• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکر الحمد للہ پاکستان میں مطلوب احتسابی عمل کا آغاز بالآخر ہو گیا۔ یہ ہونا ہی تھا۔ ایک اسلامی جمہوریہ میں یہ ریاستی نظام کا لازمہ ہے، جیسے اس کا فلاحی ہونا یعنی عوام الناس کی بنیادی ضررویات اور بنیادی حقوق کا ضامن بننا۔ اسٹیٹس کو کی شکل میں ہمارے ہی چوٹی کے ریاستی ذمہ داروں نے جو بگاڑ پیدا کیا، وہ پاکستان کو تباہی سے دوچار نہیں کر سکا نہ پاکستان کسی خون آشام انقلاب کے ذریعے کوئی نئی راہ لینے والا ملک ہے۔ دولخت ہونے کے بعد پاکستان کے ایٹمی ہونے نے ثابت کر دیا کہ یہ ملک کسی اور ہی انجانی سائنس پر چل رہا ہے۔ آج فوجی اور سول حکومتوں کے ہاتھوں آئین کو بار بار لپیٹنے اور قانون کی مسلسل دھجیاں اڑانے کے بعد بھی پاکستان بغیر کسی خونی انقلاب، پر انتشار و انارکی کی یا بڑی عوامی تحریک کے بغیر اپنے قائم و دائم رہنے کی ہی سائنس پر راہ راست پر ایسے آ رہا ہے، حالانکہ عوام دشمن اسٹیٹس کو اپنی انتہا پر ہے۔ اتنا یہ کہ یہ تشکیل دینے والے کھلنڈرے، کرپٹ، انتہا کے غیر ذمہ دار اور بنیادی عوامی ضروریات و حقوق کے خائن حکمرانوں کا یہ یقین پختہ ہو چکا ہے کہ یہ مملکت جیسے ان کے بزرگوں کی کوئی جاگیر ہے جسے وہ اپنے بینی فشری حواریوں کی معاونت سے جیسا چلانا چاہیں چلے گا۔انہیں آخر یہ یقین کیوں نہ ہوتا کہ اس مملکت میں یہ کر دکھایا تھا کہ ’’بڑے خاندانوں‘‘ کے فیملی ڈاکٹر، فیملی ٹیلراور خانسامے ہی نہیں ہوتے، ’’فیملی جج‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ جس سے جس کو چاہئے جتنی سزا دلوا لو یا اپنے کو سنگین ترین الزامات سے کلیئر بھی۔ آخراس اسلامی جمہوریہ میں قول بد کے عام ہو جانے کا کون ذمہ دار تھا؟ کہ وکیل کیا کرنا سیدھا سیدھا جج ہی کر لو۔
کیا آج بھی نچلی سطح پر تھانہ کچہری کلچر میں اس کا اطلاق بد نہیں رہا؟ یہ ہماری تاریخ عدلیہ کا سیاہ دھبا نہیں؟ کہ 70ء کے عشرے میں باقی ماندہ پاکستان 1973ء کہ متفقہ دستور کی منظوری منجانب منتخب اسمبلی صاحب آئین ہوا اور اسلامی جمہوریہ کہلایا، اس کے اطلاق کے بعد ہی سانگھڑ کے اچھی شہرت والے ایک سیشن جج کو’’غلط ضمانت‘‘ لینے پر ہتھکڑی لگا دی گئی تھی۔ اس کہانی سے لیکر آخری جرنیل حکمران پرویز مشرف نے اپنے قلم کی صرف ایک جنبش سے سینکڑوں وائٹ کالر کرائمز کرمنلز کو ایک این آر او کی لانڈری میں ڈال کر دھویا نہیں؟ اور تو اور جج صاحبان کو ہی گھروں میں نظر بند کر دیا۔ لیکن تب جب وکلاء کی بحالی آزاد عدلیہ کی تحریک میں قوم بیدار ہو کر بار کی تحفظ عدلیہ کی تحریک کو عوامی بنا چکی اور میڈیا وکلاء کو تقسیم کرنے کے آخری حربے کو بے نقاب کرنے میں کامیاب رہا۔ سو تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور بالائی سطح پر عدلیہ اطمینان بخش درجے پر آزاد اور غیر جانبدار ہو گئی۔ آج تھانہ کچہری کلچر کے نظام بد کے مقابل و متوازی یہی آزاد و غیر جانبدار عدلیہ ابتدائی نتائج دینا شروع ہو گئی ہے۔ عدلیہ کے اس نئے چہرے اور تازہ ذہنی کی نمود جاری عشرہ جمہوریت ( 2008-18) کی پہلی حکومتی باری میں وزیر اعظم گیلانی کی اقتدار سے علیحدگی اور ان کے بچوں پر مقدمات قائم ہونے کی شکل میں واضح ہوئی کہ اسلامی جمہوریہ کا لازمی ٹاپ ٹو ڈائون احتساب کا عمل بلاآخر شروع ہو گیا، ہمت مرداں مدد خدا۔ تحریک بحالی عدلیہ میں خواتین نے تحریک میں شانہ بشانہ شریک ہو کر ثابت کیا کہ جرأت نسواں روایتی ہمت مرداں کی سطح پر آ سکتی ہے اور آتی ہے تو نتیجہ خیز ہوتی ہے۔
