• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راستے تو بہت ہیں مگر منزل کوئی نہیں، ترقی کا شور گلی گلی ضرورہے لوگوں میں،دوستوں میں، اداروں میں مقابلہ بہت ہے بلکہ مقابلہ ہو بھی رہا ہے جبر اور ضبط کی بھی جنگ ہمارے ہاں ہی لڑی جا رہی ہے ۔پرانے بزرگ کیا کرتے تھے مایوسی کفر ہے۔آج کل اس کفر پر سب کو یقین ہے پہلے زمانہ میں تو کافر پر بھی پیار آ جاتا تھا اب زمانہ بدل چکا ہے کافر قابل قتل ہے ۔وجہ ضروری نہیں آج کل جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔قانون حاضر ہے انصاف نظر نہیں آتا میرا خیال ہے کہ ایسا سب کچھ پہلے زمانہ میں بھی ہوتا تھا پہلے بھی بدگمانی ہوتی تھی مگر اب بدگمانی خیال کی بجائے نظریہ بن چکی ہے ہمارے اس عہد کا ایک معتبر شاعر جاوید شاہین تھا عام ادبی حلقوں میں اس کی پہچان زیادہ نہیں جاوید شاہین کے دوست اور عہد حاضر کے باکمال کالم نگار منوبھائی ایک زمانہ تک جاوید شاہین کے حلقہ کے اسیر رہے اگر ان کی شاعری کو پڑھا جائے تو حالات کے گرداب کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ مغرب میں تو شاعری کا اسلوب بدل ہی گیا ہے اب وہاں شاعری پر اتنی توجہ بھی نہیں ہے مگر ہمارے ہاں اب بھی شاعر اور شاعری ایک حقیقت ضرور ہے ۔کافی عرصہ پہلے ایک دفعہ حسن اتفاق سے جاوید شاہین اور منوبھائی نے کینیڈاکا چکر لگایا مجھے بھی ان کے ساتھ کچھ عرصہ وقت گزارنے کا موقع ملا ۔ اس وقت بھی پاکستان کی فکر تھی اور اب بھی پاکستان کی فکر لگی ہے میں نے جاوید شاہین سے پوچھا آپ شاعری کس کے لئے کرتے ہیں ۔جاوید شاہین نے آنکھیں موندلی اور جواب دینے میں کچھ وقت لگایا اور پھر بولے ’’ساجد میں شاعری اپنے لئے اور اپنے لوگوں کے لئے کرتا ہوں ‘‘ یہ بات کتنے سال پہلے کی ہے اس موقع پر انہوں نے جو چند شعر سنائے آج بھی مجھے یاد ہیں اور لگتا یوں ہے کہ آج کے بارے میں ہیں۔
میں سوچتا ہوں تیرے عہد کا کمال ہے یہ
بہت سے جھوٹ بڑے معتبر نکل آئے
اس زمانے کے جھوٹ بھی سیاسی اور سماجی ہی تھے ۔ جنرل مشرف کی حکمرانی تھی ملٹری سرکار آج کی طرح حالت جنگ میں تھی ۔اس وقت بھی کراچی پرآشوب تھا ۔پنجاب کی نوکر شاہی مرکز میں جنرل مشرف کی وفادار اور مشیر تھی انصاف اور قانون کے بارے میں شوروغل بھی ایسا ہی تھا آج کے معتبر چہرے اس وقت بھی اتنے ہی معتبر تھے اور عوام کو یقین دلایا کرتے تھے جنرل مشرف ملک کی تقدیر بدلنے کا خواب حقیقت میں بدل دیں گے ۔مگر ایسا ہو نہ سکا۔ جنرل مشرف اب ماضی کی حقیقت ہے جمہوریت کے متوالوں نے ان پر فرد جرم تو عائد کروا دی تھی مگر قانون موجود ہے اس سے انصاف ممکن نہیں ۔
