمکیوں کے حوالہ سے اس کے خلاف فوجداری کارروائی چلانے کے لئے مواد اکٹھا کرنے کی ہدایت کے ساتھ مقدمہ کی مزید سماعت5 جون تک ملتوی کر دی ۔ قبل ازیں نہال ہاشمی نے سپریم کورٹ کی پارکنگ میں پہنچ کر صحافیوں /وکلاء کے گیٹ سے داخل ہونے کی کوشش کی تو سیکورٹی کے عملہ نے انہیں روک لیا اور وہ عام سائلین والے گیٹ سے سپریم کورٹ میں داخل ہوئے۔انہوںنے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں ا للہ سے بھی معافی مانگتا ہوں اورعدلیہ سے بھی معافی مانگتا ہوں،میں نے اللہ کو جواب دینا ہے ،مجھے کسی نے بیان دینے کے لئے نہیں کہا ہے،کسی پر بھی تہمت نہیں لگانی چاہئے،میں عدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں، میں نے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے حوالے سے بات کی ہے،دوسری جانب حکومت پاکستان کے ترجمان نے ایک بیان میں سپریم کورٹ میں نہال ہاشمی توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران ایک معزز جج کے مبینہ ریمارکس پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اعلیٰ عدلیہ کی روایات اور خود سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق اور حلف کے منافی قرار دیا ہے ۔ ترجمان نے کہا ہے کہ معزز جج نے دوران سماعت معاملے کی مکمل آگاہی کے بغیر حکومت پر نہ صرف بے بنیاد الزامات لگائے بلکہ وزیراعظم کی جانب سے نہال ہاشمی کے خلاف اٹھائے گئے انتہائی تادیبی اقدامات کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے محض سپریم کورٹ کی سماعت اور توہین عدالت نوٹس کا ردعمل قرار دیا۔ ترجمان نے کہا کہ حقائق نہ صرف اس کے برعکس ہیں بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا تمام ریکارڈ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حکومت نے نہال ہاشمی کے ریمارکس کے سامنے آتے ہی نہ صرف اُن پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ فوری طور پر اُنہیں اُن کی ذاتی سوچ کا عکاس قرار دیا۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ یہ ریمارکس پہلی مرتبہ 31 مئی2017 کو صبح 10بج کر 50منٹ پر الیکٹرانک میڈیا پر رپورٹ ہوئے۔ جس کے فوراًبعد وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے واضح طور پر اعلان کیا کہ یہ نہال ہاشمی کےذاتی خیالات ہیں جن کا پاکستان مسلم لیگ یا حکومت پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان صبح سے ہی قومی سلامتی سے متعلق اداروں اور اُن کے سربراہان کے ساتھ میٹنگز اور کابینہ کی کمیٹی برائے سلامتی امور کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جو ساڑھے تین بجے سہ پہر ختم ہوا۔ اجلاس کے خاتمہ پر جونہی یہ معاملہ ان کےعلم میں لایا گیا تو وزیراعظم نے فوری طور پر نہال ہاشمی کی پارٹی رکنیت معطل کرتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ اُسی وقت اُنہیں وزیراعظم ہائوس میں طلب کیا گیا اور کسی مناسب جواب نہ ملنے پر فور ی طور پر سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے احکامات بھی دیئے گئے۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سینیٹر نہال ہاشمی شام 5بجکر 30منٹ پر سینیٹ سیکرٹریٹ میں ذاتی طور پر پیش ہوئے اور سیکرٹری سینیٹ کو اپنا تحریری استعفیٰ جمع کرا دیا جس کی باقاعدہ اطلاع سیکرٹری سینیٹ نے بذریعہ ٹیلیفون چیئرمین سینیٹ رضاربانی کو بھی دی جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملے پر نوٹس شام 6بجے لیا گیا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ دوران سماعت ایک معزز جج کی جانب سے حکومت کو SICILIAN  مافیا اور اٹارنی جنرل پاکستان کو اُس کا نمائندہ قرار دینا انتہائی افسوسناک ہے جس سے دُنیا بھر میں ایک ملک کی حیثیت سے پاکستان کی شناخت اور وقار کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ایسے بے بنیاد ریمارکس خود عدلیہ کے جج صاحبان کے حلف اور ضابطہ اخلاق کے منافی ہیں۔ 
تازہ ترین