• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راہ ہموار نہ ہو تو چھوٹے موٹے جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔ ان جھٹکوں سے پریشان نہ ہوں، نہ ایک دم خطرناک نتائج کے خواب دیکھنا شروع کردیں۔ ہمارے سیاسی کلچر اور جمہوری روایات کے مطابق نہال ہاشمی کا جذبات کے سمندر میں بہہ کر ’’نہال‘‘ ہو جانا اور دھمکیوں کے پہاڑ لڑھکا دینا معمول کی بات ہے۔ ان سے اداروں کے درمیان ٹکرائو یا کسی اور بڑے خطرے کی گھنٹی بجا دینا سنسنی خیز تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقی او رسچ مچ نہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جن ممالک میں جمہوریت نابالغ ہوتی ہے وہاں اداروں کے بجائے شخصیات سے ذاتی وفاداری اور انتقام کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ دراصل ذاتی وفاداری یا شخصی عشق ہی انتقام کے جذبے کو جنم دیتا ہے کیونکہ محبت اورانتقام ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں یعنی جب محبت کو ٹھوکر لگتی ہے تو وفاداری کا سمندر جوش میں آتا ہے اور جب وفاداری کا سمندر جوش میں آتا ہے تو غصہ انتقام کا جذبہ ابھارتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ پی پی پی کے جیالوں نے پنجاب ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق اورمسلم لیگ کے لیڈر چوہدری ظہور الٰہی کو ایک ہی وار میں قتل کردیا تھا۔ ان کی ان شخصیات سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ ان کا قصور فقط اتنا سا تھا کہ جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو صاحب کوپھانسی کی سزا سنائی تھی اور چوہدری ظہور الٰہی نے صدر جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم تحفتاً مانگ لیا تھا جس سے انہوں نے بھٹو کی پھانسی کے حکم پر دستخط کئے تھے۔ یہ قاتلوں کی بھٹو سے عقیدت کا نتیجہ تھا نہ کہ جمہوریت سے محبت کا شاخسانہ۔ مطلب یہ کہ ہمارے ہاں نظام اور اداروں کی بجائے شخصیات سے محبت کا کلچر کچھ اس طرح پروان چڑھا ہے کہ اس میں نظام اور اداروں کی مرغی ذبح ہوگئی ہے۔ جب اداروں کی بجائے شخصیات سے عقیدت و محبت کا رواج پروان چڑھتا ہے تویہ اپنے ساتھ دربارداری، خوشامد، جذبات کے سمندر، جھوٹ کے پہاڑ اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وفاداری ثابت کرنے کا رجحان بھی لاتا ہے۔ وفاداری ثابت کرنے اور اپنے معشوق و محبوب لیڈر کی آنکھوں کا تارا بننے کے لئے جذبات سے ’’نہال‘‘ تقریریں بھی کرنی پڑتی ہیں اور مخالفوں کو دھمکانا بھی پڑتا ہے۔ البتہ یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ جب وفاداری کے امتحان کا وقت آتا ہے تو عام طور پر وفاداری بشرط استواری کا روپ دھار لیتی ہے۔ آج کل یقیناً ہمارے محبوب وزیراعظم صاحب دل ہی دل میں اپنے وفاداروں بہ وزن خوشامدیوں اور حواریوں کے جذباتی بیانات سن کر خوش ہوتے ہوں گے اوراپنے پیچھے ایک فوج ظفر موج دیکھ کر طاقتور محسوس کرتے ہوں گے۔ یہ بھی قدرتی بات ہے کہ خوشامد پسند حکمرانوں کو خوشامد اور چاپلوسی اندھا کر دیتی ہے اور انہیں مخلص اور غیر مخلص کی پہچان نہیں رہتی کیونکہ وہ خلوص کو بھی خوشامد کی کسوٹی پر پرکھنے لگتے ہیں۔ ان جذباتی لمحات اور خوشامدی ’’نغمات‘‘ میں حکمران بھول جاتے ہیں کہ ابھی چند برس قبل کیا ہوا؟ اس سے پہلے جب وہ حکمران تھے تو ان کے حواری اسی طرح وفاداری کے ترانے گاتے اور ’’ملکہ جذبات‘‘ بن کر انہیں مست رکھتے تھے لیکن جب اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا تو اگلے دن لاہور کا مال روڈ (شاہراہ قائداعظم) خیر مقدمی بینرز سے سجا ہوا تھا۔ میاں صاحب کے بقول ’’وہ کہتے تھے قدم بڑھائو نوازشریف۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب میں نے قدم بڑھایا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تووہاں کوئی بھی نہیں تھا۔‘‘ میاں صاحب بھول گئے کہ وہاں ایک بے چہرہ شخص کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں یہ بینر لہرا رہا تھا کہ ’’یہ مقام عبرت ہے‘‘۔ لیکن سچ یہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ وہ گھاٹے کے سودے کرتا ہے اور ہرگز عبرت نہیں پکڑتا۔ سچ تو یہ ہے کہ نہال ہاشمی ذرا عقیدت و وفاداری کے نشے میں کچھ زیادہ ہی بہک گیا ورنہ میاں صاحب کے وزراء، سیاسی حواری اور وفاداری کی دوڑ میں بازی لے جانے والے خوشامدی ہر روز اسی طرح کے بیانات دیتے ٹی وی کی اسکرینوں پر نظر آتے ہیں۔ کچھ تو ماشاء اللہ ایسے فنکار ہیں کہ کل تک اسی طرح کی وفاداری اور عقیدت کے نغمے، دعوے، اور دھمکیاں مشرف کی محبت سے مجبور بلکہ چور ہو کر دیتے تھے۔ یہ پیشہ ور لوگ وفاداری بشرط استواری کے زندہ شاہکار ہیں اور انہی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شورش کاشمیری مرحوم نے لکھا تھا؎
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
گہرائی میں اترنے کی ضرورت نہیں۔ دراصل یہ سب نابالغ جمہوریت کی نشانیاں اور علامات ہیں۔ جمہوریت بالغ ہو تو پرسینلٹی کلٹ Personality cult کی بجائے ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ جب ادارے اور نظام مضبوط ہو تو برداشت، حوصلے، محاسبے، قومی خدمت و ایثار وغیرہ کا کلچر پروان چڑھتا ہے لیکن اگر نابالغ لیڈر نظام کی بجائے اپنی پرستش کا بت کھڑا کردیں تو لامحالہ عدم برداشت، انتقام، اندھی وفاداری اور دربار داری کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔ بظاہر حالات مائنس ٹو (Minus Two) کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں جس پر پی پی پی لڈیاں ڈال رہی ہے کہ ’’سنجیاںہون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘ لیکن آپ دیکھیں گے کہ ایسا نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔ چٹ پٹی خبروں اور عدالتی و نیم عدالتی تبصروں سے دور رس نتائج نکالنا قبل از وقت ہے۔ فی الحال مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف نے مقابلے کا ’’بھانبڑ‘‘ جلا رکھا ہے لیکن یہ ماحول جولائی کے آخیر تک بدل جائے گا البتہ دونوں طرف سے جنگی ترانے جاری رہیں گے کیونکہ انتخابات قریب ہیں۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنی جماعت کو مضبوط بنانے کی بجائے قیادت کا بت تراشنے میں مصروف ہے اور اس کی وجوہ ایک کتاب کا موضوع اور مواد ہیں۔ رہی عدالت تو جج صاحبان کو وہ گولڈن اصول یاد رکھنا چاہئے کہ جج نہیں بلکہ اس کا فیصلہ بولتا ہے۔ عدالتیں ’’بادشاہان جذبات‘‘ کے الفاظ کی تپش سے متاثر ہونے کی بجائے فیصلوں کے ذریعے بولیں تاکہ محاذ آرائی کا تاثر جنم نہ لے۔ کہیں تو جذبات کی بجائے بصیرت غالب نظرآئے.....!!



.
تازہ ترین