• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کے ایک پائو دہی کو لسی بنانے کےلئے اس میں اتنا پانی ڈال دیا گیاہے کہ اس لسی کی اب ’’چٹیائی‘‘ (سفیدی) بھی ماری گئی ہے اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو اس بدمزہ لسی کو روزانہ گھونٹ گھونٹ پینے پر مجبور کیا جارہا ہے اوراس پاناما کی لسی کی کتنی ہی شاخیں نکل آئی ہیں اور ہر شاخ پر ہر طرح کا الو بیٹھا ہے۔ پاکستانی عوام روزانہ ٹی وی چینلز سے بعض اینکرز کو گالم گلوچ ہوتے دیکھتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ یارب یہ ہم کس عذاب میں پھنس گئے ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر عوام اپنی آرا کا اظہار کرتے نظرآتے ہیں جو ان ’’اینکرز‘‘کی آراسے لگا نہیں کھاتیں۔ ان دنوں لوگ زیادہ تر عمران خان کی کہہ مکرنیوں یا ان کی وزارت ِ عظمیٰ کی خواہش کی بے تابی کا ریکارڈ لگاتے نظر آتے ہیں۔ صدیق بٹ صاحب کی ایک بلیغ سی پوسٹ آج ہی نظر سے گزری جس میں خاں صاحب حیلوں بہانوں سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ پوسٹ ’’شارٹ ہینڈ‘‘ میں ہے مگر ذرا سی کوشش سے سمجھ آجائے گی۔
دھاندلی پر دھرنا..... استعفیٰ دو
دھرنے میں 35پنکچر کا دعویٰ ..... استعفیٰ دو
الیکشن کمیشن سے پاناما ..... استعفیٰ دو
پاناما سے نہال ہاشمی ..... استعفیٰ دو
اس کے علاوہ عوام عمران خان کے جلسوں میں جلائو گھیرائو کے نعروں، سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان، عوام کو کہنا کہ وہ ٹیکس نہ دیں، بجلی کا بل نہ دیں اور اس کے علاوہ خاں صاحب کی مختلف اداروں اور افراد کو ہر طرح کی دھمکیاں دینا،’’آئی جی طاہر تم سن لو میں تمہیں چھوڑوںگا نہیں تمہیں برسراقتدار آتے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دوں گا۔‘‘ طاہر القادری صاحب کے ارشادات ’’جو بھی دھرنےسےاٹھے اسےقتل کردو‘‘ اور ا س طرح کے بے شمار اشتعال انگیز بیانات کے علاوہ ٹی وی اسٹیشن پر حملہ، اپنے کارکنوں کو تھانے سے خود چھڑا کر لانا، گالی گلوچ، الزام تراشی، ہر ایک پر بہتان لگانا، دس ارب کی ’’رشوت‘‘ٹھکرانا..... عدالتی طلبی کو خاطر میں نہ لانا..... لوگ پوچھتے ہیں کہ عدالت ایسے عناصر سے چشم پوشی کیوں کرتی ہے؟ مگر لوگ بھول جاتے ہیں کہ عدالت کو ایک نہیں کئی مسائل نےگھیرا ہوا ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں تمام محاذوں پر تو اپنی طاقت استعمال نہیں کرسکتی۔ جہاں ناگزیر ہو جائے وہاں اسے کرنا پڑتا ہے۔ اب حال ہی میں اس نے حکومت ِ وقت کو بہت سے ایسے خطابات سے نوازا ہے جس پر حکومتی ترجمان کو اس لب و لہجے کو ناپسندیدہ قرار دینا پڑا اور عدالت اپنےطور پر رنجیدہ ہے کہ انصار عباسی کی رپورٹ نے جے آئی ٹی کی شفافیت کو مشکوک بنادیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)تو پہلے ہی اس سے مطمئن نہ تھی مگر اس کے باوجود اس سے تعاون کر رہی تھی اور اس عہد کا اعادہ کررہی ہے کہ وہ اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود تعاون کا یہ سلسلہ جاری رکھے گی چنانچہ حسین نواز کو روزانہ جےآئی ٹی میں گھنٹوں بٹھایا جاتا ہے اور گھنٹوں جرح کی جاتی ہے۔ حالانکہ حسین نواز کو مشرف کے دور میں قید تنہائی میں رکھ کر شدید اذیت ناک ماحول میں وہ سب کچھ پوچھا جاچکا ہے جس کے جواب میں شفافیت کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہو سکا تھا۔ صرف حسین ہی کو نہیں نوازشریف اور شہباز شریف کے پورے خاندان بلکہ ان کی فیکٹریوں کے اعلیٰ افسران تک سے سخت اذیت دیتے ہوئے مطلوبہ جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی کیسے ہوتی جبکہ سب کچھ روز ِ روشن کی طرح سب پر عیاں تھا!
یہ سب کچھ ہورہا ہے اور اب تو طاہر القادری صاحب کو بھی پاکستان ’’طلب‘‘ کرلیا گیا ہے دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی پٹاری سے کیا نکالتے ہیں؟
قارئین سے معذرت کہ یہ کالم ادھورا چھوڑ رہا ہوں کیونکہ ادارتی صفحے کے انچارج بار بار فون کر رہے ہیں کہ کالم جلدی بھیجیں کاپی جانے والی ہے۔ میں نے ابھی اپنی کچھ باتوں کی وضاحت بھی کرنا تھی تاکہ کسی دل میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو اور میری کسی بات کو غلط معنی نہ پہنائے جائیں مگر مجبوراً اس تحریر کا ’’خاتمہ بالخیر‘‘ یہیں کر رہا ہوں ۔ وما علینا الالبلاغ



.
تازہ ترین