• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی ایم ایل (ن) آخر کار اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکی۔ نہال ہاشمی نے کھلے الفاظ میں وہ بات کہہ دی جو نون لیگ کے بہت سے وفادار زیر ِ لب کہہ چکے ہیں۔ اُنھوں نے نواز شریف کا حساب لینے اور پریشان کرنے والے سرکاری افسران (جنہوں نے ریٹائر بھی ہونا ہے) کوخطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ اُن پر پاکستان کی سر زمین تنگ کردی جائے گی۔ پی ایم ایل (ن) کی گرج چمک کی وجہ یہ ہے کہ وزیر ِاعظم کے رشتہ داروں سے پوچھ گچھ کرنے والی جے آئی ٹی اُن سے مرعوب ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ ہمارے مبہم سیاسی ماحول میں سرکاری افسران سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شاہی دربار کے ملازمین کی طرح سرجھکا کر رہیں، نہ کہ شاہ سے پوچھ گچھ کی گستاخی کے مرتکب ہوں۔
ہم بار ہا یہ بوگس دلیل سن چکے ہیں کہ منتخب شدہ نمائندوں کا قانونی احتساب کی بجائے سیاسی احتسا ب ہونا چاہیے ۔ ہم نے پی پی پی کو بھی یہی دلیل دیتے ہوئے سنا جب عدالت کے احکامات تسلیم کرنے کی بجائے آصف زرداری سے وفاداری کا مظاہرہ کرنے کی جسارت میں یوسف رضا گیلانی کوکٹہرے میں کھڑا ہونا پڑاتھا۔ اب نون لیگی ہمیں بتارہے ہیں کہ اگر جے آئی ٹی نے وزیر ِاعظم کے رشتے داروں سے اربوںکے اثاثے بنانے کی بابت سخت سوالات پوچھے ، اور اگر اس تفتیش پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے وزیر ِ اعظم کو نااہل قرار دے دیا تو زمین و آسمان تہہ وبالا ہوجائیں گے ۔
جین بیپٹس کار(Jean Baptiste Karr) نے لکھا تھا۔۔۔’’ بہت زیادہ تبدیلی سے کوئی تبدیلی نہیں آتی‘‘۔ کیا فوجی مداخلت سے تختہ الٹے جانے اور ایک عشرہ جلاوطنی میں گزارنے کے بعد شریف فیملی میں کوئی تبدیلی آئی ؟ کیا پاکستان واپس آکر ایک اور عشرہ گزارنے کے بعد اُن کی اقتدار اور طاقت کے نشے ، دولت اور خوشامد پسندی میں کوئی کمی آئی؟ 1990 ء کی دہائی کے آخری برس یاد کریں کہ پی ایم ایل (ن) کو اپنے ’’بھار ی مینڈیٹ ‘‘ کا کس قدر غرور تھا، اور یہ ’’بوجھ ‘‘ کس قدر ناقابل ِ برداشت بن گیا تھا؟مشرف کے ساتھ مصیبت مول لینے سے پہلے نواز شریف چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ الجھ چکے تھے ۔ اس کہانی کے بہت سے ورژنز ہیں۔ ایک کے مطابق اختلافات کی وجہ ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان کو ترقی دے کر سپریم کورٹ میں بھیجنا تھا۔ وہ جج صاحبان پی پی پی حکومت کے دوسرے دور میں شریف برادران کے خلاف کیسزکی سماعت کرچکے تھے ، اور اُن کے لئے کوئی لچک نہ رکھتے تھے۔ظاہر ہے کہ نواز شریف اُنہیں سپریم کورٹ میں نہیں دیکھنا چاہتے ہوں گے، لیکن جسٹس شاہ ایسا کرنا چاہتے تھے ۔ آخرکارسجاد علی شاہ صاحب کی مرضی غالب آئی ۔ تاہم جنگ جاری رہی ۔ مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی ، اور لچک دکھانا اُن کی سرشت میں ہی شامل نہیں۔
نوازشریف نے چودہویں ترمیم نافذ کی جس نے بدنام زمانہ آرٹیکل 58(2)(b) کو ختم کردیا ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے اس ترمیم کو معطل کردیا ۔ اس پر نواز شریف نے جسٹس شاہ کے خلاف بیان دیا، جس پر جسٹس شاہ نے اُنہیں توہین کا نوٹس بھیج دیا ۔ توہین کی سماعت کا ماحول تنائوزدہ تھا ، اور چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں اس کی سماعت کرنے والے بنچ کا رویہ بھی سخت تھا۔ نواز شریف عدالت میں پیش ضرور ہوئے لیکن پہلی سماعت پر توہین کی کارروائی آگے نہ بڑھی۔ ایک اگلی سماعت پر پی ایم ایل (ن) نے ججوں کو ڈرانے اور دبائو میں لینے کے لئے سپریم کورٹ پر حملہ کردیا۔
