• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ساحر لدھیانوی کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
یہ تبسم یہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو
اور ظاہر ہے کہ یہ وسوسہ کسی خاتون کے بارے میں تھا۔ ساحر جس زمانے میں زندہ تھے، تب صنف مخالف سے آزادانہ میل جول کے مواقع کم ہی ملتے تھے۔ کسی حد تک آج کے روایتی معاشرے میں بھی ذراذرا سی بات پر دل دھڑکنے لگتے ہیں اور اگر کسی کا انداز دل موہ لینے والا ہو تو کئی غلط فہمیاں جنم لے سکتی ہیں لیکن جو بات میں کہنا چاہتا ہوں، اس کا کوئی تعلق دل کے معاملات سے نہیں ہے البتہ مسکرا کر، پیار سے بات کرنے کے بارے میں ضرور ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں جمہوریت کی بات کررہا ہوں۔ سوال یہ پوچھا جائے گا کہ جمہوریت یہاں کہاں سے آگئی، تو میں یہ مانتا ہوں کہ ساحر کا شعر شاید میرے موضوع کی اچھی سرخی نہیں ہے لیکن یاد مجھے اسی حوالے سے آیا ہے کہ تبسم اور مہربان تکلم کی عادت کو ہم ایک جمہوری ماحول کی بنیاد کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک حد تک آپ جمہوری ماحول کو ایک مہذب ماحول بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس میں ہر فرد اپنی ذاتی حیثیت میں عزت اور احترام کا حق رکھتا ہو یعنی سب انسانوں کے برابر ہونے کا ایک معاشرتی پہلو بھی نظر میں رہتا ہو۔ اجنبی لوگ جب سڑک پر چلتے ہوئے یا کسی اجتماع میں ایک دوسرے کو دیکھیں تو مسکرا دیں، خوش اخلاقی اور شائستگی کا مظاہرہ کریں۔ مہلت ہو تو مختصر سی گفتگو بھی جائز ہے۔ ’’تھینک یو‘‘ یعنی ’’شکریہ‘‘ کہنے کا رواج تو اچھے معاشروں میں کچھ ایسا ہے کہ اگر موقع کی مناسبت سے کوئی ایسا نہ کہے تو اسے خودسر یا بدتمیز سمجھا جاسکتا ہے۔ جمہوری معاشروں کی مجلسی زندگی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ خاص طور پر شہروں میں ان لوگوں کا مستقل آمنا سامنا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کو بالکل نہیں جانتے لیکن جب وہ ملتے ہیں تو دوستوں کی طرح…! اور اگر ایسی اتفاقیہ ملاقاتوں میں تعلقات کسی اور نہج پر جا نکلیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ کسی معاشرے کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس کے عام شہری گھر سے باہر کی زندگی میں ایک دوسرے سے کس طرح پیش آتے ہیں، ان کا عمومی رویہ کیسا ہوتا ہے۔
اگر اب تک جو میں نے کہا ہے، اس میں کوئی الجھائو ہے تو سیدھی سی مثال میں یہ دوں گا کہ آپ اپنے کسی بازار، کسی ریلوے اسٹیشن یا کسی ہوائی اڈے کا موازنہ کسی دوسرے مغربی یا مشرقی مہذب ملک کے بازار، ریلوے اسٹیشن یا ہوائی اڈے سے کریں تو فرق صاف ظاہر ہوجائے گا۔ سب سے بڑی مثال ٹریفک کی دی جانی چاہئے کہ اصولوں کی پابندی کہاں لوگ کس طرح کرتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے صحت سے متعلق ایک اہم تنظیم کے عہدیداروں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک مہم چلانا چاہتے ہیں کہ جس میں مصروف شاہراہوں پر ایمبولینس گاڑیوں کو راستے دینے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ میں نے کہا کہ اس کا خیال تو سب کو ہوتا ہوگا بس ٹریفک اتنا بے ہنگم ہوتا ہے کہ وہ ایمبولینس کیلئے جگہ نہیں بنا پاتے۔ نہیں…! مجھے بتایا گیا کہ ایک سروے میں یہ پتا چلا کہ گاڑیاں چلانے والوں کی ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو ایمبولینس کی پروا نہیں کرتے۔ اسے آپ ایک اضافی بات سمجھئے۔ اجتماعات میں لوگ خاص طور پر ہمارے محبوب ’’عوام‘‘ کس اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ سیاسی کارکن کھانے پر کیسے جھپٹتے ہیں، آپ نے ٹیلیویژن کی خبروں میں دیکھا ہوگا۔ اس کی ایک مہذب شکل متوسط طبقے کی شادیوں کی دعوت میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ دوسرے ملکوں سے واپسی پر جب ہم اپنے ملک کے ہوائی اڈے پر افراتفری اور وی آئی پی کلچر کی بادشاہی دیکھتے ہیں تو تسلی ہوجاتی ہے کہ ہم گھر لوٹ آئے ہیں۔
