• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نامور کالم نگار محترم حسن نثار نے 31مئی کو شائع ہونے والے اپنے کالم بعنوان ’’عمران خان کا اعصاب شکن اعلان ‘‘میں ایک واقعہ درج کیاہے ۔حسن صاحب لکھتے ہیں کہ GLOBAL AGEمیں سینئر خاتون سیاستدان عابدہ حسین کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ جب دوسری بار میاں نوازشریف کی حکومت گئی آپ یعنی محترمہ نے نوازشریف کو منیرنیازی کی شہرہ آفاق نظم سنائی جس کا مصرع محاورہ بن چکا ہے ’’کج شہر دے لوگ وی ظالم سن ،کج مینوں مرن دا شوق وی سی ‘‘عظیم قائد نے پوچھا ۔۔۔کیا یہ آپ نے لکھا ہے ؟ عابدہ بی بی نے بتایا۔۔۔’’نہیں ،منیر نیازی نے لکھا ہے ‘‘۔جس پر عظیم قائد نے مزید پوچھا ۔۔۔’’یہ کون ہیں ؟‘‘۔اسی لیول کا ایک اورواقعہ بھی سن لیں ۔2010کے شدید ترین زلزلہ کی تباہ کاریوں سے متاثرہ بے گھر افراد کی بحالی کے لئے ریسکیوون ون ٹوٹو متحرک ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے پوچھا ۔۔۔یہ ون ون ٹوٹو کیاہے ؟ گیلانی صاحب کے اس’’ چھکے‘‘ سے مجھے دلیپ کمار صاحب اور راج کمار پر فلمبند وہ گانا یاد آگیا جس میں وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ۔۔۔یہ ایلوایلو کیاہے ۔۔۔یہ ایلو ایلو۔۔۔؟ اس ڈیزائن اور ٹائپ کے بادشاہ اور شہزادے میڈیا میں بھی موجود ہیں ۔ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک ایسوسی ایٹ پروڈیوسر سے کہاکہ یوٹیوب سے نیازی صاحب کا گایا مشہور لوک گیت ’’ساڈا چڑیاں داچنبہ ‘‘ ڈائون لوڈ کرو۔شہزادے پروڈیوسر نے مجھ سے پوچھا کیا گلوکار کا پورانام منیر نیازی ہے ؟پروڈیوسر کا جواب سن کر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اسے کہاکہ منیر نیازی کے گائے مشہور لوک گیت اور طفیل نیازی کی لکھی مشہور ِزمانہ نظم ’’کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن ،کج ساہنوں مرن دا شوق وی سی‘‘ڈائون لوڈ کرلو۔
اپنے صحافتی کیرئیر میں کئی ایک بادشاہوں اور شہزادوں کی’’ لافانی سنگت‘‘ سے بہرہ مند رہاہوں۔چند سال قبل ایک نیوز چینل پر عظیم شخصیات پر ڈاکومنٹریزبنانامیرے فرائض میں شامل تھا۔فیض کی زندگی پر ڈاکومنٹری بنانے کے لئے مجھے ایک ایسا پروڈیوسرسونپا گیاجسے فیض تو ایک طرف خواجہ پرویز جیسے فلمی شاعر کی عام فہم شاعری سے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔منوبھائی ،امجداسلام امجد اور فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی سے انٹرویوز کرکے واپس دفتر آیا توسخت پریشان دکھائی دیا۔میں نے پریشانی کی وجہ دریافت کی تو دونوں ہاتھ باندھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔ اوئے سرجی !یہ غم ِجاناں اورغم ِدوراںکس بھلاکانام ہے ،جہاں جاتاہوںسارے غم ِجاناں اور غم دوراں کا لیکچردینے لگتے ہیں؟ اس شہزادے پروڈیوسر نے ملکہ ترنم نورجہاں کی زبانی بھی فیض کی شاعری پر کبھی کان نہیں دھرا تھا، وگرنہ کہیںنہ کہیں اس کے لاشعور میںیہ شعر ضرور گونجتا اور وہ فیض کے غم جاناں سے غم دوراں کے سفر سے واقف ہوتا ’’ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا‘‘۔۔۔ فیض اور منیر نیازی کے علاوہ حبیب جالب بھی ہمارے حکمرانوں کے ’’فیورٹ ‘‘ ہیں ۔حبیب جالب کی شاعری اورحکمرانوں کی طرف سے کشید کئے جانے والے انقلاب ’’میں نہیں مانتا‘‘ پر بات کسی دوسری نشست میں کریں گے فی الحال منیر نیازی کا شعر ملاحظہ ہو
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے شہر میں نامعتبر اس نے کیا
