• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چشم بد دور، جمہوریت جوبن پہ جا رہی ہے اور جوبن بھی ایسا کہ وہ مشہور بھولا بسرا نغمہ یا د آتا ہے۔ ۔۔ ’’ڈھائی دن نہ جوانی نا چل دی، کرتی ململ دی‘‘ جمہوریت ابل ابل اور چھلک چھلک پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ململ کی کرتی کیا فولاد کی زرہ بکتر بھی ہوتی تو اسے پھاڑ کر بہہ نکلتی یہ سیلاب صفت جمہوریت۔چنڈال چوکڑی کے درمیان مقابلۂ خوشامد و چاپلوسی و چمچہ گیری پورے عروج پر ہے‘‘ عزت نفس، وفا، وقار کا زوال تاریخ بھی نہ سنبھال پائے گی کہ تاریخ کو اس درجہ کی گراوٹ کا تجربہ ہی نہیں۔۔۔ مقابلۂ خوشامد و چاپلوسی و چمچہ گیری ایسے عروج پر کہ فیصلہ کرنا ممکن ہی نہیں کہ ’’فاتح‘‘ کون ہو گا؟ تاج ملامت کس ’’سورما‘‘ کے سر سجے گا؟ ذلت کی خلعت کسے نصیب ہو گی کہ ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی نیلام گھر کی جمہوری زینت اور بے شک یہی تو اس جمہوریت کا حسن و جمال ہے۔ کوئی خلال ہے تو کوئی دھمال۔ کوئی وبال ہے تو کوئی باسی کڑھی کا بدبودار ابال ۔میں نے ایک کرلے کو دم پر کھڑے وکٹری کا نشان بناتے دیکھا تو سوچا یہ ’’شاہی جمہوریت‘‘ ۔۔۔ جمہور کی تذلیل پر تلی ہے اور میزان عدل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے بعد ’’سکریپ‘‘ کے طور پر بیچ دینا چاہتی ہے کیا 20کروڑ جمہوری اتنے سستے بک جائیں گے؟ ہے کوئی خریدار؟ سکریپ والوں نے ملک جمہوری سکریپ میں بدل ڈالا۔بہت دولت ہے، پارک لین سے پاناما تک رزق حلال کے ڈھیر ہوں گے، قارون کو بھی قسطوں کی بجائے یکمشت خرید سکتے ہوں گے لیکن 20کروڑ زندہ انسانوں کی خریداری اک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر بہت بھیانک بھی ہو سکتی ہے۔ جمہوری نیلام گھر کا پیغام کیا ہے؟’’زمین تنگ کر دیں گے‘‘۔۔۔ ’’زمین تنگ کر دیں گے‘‘ بچوں پر بھی زمین تنگ!الامان الحفیظ، الامان الحفیظ۔۔۔ ایسی بے حیائی ایسا ننگ جمہوریت کا؟ کہ ایسا کوئی دعویٰ تو کسی ظالم سے ظالم انسان نے بھی کبھی نہ کیا ہو لیکن یہاں تو ایسے لوگوں کا منتخب لشکر موجود ہے جو اپنے اپنے انداز میں ایسے ہی دعوے کر رہا ہے لیکن اچھا ہوا، بہت اچھا ہوا کہ یہ لوگ سب کچھ ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ تک لے آئے اور اس آدم خور نظام کو دوراہے پر لا کر پٹخ دیا۔بھٹو نے تختہ دار پر کہا تھا "FINISH IT"۔ اب اِدھر یا اُدھر، اس طرف یا اس طرف، فیصلہ ہو ہی جانا چاہئے کہ زندہ رہنا ہے یا نہیں؟ مر جانا ہے تو کیسے؟ زندہ رہنا ہے تو کیسے؟ کہ زندہ تو ریڈ انڈینز بھی ہیں۔ ستر (70) سال سے یہ فیصلہ سرد خانے میں اکڑا پڑا ہے کہ اس ملک میں رول آف لاء ہو گا یا رُول آف دی رُولر؟ قانون کی حکمرانی ہو گی یا قارون کی زبان سے نکلا پھسلا، اگلا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھے گا؟ ماضی قریب میں سپریم کورٹ پر ’’کامیاب حملہ‘‘ کا جو خون منہ کو لگ چکا، وہ نہ چین سے سونے دے رہا ہے نہ جاگنے تو غور سے سنو جو ایک بار ہو چکا، بار بار ضروری نہیں کہ بہت سا پانی بے رحم وقت کے پلوں نیچے سے گزر چکا بلکہ سچ پوچھو تو پل ہی بہا کر لے جا چکا۔ وہ رفیق نورانی چہرے کہانی بن چکے جو بریف کیسوں کی بار برداری بہت بردباری سے کیا کرتے اور اجرت کے طور پر آرائشی منصب پا کر خوش ہو جایا کرتے تھے۔ پاک سرزمین شاد باد۔بچپن میں جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن کی بہت سی کہانیاں پڑھیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جن جینوئن شیروں کے منہ کو بھی انسانی خون کی چاٹ پڑ جاتی تھی، وہ طبعی موت نہیں، شکاریوں کے ہاتھوں اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہیں۔میں اپنی فکری کم مائیگی کے باعث کہاں سے کہاں پہنچ گیا جس کے لئے معذرت خواہ ہرگز نہیں کہ اوقات ہی اتنی ہے۔ کالم شروع کیا تھا اس خوشخبری سے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ عرصہ یعنی عرصہ پاناما سے سیاست و صحافت کے میدانوں میں مقابلۂ خوشامد و چاپلوسی و چمچہ گیری اپنے عروج پر ہے تو طے سمجھ کر جو اپنی عزت نفس کا سودا کرتا ہے، وہ تمہاری عزت بھی مال مسروقہ کی مانند بہت سستی بیچ سکتا ہے، جس کی اپنی انا ٹکے ٹوکری ہے وہ تمہیںبھی بے مول بیچ دے گا۔خوشامد کیا ہوتی ہے؟ خوشامدی کون ہوتے ہیں؟"FLATTERY IS SOFT SOAP AND SOAP IS 90 PERCENT LYE."خوشامد یہ ہے کہ اپنے ’’ٹارگٹ‘‘ کو وہ سنائو جو وہ سننا چاہتا ہے، وہ دکھائو جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔DANIEL DEFOEنے کہا تھا۔ʼWHEN FLATTERERS MEET, THE DEVIL GOES TO DINNER"اب یہ پوچھیں گے کہ یہ DANIELکون ہے تو عجیب اتفاق ہے کہ اس DANIELکو ہی اردو میں دانیال کہتے ہیں۔اور یہ صرف زندہ ضمیر کا آئینہ ہے جس میں خوشامد کا عکس دکھائی نہیں دیتا۔دشمن کی تنقید شہد اور خوشامدی کی خوشامد زہر سے کم نہیں۔خوشامد چیونگم کی طرح انجوائے کرو، پھر تھوک دو کیونکہ اسے نگلنا مضر صحت ہوتا ہے۔خوشامد اور وفاداری کے درمیان باریک مہین ترین لکیر ڈھونڈنے کی کوشش کرو کہ یہی دراصل تمہاری تقدیر کی لکیر ہے۔ وفاداری تو بیوپاری پن نہیں، اتم ترین صفت ہے THEODORE ROOSEVELTکی کس تقریر کا جملہ ہے۔"IT IS BETTER TO BE FAITNFUL THAN FAMOUS"اور یہ ہسپانوی محاورہLOYALTY IN LITTLE THINGS IS A GREAT THING"لیکن جس ذات شریف کو یہی علم نہیں کہ منیر نیازی کون ہے، اسے خوشامد اور وفا کا فرق سمجھانا جوئے شیر لانے سے مشکل ہے لیکن شاید 20کروڑ افتادگان خاک کے لئے یہی بہتر ہے کہ یہ اسی دلدل میں دھنسے پھنسے رہیں تاکہ اس ستر سالہ ادھیڑ عمر ملک میں کسی قارون نہیں۔ قانون کی مکمل، مضبوط اور غیر مشروط حکمرانی قائم ہو سکے۔کتنی درد ناک بات ہے کہ وہ چین جو ہمارے بعد آزاد ہوا۔ آج ہم اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ ہی نہیںرہے اس پر فخر بھی کر رہے ہیں۔ کسی قارون نہیں، صرف صرف اور صرف قانون کی حکمرانی میں ہی نجات ہے ورنہ ملی نغمے مقبرے اور مزار بن جائیں گے۔



.
تازہ ترین