جس دوران جسٹس شاہ کی وزیر ِاعظم کے ساتھ رسہ کشی چل رہی تھی ، وہ اپنے بہت سے ساتھی ججوں کو ناراض کربیٹھے ۔ آخر کار سپریم کورٹ کے اندر سے بغاوت ہوگئی اور ججوں کی اکثریت نے اپنے ہی چیف کو معطل کرنے کا فیصلہ کرلیا(اس سے پہلے پی پی پی نے سینئر ججوں کو بائی پاس کرتے ہوئے جسٹس شاہ کو چیف جسٹس آف پاکستان بنایا تھا، چنانچہ اُن کی تقرری پردیگر جج حضرات کا قانونی موقف بھی موجود تھا)۔ ججوں کی اکثریت خلاف ہونے پر اُنہیں چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب سے الگ ہونا پڑا۔ اس دوران صدر لغاری بھی گھر چلے گئے تھے ۔ یہ پی ایم ایل (ن) کی ایک کامیابی تھی ، اور اس طرح اس کے سامنے سپریم کورٹ پر حملہ، جو مبینہ طور پر طے شدہ تھا، کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔
سینٹر نہال ہاشمی نے تو بہت ہی کھلے الفاظ میں دھمکیاں دیں، اور اُنہیں اس پاداش میں سزا بھی ہوئی ہے۔ تاہم پی ایم ایل (ن) کے کئی ایک رہنما( جیسا کہ سعد رفیق اور رانا ثنا اﷲ) بھی دبے الفاظ میں یہی کچھ کہتے رہے ہیںکہ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کا رویہ نواز شریف کے ساتھ مخاصمانہ ہے ، نیز پاناما پیپرز شریف برادران سے اقتدار چھیننے کی سازش ہے ، اور یہ کہ پی ایم ایل (ن) اپنے لیڈر کی عدالتی پینل کے ہاتھوں اقتدار سے محرومی کے فیصلے کو قبول نہیں کرے گی۔ عوامی سطح پر دئیے جانے والے بیانات کیا سپریم کورٹ کے پاس زیر ِ التو ااس قانونی معاملے کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں ؟
قانون کی حکمرانی پر جائزتنقید بنتی ہے جب قانون اشرافیہ کو اقتدار قائم رکھنے اور طاقت بڑھانے میں ایک طفیلی کا کردار ادا کرے ۔ حتیٰ کہ جب آئین قانونی مساوات کا وعدہ کرتا ہے ، تو بھی کریمنل جسٹس سسٹم کے عناصر، جیسا کہ پولیس اور عدلیہ، شہریوں سے مساوات کی بنیاد پر سلوک نہیں کرتے ۔ پی پی پی دور میں این آر او(جب عدالت نے اسے کالعدم قرار دیتے ہوئے سوئس کیسز کھولنے کا حکم دیا تھا) اور اب پاناماکیس تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہیںکیونکہ انھوں نے اُس لگے بندھے اصول کوچاک کردیا ہے کہ حکمران اشرافیہ کاقانونی احتساب نہیں ہوسکتا۔ ہمارا حکومتی نظام دیمک زدہ ہے کیونکہ عوامی عہدیدار عام شہریوں کی طرف سے تفویض کردہ جمہوری طاقت کے امین بن کر شہریوں کے حقوق اور مفادکا تحفظ کرنے کی ذمہ داری سے خود کو بری سمجھتے ہیں۔ وہ اس ملک کو اپنی ذاتی جاگیراوراس کے وسائل پر تصرف اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہمارے ادارے اس لئے کمزورہیں کیونکہ انہیں کنٹرول کرنے والی حکمران اشرافیہ اداروں کو خود سے بڑھ کر طاقت ور ہونے کی اجازت نہیں دیتی، مبادا وہ اشرافیہ کی من مانی کی راہ میں مزاحم ہوں۔
اس پس منظر میں پاناما کیس کی دو جہتیں ہیں:کیا نواز شریف اُن اثاثوں کے مالک ہیں جو اُنھوں نے ظاہر نہیں کیے تھے ، چنانچہ وہ نااہل قرار دئیے جانے کے مستحق ہیں؟
دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 184(3) کے استعمال میں کہاں تک جاسکتی ہے؟ بہت سے مبصرین جو وزیراعظم کی فوری نااہلی کی مخالفت کررہے ہیں، وہ ایسا نہیں کہ شریف فیملی کی فراہم کردہ منی ٹرائل کی الف لیلہ کو سچ مان چکے ہیں۔ بلکہ اُن کی دلیل یہ ہے کہ قانونی طریق ِ کار اختیار کئے بغیر وزیرِاعظم کو چلتا کرنا درست نہ ہوگا۔ اس کے متقابل خدشہ یہ تھا کہ ہمارا قانونی نظام منصب پر موجود ایک وزیر ِاعظم کے احتساب کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگریہ کیس معمول کے کریمنل جسٹس سسٹم کے سامنے ہوتا تووہ ممکنہ طور پر وزیر ِاعظم کی طرف جھکائو رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جن جج صاحبان نے وزیر ِاعظم کو نااہل قرار نہیں دیا ، اُنھوںنے بھارتی سپریم کورٹ کے ’’حوالہ کیس‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کا حکم دیا۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ضروری تھا کہ وزیرِاعظم کے احتساب سے نہ قانون کے ہاتھوں ہونے والی مبینہ زیادتی کا تاثر ملے اور نہ ہی وزیرِاعظم سے اغماض برتنے کا۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کی اسٹیٹ بنک اورSECPکے سربراہان کو کی گئی مبینہ VOIP کالز نے جے آئی ٹی کی کمپوزیشن پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ پاناما کیس میں عدالتی حکم نامہ کہتا ہے کہ ’’جے آئی ٹی کے لئے اسٹیٹ بنک اور SECP کے سربراہان ایک ایک نمائندے کا نام تجویز کرکے حتمی نامزدگی اور منظوری کے لئے بنچ کے چیمبرز میں بھجوائیں گے۔‘‘ اب اگر رجسٹرار سپریم کورٹ نے مبینہ طور پر اسٹیٹ بنک اور SECP کو کچھ مخصوص افراد کو نامزد کرنے کا کہا ہے تو رجسٹرار کی یہ درخواست سپریم کورٹ کے حکم سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کیا رجسٹرار سپریم کورٹ کو پاناما بنچ نے ہدایت کی تھی کہ وہ اسٹیٹ بنک اور SECP سے کچھ مخصوص افراد کی نامزدگی کو یقینی بنائیں؟ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے حکم نامے کے برعکس بھی کوئی ہدایات جاری کی تھیں؟ اگر فاضل عدالت کچھ مخصوص افراد کو جے آئی ٹی میں شامل کرنا چاہتی تھی تو وہ اسٹیٹ بنک اور SECP کو بالواسطہ حکم دینے کی بجائے اُن افراد کو براہ راست بھی نامزد کرسکتی تھی اور اگر پاناما بنچ نے ایسی ہدایات جاری نہیں کیں اور پاناما بنچ کو مئی کے آغاز تک تشکیل نہیں دیا گیا تھا تو سوال یہ پید اہوتا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کس کے کہنے پر 27 اپریل کو ایسی کالز کررہے تھے، جن کا ریکارڈ 28 اپریل کے SECP کے خط میں موجود ہے؟ کیا رجسٹرار کی درخواست کا ریکارڈ رکھنے والاSECP کا خط امپلی منٹیشن بنچ کے سامنے چار مئی کو اس کی میٹنگ میں پیش کیا گیا جب اسٹیٹ بنک اور SECP کے نامزدکردہ نمائندوں کو مسترد کردیا گیا تھا؟کیا بنچ رجسٹرار کی درخواست سے آگاہ تھا جب اس نے جے آئی ٹی کے لئے اُن افراد کو چنا تھا جن کی نامزدگی کی درخواست رجسٹرار سپریم کورٹ نے کی تھی ؟پی ایم ایل (ن) کا مفاد اسی میں تھا کہ جے آئی ٹی کی ساکھ کو مشکوک بنادیا جائے ۔ دوسری طرف سپریم کورٹ اور پاکستانی عوام ایسے طریق ِکار کو یقینی بنانا چاہتے تھے جس میں ہماری اعلیٰ عدلیہ منصب پر موجود ایک وزیراعظم کا شفاف طریقے سے احتساب کرسکیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ہاشمی کی انتہائی نامناسب تقریر کا نوٹس لے کر اچھا کیا تاکہ کسی کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہ دی جائے، نیز عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کرایا جائے اور اس سے روگردانی کرنے والا فریق توہین ِعدالت کا مرتکب قرار پائے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہوگا کہ عوام کا جوڈیشل طریق ِ کار کی غیر جانبداری اور شفافیت پر اعتماد بحال کیا جائے۔ اس فون کال کے ایشو نے پی ایم ایل (ن) کے ہاتھ میں ایک بھری ہوئی بندوق تھما دی ہے۔ وہ اسے جے آئی ٹی کی غیر جانبداری اور نواز شریف کے خلاف اس کی تحقیقات کو مشکوک بنانے کے لئے بے دریغ استعمال کرے گی۔ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اس ایشو کو حل کرے۔ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئے، ہوتا دکھائی بھی دینا چاہئے۔


.
تازہ ترین