قوم کے کروڑوں بچوں کو تعلیم سے بدستور دور رکھنے والے اور کروڑہا ذہین و فطین نونہالوں کو کمسنی میں ہی تپتی سلگتی ورکشاپوں اور اینٹ کے بھٹوں میں جھونکنے والے حکمرانوں نے اپنے بچے بھی سچے نہیں رہنے دیئے۔ بڑا ظلم کیا کہ انہیں جہاد زندگانی سے جدا کر کے آسودگی کے سمندر میں غرق کر دیا حالانکہ ہمیں تو قرآن نے تعلیم دی کہ بچوں کے قاتل فرعون نے ایک ہی نومولود پر رحم کھا کر اور اس کے جینے کے حق کو تسلیم کیا تو بچہ موسیٰ بن گیا۔
پاکستان میں یہ ظلم عظیم عشروں سے جاری ہے کہ ہمارے حکمران اپنے ہی سچے بچوں سے تعلیم اور جہاد زندگانی کا حق چھینتے چلے آ رہے ہیں، اپنی ہی قوم کے بچوں کا حق جو ان کے بھی ہیں ہمارے بھی۔ اسٹیٹس کو کے حکمرانوں و سیاست دانوں کو عشرہ جمہوریت (2008-18) شروع ہونے سے تادم تجزیوں اور نیک مشوروں (جسے انہوں نے مخالفین کی بکواس جانا) میں یہ سمجھانے کی بھر پور کوشش کی گئی اور کی جا رہی ہے کہ وقت بیت گیا وہ اپنی مرضی سے ریاست چلا کر اسے جمہوریت تسلیم کرا لیں۔ وہ نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکتے تو انہیں آسان ترین زبان میں سمجھانے کی حتی المقدور کوشش جاری ہے کہ آئین کے کامل اور قانون کے یکساں اطلاق کے بغیر مطلوب (بمطابق آئین) جمہوری عمل شروع نہیں ہو گا لیکن وہ نہ سمجھ پائے۔ پاناما نے تو اسٹیٹس کو کو تشکیل دینے والوں کے پچھلے کرتوتوں کو ہی بے نقاب کیا ہے کہ ثابت ہوا ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اور ان کے بچوں پر حج اسکینڈل اور دوسرے مقدمات میں موجودہ حکمرانوں کو پورے طور نہیں سمجھایا؟ کہ ملک میں آزاد عدلیہ کی بدولت احتساب کا مطلوب عمل شروع ہو چکا، صورت حال دیکھ کبھی وہ مانتے ہیں کہ ہم احتساب کے لئے تیار ہیں اور کبھی حکمران ٹولہ گھبرا کر اس اہم ترین قومی لازمے (احتساب) کو ثبوتاژ کرنے پر اتر آتا ہے۔ ایوان بالا کا حکومتی رکن پاناما کیس کے حوالے سے کتنی نچلی سطح پر آیا ہے، اتنی کہ احتسابی عمل میں مصروف عمل ذمہ داروں کے بچوں کے درپے ہونے کی بڑھک لگاتا ہے۔ بزدل آج کی عدلیہ کی حقیقت کو جانتے ہوئے کٹہرے میں شرمندگی کا اظہار کرتا ہے اور ڈھیٹ باہر سینہ تانے مسکراتا ہوا کیمروں کے آگے فاتحانہ جیسچر کے ساتھ پھر اپنی اصلیت دکھاتا ہے۔ اللہ، جج صاحبان اور جے آئی ٹی کے ارکان کے بچوں کا حامی و ناصر ہے اور قوم کی تائید اور دعائیں ان کے شامل حال۔ حکمراں فیملی کے بچوں کے ساتھ پاناما تک جو ظلم اب تک ہوا، حقیقی انصاف کی فراہمی ہی ان کی آنکھیں کھولے گی ان کے لئے زندگی میں بہتر کیا ہے اور ان کی راہ راست کس سمت میں ہے۔ پاکستان کے قائم دائم رہنے اور بحرانوں سے نکل کر نئے مقام حاصل کرنے کی سائنس اتنی بھی پیچیدہ نہیں۔ یہ مملکت اس ماہ مقدس میں ایک بڑے مصور کے وسیع تصور، راست باز قیادت، پاور آف پین، سچے کلام و ابلاغ، دلیل و منطق اور عقل سلیم کے اعلیٰ ترین استعمال سے وجود میں آئی جس کی جڑوں میں ہمارے لاکھوں معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اور بزرگوں کی شہادت سے بہا خون ہے۔ لہٰذا عدلیہ ہی پاکستان میں آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ کی راہ نکالے گی اور میڈیا اس کا نتیجہ خیز معاون ثابت ہو گا۔ (انشا اللہ)



.
تازہ ترین