• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
والٹیئر ایک بہت بڑا فلسفی ہی نہیں تھا، وہ ایک عظیم محب وطن بھی تھا۔ وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس کے وطن فرانس میں کوئی خرابی نہیں۔ دوسری طرف اسے یہ بھی علم تھا کہ دنیا میں ناانصافی، جہالت، ظلم، محرومی، افلاس اور ریا کاری جیسی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ والٹیئر کے دل میں ان برائیوں کے خلاف لڑنے کی لگن تھی۔ چنانچہ وہ دور دراز کے ملکوں اور قدیم تاریخی قصوں کی مدد سے ان برائیوں کا پردہ چاک کرتا تھا۔ بدقسمتی سے فرانس کے کچھ مٹھی بھر صاحبان اختیار، درباری، پادری اور اعلیٰ منصب دار تاریخ ہی سے نابلد نہیں تھے بلکہ والٹیئر کی حب الوطنی پہچاننے سے بھی قاصر تھے۔ یہ لوگ الزام لگاتے تھے کہ والٹیئراجنبی زمینوں اور پرانے زمانوں کی آڑ میں دراصل فرانس کی خرابیاں بیان کرتا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ والٹیئر کے ڈراموں پر پابندی لگا دیتے تھے، اس کی کتابیں جلا دیتے تھے اور کبھی کبھار لب سڑک اس کی پٹائی بھی کر دیتے تھے۔ ثابت ہوا کہ اہل فرانس قطعاً خود شناس نہیں تھے۔ خوش قسمتی سے اب وہ زمانہ گزر چکا۔ ہمارے پیارے ملک کے لوگ بالکل پھسڈی نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ان گنت خوبیاں ہیں نیز یہ کہ دنیا کے دیگر ممالک کو ہم سے ترقی، رواداری اور دیانت داری کا سبق سیکھنا چاہئے۔
سامراج دشمن حلقوں میں یہ خبر نہایت اطمینان کے ساتھ سنی گئی کہ امریکہ میں ریاست کے اندر ریاست یعنی ڈیپ اسٹیٹ کی بحث زوروں پر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ امریکہ میں ایک ڈیپ اسٹیٹ ہے جو جو صدر ٹرمپ کے تمام اچھے اقدامات کو سبوتاژ کر رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک عظیم عالمی رہنما ہیں ۔ حال ہی میں انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کرتے ہوئے شاہ سلمان سمیت چالیس مسلم اکثریتی ممالک کے رہنمائوں کو بتایا ہے کہ کس طرح امریکہ، مشرق وسطیٰ اور دوسرے مسلم ممالک کو مل کر انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس نصب العین کی اخلاقی سچائی سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ ڈیپ اسٹیٹ نامی ایک حریف سے خائف ہے تو دنیا بھر میں انتہا پسندی کے خلاف متحد انسانوں کو سمجھنا چاہئے کہ ڈیپ اسٹیٹ کیا ہوتی ہے۔ یہ کس طرح کام کرتی ہے اور اس سے قوموں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر ڈیپ اسٹیٹ کو ریاست کے اندر غیر منتخب سرکاری اہلکاروں ، اداروں ، قومی سلامتی کے اداروں ، ایک خاص رنگ کے سیاست دانوں ، تجربہ کار افسر شاہی اور کچھ کاروباری خاندانوں کا ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا اتحاد سمجھا جاتا ہے جو منتخب حکومتوں پر اپنا اثرونفوذ قائم کرتا ہے اور سوچے سمجھے طریقوں سے بنیادی پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ کا کوئی ایک چہرہ نہیں ہوتا اور نہ اس میں شامل افراد کی کوئی مستقل فہرست ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈیپ اسٹیٹ میں چہرے اور نام بدلتے رہتے ہیں لیکن اس کا بنیادی مقصد منتخب فیصلہ سازوں کو بے دست و پا کر کے ایسی پالیسیوں کو قائم رکھنا ہوتا ہے جس سے ریاست میں مخصوص مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ اگرچہ پاکستان میں ڈیپ اسٹیٹ کا کوئی وجود نہیں تاہم امریکہ ، بھارت اور ایسے بہت سے ممالک کے ساتھ ہمارے الجھے ہوئے معاملات کی روشنی میں ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ کس طرح نمودار ہوتی ہے اور اس سے ریاستوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ڈیپ اسٹیٹ کا سب سے اہم نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ منتخب قیادت غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ منتخب قیادت کے بے اثر ہونے سے عوام قومی معاملات میں اپنا اثرورسوخ کھو بیٹھتے ہیں۔ ڈیپ اسٹیٹ اپنے گروہی مفادات کی روشنی میں ریاست کے دوستوں اور دشمنوں کا انتخاب کرتی ہے۔ مفروضہ اور حقیقی خطرات کا تعین کرتی ہے۔ ذرائع ابلاغ ، تعلیمی نصاب اور دوسرے ذرائع سے رائے عامہ کو ایک خاص سمت دیتی ہے۔ اس کے لئے اگر کہیں سازش کی ضرورت پیش آئے تو جان لینا چاہئے کہ سازش ڈیپ اسٹیٹ کی حکمت عملی کا بنیادی جزو ہے۔ ان سازشوں کے نتیجے میں عوام میں بے یقینی پھیل جاتی ہے اور وہ آئینی بندوبست اور طے شدہ ضابطہ کار کی بجائے ہنگامی واقعات اور حادثات کے منتظر رہتے ہیں۔ ان سازشوں کی موجودگی میں منتخب قیادت طویل مدتی منصوبہ بندی کی بجائے سارا وقت لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہنگامی تصویر سے عہدہ برا ہونے میں صرف کرتی ہے۔ منتخب حکومتوں کے مقابلے میں ڈیپ اسٹیٹ کی نوعیت زیادہ پائیدار ہوتی ہے چنانچہ اسے جواب دہی کا خطرہ نہیں ہوتا۔ جواب دہی کی عدم موجودگی میں ڈیپ اسٹیٹ کے منشیات فروشوں ، اسلحہ کے سوداگروں ، قبضہ گروپوں اور عام مجرموں کے ساتھ روابط قائم ہو جاتے ہیں۔ ریاست میں امن و امان کی صورت حال بگڑ جاتی ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مثلاً پولیس ، عدلیہ بڑی حد تک بے بس ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے میں متبادل بیانیہ پیش کرنے والے تمدنی عناصر خوف اور دہشت کا شکار ہو کر دبک جاتے ہیں۔ ڈیپ اسٹیٹ میں کرپشن کا راج ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپشن کی مخالفت کے نام پر بدعنوانی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے شفافیت ، جواب دہی اور قانون کی حکمرانی سے بے نیاز ہونا پڑتا ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ کے ایک نمائندے نے بہت عرصہ قبل ایک سنہری اصول بیان کیا تھا او روہ یہ کہ ان کے ادارے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام نہیں کر سکتے۔ ان صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ دہشت گردی کو جنگ کی حکمت عملی کا حصہ سمجھنا چاہئے۔
دنیا میں جہاں ڈیپ اسٹیٹ کا وجود ہوتا ہے وہاں شہریوں کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں ۔ قوم کی توجہ مفروضہ اور حقیقی سازشوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ عام طور پر عدالتوں ، پولیس افسروں اور وزرا کو بھی پوری طرح سے معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی ناک کے عین نیچے کیا ہو رہا ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ کا نہ تو کوئی چہرہ ہوتا ہے اور نہ اس تک رسائی کا کوئی طے شدہ قاعدہ ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اگر ڈیپ اسٹیٹ کی کارروائیوں کے نتیجے میں کچھ شہری ناانصافی کا نشانہ بنتے ہیں تو انہیں بالکل معلوم نہیں ہوتا کہ وہ داد رسی کے لئے کس سے رجوع کریں۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں ڈیپ اسٹیٹ کا کوئی وجود نہیں، تاہم یہ مثال بے محل نہیں کہ جنوری کے مہینے میں جب کچھ سوشل بلاگر غائب کر دئیے گئے تو ہمارے وزیر داخلہ نے قوم کو یقین دلایا کہ ان کی بازیابی کے لئے کوشش کی جارہی ہے۔
وزیرداخلہ نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ اس ضمن میں وہ کن افراد یا گروہوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اسی طرح اگر کسی سیاسی جماعت کو یہ شکایت پیدا ہو جائے کہ ڈیپ اسٹیٹ اس کے انتخابی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کر رہی ہے تو سیاسی جماعت کس سے شکایت کرے۔ 2003 ء میں پرویز مشرف نے محسن پاکستان کو ٹیلی وژن کی اسکرین پر لا بٹھایا لیکن کسی کو جرأ ت نہیں ہوئی کہ فروری 2004 ء کے ان واقعات سے پہلے اور بعد شفاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کر سکے۔ اگرچہ پاکستان میں ڈیپ اسٹیٹ نام کی کوئی حقیقت موجود نہیں تاہم پچھلے دنوں سعودی عرب میں دفاعی کانفرنس کے دوران پاکستان کے وزیراعظم کو نظرانداز کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دنیا پاکستان کی منتخب قیادت کو پالیسی سازی میں غیر مؤثر سمجھتی ہے۔
دنیا کی تمام ریاستوں میں ڈیپ اسٹیٹ کا تاثر ایک منفی اثر رکھتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی ریاست میں ڈیپ اسٹیٹ کا اثرونفوذ اتنا ہی گہرا ہو سکتا ہے جتنی اس ریاست کی اقتصادی اور تمدنی طاقت ہوتی ہے۔ طاقتور ملکوں میں ڈیپ اسٹیٹ بھی طاقتور ہوتی ہے۔ کمزور ملکوں میں ڈیپ اسٹیٹ آئے روز رابرٹ برائوننگ کی نظموں کے بے چہرہ کرداروں کی طرح بے نقاب ہو جاتی ہے۔ چنانچہ دنیا بھر کے انسانوں کو ہر ے سمندر کی مچھلیوں سے یہ نہیں پوچھنا چاہئے کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جہاں پانی گہرا ہے، وہاں مگرمچھ کتنے بوڑھے ہیں۔



.
تازہ ترین