آج کل ایک پرانی ڈاکومینٹری فلم کا سوشل میڈیا پر بہت تذکرہ ہے جب پاکستان نے جرمنی کو خاصی بڑ ی رقم کا قرضہ دیا اور جس کا اظہار ایک عرصہ تک جرمن سرکار کرتی بھی رہی اس وقت جرمن دوسری جنگ عظیم کے جبر کے نتیجہ میں تقسیم ہو چکا تھا۔ آزاد جرمن مغربی جرمنی کہلاتا تھا جس کے معاملات کو امریکہ دیکھتا تھا یورپ میں انتشار تھا اور دوسرا حصہ مشرقی جرمنی کہلاتا تھا جو روس کے زیر اثر تھا پاکستان کا قرضہ مغربی جرمنی کے لئے تھا اور اس قرضہ نے جرمنی کی تقدیر بدلنے میں اپنا حصہ بھی ڈالا آج جرمنی دوبارہ ایک ملک بن چکا ہے اور یورپ بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ اس ترقی میں جرمنی کے سیاست دانوں کی نیک نیتی کا بڑا دخل ہے ۔اگرچہ شکست وریخت کے بعد بھی اس کا مقابلہ یورپ کی اہم ریاستوں برطانیہ اور فرانس سے تھا مگر ان کے ہاں حوصلے کی کمی نہ تھی ۔ان کی ترقی میں اہم کردار سادہ زندگی کا تھا اس زمانہ کی معیشت قرضوں پر انحصار نہیں کرتی تھی آج سب کچھ بدل گیا ہے اب ترقی کے لئے قرضہ بہت ضروری ہے ۔بات کہاں سے چلی تھی اور میں کینیڈا میں بیٹھا ماضی میں کھویا ہوں مجھے پاکستان کی کیوں فکر ہے اور میرے گردوپیش میں بار بار اس کا ذکر ہے ۔پاکستان جانے کا پروگرام بنا تمام پرانے دوستوں کا خیال آرہا ہے کچھ سے ملاقات کی امید ہے اور کچھ اب ہمارے ساتھ نہیں ان میں ایک جاوید شاہین بھی ہیں۔ اتنے سال پہلے کی بات ہے جب منوبھائی اور سہیل وڑائچ امریکہ میں میرے ہمسفر تھے ہم سب لوگ اقوام متحدہ کی سالانہ تقریب میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے ۔ہم تینوں ہوسٹن کے ہوائی سفر میں تھے ہمارے ساتھ نیویارک کے ایک ناراض صحافی آفاق خیالی بھی تھے ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ جنرل مشرف سے بہت ناراض نظر آتے تھے جب جنرل مشرف آئے تو انہوں نے یک دم ان کی پریس کانفرنس سے بائیکاٹ کرکے نمایاں ہونے کی کوشش کی مگر جنرل نے کمال عقلمندی سے ان کا دائو ناکام بنا دیا ۔اب چند دن پہلے ان کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو انہوں نے ایک اور جلاوطن کردار ’’گورا‘‘ کو دیا ۔وہ خاصا متنازع سا تھا ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی تحریک کے لوگ نیک نیت نہیں تھے اب ایسے سوالوں اور معاملوں سے کیا حاصل ہے ۔
اب جو معاملات پاکستان کو درپیش ہیں ان پر ہر شخص پریشان ضرور ہے ترقی کا سفر قربانی مانگتا ہے مگر قربانی دینی تو دور کی بات کیونکہ ہر فرد اب صرف قربان گاہ پر کھڑا ہے اور آسمان پر خدا کے کسی حکم نامہ کا منتظر ہے ۔
خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارہ ہے
بات ہوسٹن کے سفر کی تھی اس وقت جو فکر اور پریشانی پاکستان کے بارے میں تھی وہ ہی صورتحال اب بھی ہے اس وقت کے حکمران بھی صاحب دور تھے مگر عوام کے درد میں اضافہ ہی ہوا اور آج بھی درد بہت ہے مگر دعا کرنے والے کم نہیں دوائی دینے والا کوئی نہیں اداروں کی بے بسی نمایاں ہے میں ایک خوف اور دہشت کا شکار ہوں
خطرہ سا کہیں میری اکائی کے لئے ہے
ہر لمحہ یہاں خود سے جدائی کے لئے ہے
پرواز پاکستان کے لئے اڑان بھر رہی ہے فضائی عملہ کے چہرے پر بے بسی نمایاں ہے آنے والے دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے ۔لوگ مجھے روکتے ہیں مگر قربان گاہ پر حاضری ضروری ہے میرے ہاتھ خالی ہیں اور ایک ساتھ کو کچھ کرنے کی عادت نہیں ڈالی جودوسرا ہے صرف گدائی کے لئے ہے ۔
اب دیکھیں فقیروں کے دیش کیا گزرتی ہے ۔



.
تازہ ترین