• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بحیثیت قوم ذرا جذباتی سے لوگ ہیں۔ دلائل، حقائق، شواہد اور اعدادوشمار کو کم ہی مانتے ہیں۔ سنی سنائی بات ہمارے لئے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ سینہ گزٹ ہمارے لئے قریبا ثبوت جیسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ کیا کہہ رہے ہیںیہ ہمارے لئے بہت معنی رکھتا ہے۔حالات و واقعات کا تجزیہ ہم اندازوں پر کرتے ہیں۔ تحقیق کی فرصت ہمیں میسر نہیں ہے اور تفتیش کا حوصلہ ہم میں ہے ہی نہیں۔سنی سنائی بات پر جب سب لوگ یقین کر رہے ہو ں تو اسکے لئے انگریزی زبان کا لفظ پرسیپشن استعمال ہوتا ہے۔ اسکے معنی ڈکشنری میں دیکھے جائیں تو یہ خیال کے معنوں میں آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں پرسیپشن کا ترجمہ اندازہ، قیافہ، خیال ، رائے عامہ اور امکان کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ان قیافوں اور شکوک کو ثابت کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔لیکن ثابت کس کافر کو کرنا ہوتا ہے۔ بس سنی سنائی بات کو آگے بڑھا دینے سے ہی ذات کی تسکین ہوتی ہے۔
اس ملک کی قریبا بیس کروڑ افراد کی آبادی میں سے نناوے اعشاریہ نو فیصد قانون دان نہیں ہیں۔ لیکن قانون کے ہر مسئلے پر انتہائی وثوق سے رائے دیتے ہیں۔ قانونی مسائل پر اس ملک میں صرف قانون دان ہی اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں ۔ باقی تو جس کو جتنی سمجھ آتی ہے وہ اتنا بیان کرکے قانون کے مضمون کا پتہ پانی کر دیتا ہے۔
اب پاناما کیس کو ہی دیکھ لیں۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں ان معاملات کی سمجھ ہے؟ کتنے لوگ بین الاقوامی مالیاتی قوانین سے آگاہ ہیں؟کتنے لوگ آف شور کمپنی بنانے کے ثمرات اور مضمرات سے واقف ہیں؟کتنے لوگ ہنڈی اور بینکنگ چینل میں فرق کو جانتے ہیں؟کتنے لوگ لندن میں جائیداد خریدنے کے طریقہ کار سے واقف ہیں؟کتنے لوگ قطری خط کی قانونی اہمیت کو جانتے ہیں؟ کتنے عدالت میں ہونے والی کارروائی کو سمجھنے کا ادراک رکھتے ہیں؟ لیکن ہمارے ہاں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ پرسیپشن کچھ اور کہتا ہے۔ لوگ عام طور پر کچھ اور بات کرتے ہیں۔ اندازے اور قیافے لگانے کے لئے کوئی قانون کی ڈگری تھوڑی چا ہیے ہوتی ہے۔ میڈیا اور سینہ گزٹ کے تعاون سے یہ بات ہمارے ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہے کہ کچھ گڑ بڑ گھوٹالہ ہے۔ او جی پیسے آخر آئے کہاں سے؟ دیکھیں جی سارے یہی بات کر رہے ہیں۔ آپ ان لوگوں کو سمجھانے کی لاکھ کوشش کریں۔ ان کو دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کریں تو گفتگو کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے ۔ دیکھیں جناب شک تو پڑ گیا ہے نا؟اس لازوال دلیل کے بعد سب دلائل بے بس ہو جاتے ہیں کیونکہ پرسیپشن یہ کہتا ہے کہ شک تو پڑ گیا ہے نا؟اب ہم میاں صاحب کو ڈس کوالیفائی کروا کر ہی دم لیں گے کیونکہ شک جو پڑ گیا ہے۔
عمران خان کا فارن فنڈنگ اور بنی گالہ کی جائیداد والا کیس ہی دیکھ لیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں اس قسم کے پیچیدہ قانونی معاملات سے آگاہی بہت ہی کم لوگوں کو ہو گی۔ زمین خریدنے کے لئے فنڈز کہاں سے آئے۔ حبہ اور وقف میں کیا فرق ہوتا ہے۔ بیوی شوہر کو تحفہ دے سکتی ہے؟ شوہر بیوی سے ادھار لے سکتا ہے؟ زمین پہلے خریدی گئی یا طلاق پہلے ہوئی؟طلاق کے بعد ادھار کی کیا تک تھی؟ملک سے غیر قانونی پیسہ باہر لے جانا جرم ہے تو غیرملکی غیر قانونی سرمائے کو ملک میں لانا کیا کار ثواب ہے؟مختار نامے کی کیا اہمیت ہے؟راشد خان کے جواب کا کیا جواز ہے؟ یہ سب قانونی سوال ہیں۔ ان کا فیصلہ فاضل عدلیہ کے سپرد ہونا چاہیے۔ دلیل، ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہئے۔لیکن یہاں بھی پرسیپشن کچھ اور کہتا ہے۔ کیونکہ سب ہی یہ بات کہہ رہے ہیں اس لئے آپ بھی یہی کہنا شروع کر دیں کہ نہیں جی پیسے تو خان نے بھی خوب کھائے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جہاد اصل میں اپنی کرپشن چھپانے کے لئے ہے۔