شہر میں نہال ہاشمی کے بیان کا بھی شہرہ ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاہے کہ حکومت سیسلین مافیا بن گئی ہے ( اٹلی کے جرائم پیشہ افراد کے گروہ کو سیسلین مافیاکہاجاتاہے) تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نہال ہاشمی کا بیان ان کے لیڈر میاں نوازشریف اور جے آئی ٹی کے خلاف ’’خودکش حملہ ‘‘ ہے ۔میڈیا نے نہال ہاشمی کے لب ولہجے اور ڈائیلاگ کو شہرہ آفاق پنجابی فلم ’’مولاجٹ ‘‘ کے کردار سے موسوم کیاہے۔میں میڈیا کے اس اینگل سے اختلاف کروں گا کیونکہ میرے نزدیک سلطان راہی مرحوم کے اس کریکٹر کودوسرا کوئی ایکٹر اس طرح پرفارم نہیں کرسکتا۔بھارت نے مولاجٹ کی نقالی کرتے ہوئے نصف درجن فلمیں بنائیں مگر وہ ناکام رہے کیونکہ ان کے پاس سلطان راہی نہیں تھے ۔نہال ہاشمی کی حالیہ پرفارمنس بھی فلمی ٹائپ ہی تھی کیونکہ وہ عدالت کے روبرو اس پر معافی بھی مانگ چکے ہیں ۔پتہ نہیں مولاجٹ فیم پروڈیوسرمحمد سروربھٹی نے نہال ہاشمی کی پرفارمنس دیکھی ہے یانہیں ؟ہمارے نزدیک مذکورہ فلم میں سلطان راہی نے مولاجٹ اور مصطفی قریشی نے نوری نت کے کرداروں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی البتہ بالاگاڈی اور اکوقاتل کے کرداروں کیلئے سرور بھٹی صاحب سے نہال ہاشمی کی سفارش کی جاسکتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ساراکا سارامیڈیا اورحکمران ایلیٹ فیض اورمنیرنیازی کی شاعری ،فلسفہ اور خیالات سے بے بہرہ ہیں۔کبھی ہمارے ملک کی حکمران ایلیٹ میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر تھے جن کے لئے GENIUSکی اصطلاح بھی چھوٹی پڑجاتی ہے۔شیخ رشید الزام لگاتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کا کوئی وژن نہیں ہے کیونکہ انہوں نے نصابی کتب کے علاوہ کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوگی ۔ دوسری طرف بھٹو صاحب نے اپنی زندگی کے مشاہدات اور واقعات پر مشتمل کئی ایک کتابیں لکھیںجنہیں عالمی سیاست اور ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ 1967میں انہوں نے( Peace - Keeping by the united Nations ) تحریر کی ۔اس کے بعد 1969میں( The myth of independence)جیسی کتابیں لکھی جنہیں اقوام عالم کے تنقید نگاروں نے سراہا۔
بعدازاں بھٹو صاحب نے 1976میں( Thoughts on some aspects of Islam)جیسی کتاب بھی لکھی جس سے عالمی سطح پر مسلم امہ کا نیا تصور اجاگر کیاگیا تھا۔1977میں انہوں نے تیسری دنیا کو اپنا موضوع بنایا اورThe Third World , New Directions جیسی تصنیف لکھی ۔ اسی سال 5 جولائی کو ان کا تختہ الٹا گیاتو بھٹو صاحب نے جیل اور موت کی کوٹھڑی سے
(If I am Assassinated ) میں جو احساسات اور تاثرات بیان کئے ہیں اسے دنیا کی بہترین کتابوں میںشامل کیاجاتاہے ۔
بھٹو اقوام عالم کی تاریخ ،تہذیب ،معاشرت ،سیاست اورمعاشیات کے انسائیکلو پیڈیا تھے۔ یوں تو ان کا میڈیم انگریزی تھا مگر وہ ریختہ کے استادغالب سے بھی مکمل طور پر آشنا تھے۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کے بنچ نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی تو ان کے وکیل یحییٰ بختیار نے سپریم کورٹ میں اپیل کردی جہاں بھٹو صاحب نے اپنا مقدمہ لڑتے ہوئے غالب کا یہ شعرپڑھا
رنج سے خوگرہوا انساں تو مٹ جاتاہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں
بھٹو صاحب کو عدالت سے پھانسی ہوئی اور انہیں تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔ اس سے قبل جنرل ضیاالحق اور جسٹس مولوی مشتاق کا گٹھ جوڑ ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کرسکا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد حکمران ایلیٹ نے جو سیاست متعارف کرائی پاناما اسی کا کارنامہ ہے۔ بھٹو کو تو پھانسی دے دی گئی مگر قوم آج تک دکھ درد اور مسائل کی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے، شاید ہم بحیثیت قوم بھٹو کے ناحق خون کا کفارہ ادا کررہے ہیں!



.
تازہ ترین