میں ذرا گہرائی میں چلا گیا۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم اپنے اجتماعات میں عام طور پر خوش اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے بھی بہت کم ہیں۔ یہ جو مسکرانے کا اور نرمی سے بات کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی ایک الگ اہمیت بھی ہے۔ خوش رہنے کیلئے جن عادتوں کا اپنانا ضروری سمجھا جاتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسکرانا سیکھ لیں۔ اس سے کسی اور کو کوئی غلط فہمی ہو یا نہ ہو، آپ کے اپنے احساسات پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔ یہ کچھ ایسی ہی بات ہے کہ جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر طیش میں آجاتے ہیں یعنی غصہ کرتے ہیں، وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عام لوگوں کے کردار اور ان کی اخلاقیات کا تعلق اس تعلیم اور تربیت سے ہوتا ہے جو انہیں بچپن میں دی جاتی ہے۔ یہاں میں اس نکتے پر واپس آئوں گا کہ جمہوریت سے اس کا کیا رشتہ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جمہوریت میں سب انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے اور ہر شہری کی اپنی عزت اور انسانی تقدس کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ کہنے کو تو ہم جمہوریت ہیں یعنی انتخابات بھی ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ میں کبھی کبھی مچھلی بازار کا سا شور بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں سب انسان برابر نہیں ہیں۔ تہذیب کی ایک اور پہچان یہ ہے کہ لوگ اپنے ملازموں سے کس طرح بات کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہمارا کلچر ایسا ہے کہ اشرافیہ اور عوام میں کوئی میل جول نہیں ہے۔ نہ وہ سڑکوں پر ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ کسی محفل میں ایک دوسرے سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔
آپ شاید یہ سوچیں کہ اس کالم کا کچھ تعلق رمضان کے ماحول سے بھی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس مہینے میں صبر اور برداشت اور عاجزی کا اتنا زیادہ مظاہرہ نہیں دیکھا جاتا۔ میں نے جمہوری قدروں اور سماجی انصاف کی پامالی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ گمبھیر مسائل ہیں۔ ان سے لڑنے کیلئے حکمرانوں کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ فی الحال تو چلئے صرف تبسم اور تکلم کی بات کرتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ کتنی اہم ہے کہ عوامی سطح پر لوگ ایک دوسرے سے کیسا برتائو کرتے ہیں۔ کئی شعبوں میں ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ طرح طرح کے بین الاقوامی سروے ہمارا منہ چڑاتے ہیں۔ شاید یہ ریسرچ بھی کسی نے کی ہو کہ کس ملک کے لوگ کتنا مسکراتے ہیں اور چلئے مسکرانے کی بات نہ بھی کریں تو یہ دیکھیں کہ کس ملک میں لوگ ذراذرا سی بات پر چیخنے چلانے بلکہ ہاتھاپائی پر اتر آتے ہیں۔ ابھی دو تین دن پہلے میرے ایک دوست تھائی لینڈ میں ایک ہفتے کے قیام کے بعد واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ ایک ہفتے میں انہوں نے ہارن کی آواز نہیں سنی، کسی کو بلند آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ سب اتنی نرمی اور شائستگی سے بات کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ تاثر بہت جائز نہ ہو لیکن یہ تو واضح ہے کہ کئی معنوں میں ہمارے جیسے معاشرے بھی اخلاق اور تہذیب کے پیمانے پر ہم سے کتنے آگے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں مسکرانا اور نرمی سے بات کرنا کون سکھائے گا۔ اگر ہم اپنے نیوز چینلز کو ایک کوچنگ سینٹر سمجھیں تو دیکھ لیں کہ ہمیں ہر روز کیا سبق پڑھایا جارہا ہے۔ اسی نوعیت کا ماحول بے شمار گھروں اور اداروں میں بھی پایا جاتا ہے لیکن جس طرح میں کہتا ہوں کہ مطالعے کے شوق سے کسی فرد کی زندگی بدل سکتی ہے تو شاید مسکرانے اور پیار سے بات کرنے کی عادت سے بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ تو آپ بتایئے کہ آج صبح آپ کسی کو دیکھ کر مسکرائے ہیں؟ نہیں…! تو پھر دیر کس بات کی ہے۔



.
تازہ ترین