لو جی اس معاشرے میں کوئی صاف ستھرا آدمی ہے ہی نہیں۔ سب ہی چور ہیں، سب ہی ڈاکو ہیں۔سب ہی اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ گفتگو کے اس مرحلے پر اگر آپ دلیل سے بات کرنے کی کوشش کریں، شواہد اور حقائق کی طرف اشارہ کریں تو وہ آخری اور ازلی دلیل آپ کی منتظر ہوتی ہے دیکھیں جی شک تو پڑ گیا ہے نا؟اب اس شک کو رفع کرنے کا اس ملک میں کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔ اب چاہے قانون کچھ بھی کہتا رہے ہم عمران خان کو سزا دلوا کر ہی رہیں گے کیونکہ شک جو پڑ گیا ہے۔
اب آ جائیںپاناما کیس کی جے آئی ٹی کے معاملے پر۔ فاضل عدلیہ نے پاناما کیس کی سماعت کے بعد مزید تحقیق اور تفتیش کے لئے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا۔ اس جے آئی ٹی کو اپنی تفتیش مکمل کرنے کے لئے ساٹھ دن کا وقت دیا گیا۔معزز جج صاحبان بر وقت سماعت ختم کرنے کا بارہا عندیہ دے چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔تفتیش اپنے قواعد کے مطابق چل رہی ہے۔ وزیر اعظم کے صاحبزادے کو بار بار جے آئی ٹی کے سامنے حاضر ہونے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ طارق شفیع بھی اس میں پیش ہو چکے ہیں۔ طارق شفیع کی جانب سے چند ممبران کے روئیے کے بارے میں سوال اٹھائے گئے جو ان کا حق ہے۔ سوالات کئے جا رہے ہیں۔ ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ کاغذات پر کاغذات فراہم کئے جا رہے ہیں۔اعتراضات کا جواب شواہد سے دیا جا رہا ہے۔ اسی دوران اس ملک کے ایک انتہائی معتبر صحافی کی جانب سے ایک رجسٹرار صاحب کے حوالے سے ایک انتہائی حیران کن خبر آتی ہے۔یہ وہی خبر ہے جس کے مطابق ایک رجسٹرار صاحب نے وٹس ایپ کال کے ذریعے، اداروں پر، اپنی مرضی کے ممبران ،منتخب کرنے پر زور دیا تھا۔دو ممبران کے سیاسی رجحان کی بنا پر حکومت نے ان پر اعتراض کیا جو کہ حکومت کا قانونی حق ہے۔حالانکہ اس سے کیا ہی فرق پڑتا ہے کہ اگر بلال رسول کا قریبی تعلق میاں نواز شریف کے سیاسی مخالف میاں اظہر سے ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر انکی اہلیہ پی ٹی آئی کی سپورٹر ہیں؟اس سے کیا ہی فرق پڑتا ہے کہ اگر ان کانام زبر دستی ڈلوانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح دوسری جانب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر عامر عزیزپہلے نیب میں ملازم تھے اور مشرف دور سے حدیبیہ پیپر مل کے کیس پر کام کر رہے تھے۔معزز جج صاحبان نے ان دو ممبران کی تقرری پر اعتراضات کو مسترد کر دیا جو کہ عدالت کا حق ہے۔اس پر نہال ہاشمی کی آتش فشاں تقریر منظر عام پر آگئی۔فاضل عدالت کے معزز جج نے حکومت وقت کو سیلین مافیا قرار دے دیا۔ حکومت نے اس بات پر اپنا رد عمل دیا کہ ہماری ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا ر رہی ہے۔حکومتی جماعت سے بغض رکھا جا رہا ہے۔ سوتیلوں جیسا برتائو کیا جا رہا ہے۔ اس ساری ہڑبونگ کا نتیجہ وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے یعنی اب جے آئی ٹی کی شفافیت پر بھی شک پڑ گیا ہے۔
اب اس جے آئی ٹی کا فیصلہ کچھ بھی آئے۔ حقائق چاہے کچھ بھی ہوں ۔ سینہ گز ٹ چل چکا ہے۔ لوگوں نے سنی سنائی باتیں دہرانی شروع کر دی ہیں۔۔ اب آپ ان کو لاکھ دلیلوں سے قائل کریں ۔ لاکھ ثبوت پیش کریں۔ ہزار دفعہ سمجھائیں کہ رجسٹرار کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ممبران کا انتخاب کرے ۔ لیکن گزشتہ مثالوں اور اس واقعہ میںفرق صرف اتنا ہے کہ وٹس اپ کی کالز کے حیران کن انکشاف نے معاملے کو شک سے آگے پہنچا دیا ہے۔ اب یہ بات صرف مشکوک نہیں رہی ہے۔ اب یہ کہانی صرف سینہ گزٹ نہیں رہی۔ اب یہ داستان صرف سنی سنائی نہیں رہی۔ اب ملک کے ایک معتبر صحافی ثبوت پیش کر چکے ہیںاور ہر جانب سے، اس ایک خبر کی صداقت کی تصدیق کی وجہ سے، ایک رجسٹرار کی جانبداری کا شک یقین میں بدل چکا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران پہلی دفعہ پرسیپشن ، پروف میں تبدیل ہو گیا ہے۔



.
تازہ ترین