• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج آپ کی خدمت میں چند اہم معلومات پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ آپ ان کو پڑھ کر یقینا متعجب ہونگے اور پسند کرینگے۔
(1)آب زم زم ۔ ایک معجزہ۔
آب زم زم کا سراغ لگانے والے عالمی تحقیقی ادارے آب زم زم اور اس کے کنویں کی پراسراریت اور قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام ہو گئے۔ مکہ شہر کی زمین میں سینکڑوں فٹ گہرائی کے باوجود پانی موجود نہیں ہے۔ مزید نئے روشن پہلوئوں کے انکشافات سامنے آگئے۔تفصیلات کیمطابق عالمی تحقیقی ادارے کئی دہائیوں سے اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آب زم زم میں پائے جانے والے خواص کی کیا وجوہات ہیں اور ایک منٹ میں 720 لیٹر جبکہ ایک گھنٹے میں 43 ہزار 2 سو لیٹر پانی فراہم کرنے والے اس کنویں میں پانی کہاں سے آرہا ہے۔ جبکہ مکہ شہر کی زمین میں سینکڑوں فٹ گہرائی کے باوجود پانی موجود نہیں ہے۔ جاپانی تحقیقاتی ادارے ہیڈو انسٹیٹیوٹ نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ آب زم زم ایک قطرہ پانی میں شامل ہوجائے تو اس کے خواص بھی وہی ہوجاتے ہیں جو آب زم زم کے ہیں جبکہ زم زم کے ایک قطرے کا بلور دنیا کے کسی بھی خطے کے پانی میں پائے جانے والے بلور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ایک اور انکشاف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ری سائیکلنگ سے بھی زم زم کے خواص میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ آب زم زم میں معدنیات کے تناسب کا ملی گرام فی لیٹر جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ اس میں سوڈیم 133 ، کیلشیم96 ، پوٹاشیم43.3 ، بائی کاربونیٹ195.4 ، کلورائیڈ163.3 ،فلورائیڈ0.72 ، نائیٹریٹ124.8 اور سلفیٹ124 ملی گرام فی لیٹر موجود ہے۔ آب زم زم کے کنویں کی مکمل گہرائی 96 فٹ ہے اور اس کے چشموں سے کنویں کی تہہ تک کا فاصلہ 17 میٹر ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے تقریباً تمام کنوئوں میں کائی کا جم جانا، انواع و اقسام کی جڑی بوٹیوں اور خود رو پودوں کا اُگ آنا، نباتاتی یا حیاتاتی افزائش یا مختلف اقسام کے حشرات کا پیدا ہوجانا ایک عام سی بات ہے جس سے پانی کا رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے۔ اللہ کا کرشمہ ہے کہ اس کنویں میں نہ کائی جمتی ہے نہ نباتاتی و حیاتاتی افزائش ہوتی ہے نہ رنگ تبدیل ہوتا ہے اور نہ ذائقہ۔ سُبحان اللہ۔
1976 میں اپنےپروجیکٹ کا چارج لینے کے بعد میں اپنے چند رفقائے کار کے ساتھ جرمنی جاتے وقت سعودی عرب بھی چلا گیا۔ اس وقت مرحوم جنرل ضیا الحق نے سب سرکاری افسروں کی ہمت افزائی کی کہ جب وہ سرکاری دوروں پر جائیں تو عمرہ کرتے جائیں اگر کچھ تھوڑی سی رقم زیادہ لگے تو اپنی جیب سے دیدیں۔ ہم نے بھی اسی مہربانی سے فائدہ اُٹھایا۔ اس وقت ماربل بمشکل 25,20 فٹ خانہ کعبہ کے چاروں طرف تھا اور اندر سے خانہ کعبہ تک 4,3 فٹ چوڑی فٹ پاتھیں تھیں ان کے درمیان کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ یہ کنکریاں اکثر طواف کرنے والوں کے پیروں کے نیچے آجاتی تھیں اور بہت تکلیف دہ ہوتی تھیں۔ اس وقت لوگ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے زم زم کنوئیں کے پاس چلے جاتے تھے وہاں پمپ سے پانی اوپر لایا جاتا تھا اور لوگ نلوں سے نہاتے تھے۔ پانی بہت ضائع ہوتا تھا۔ مدینہ میں بھی زم زم نہیں ملتا تھا۔ بعد میں حکومت نے زم زم کنوئیں کے پاس جانے والا راستہ بند کردیا اور بڑے بڑے کولر میں زم زم پانی رکھنا شروع کردیا کہ لوگ پی سکیں۔ بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ حکومت نے بہت بہتر نظام کردیا۔ ماربل کو سفید رنگ میں تبدیل کردیا اور فرش کے نیچے ٹھنڈے پانی کے ٹیوب لگادئیے اور بڑے بڑے کنٹینروں سے مدینہ بھیجنا شروع کردیا۔ اب مسجد نبوی میں ہر جگہ کولر رکھے ہوتے ہیں اور ان میں ٹھنڈا آب زم زم ہوتا ہے اور تمام زائرین جی بھر کے پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے 25,20 مرتبہ عمرہ کرنے کی سعادت دی اور چار مرتبہ حج کرنے کی۔ میں اسلامی ڈیویلپمنٹ بنک کے سائنس گروپ کا ممبر تھااور جدّہ میں ہیڈ آفس میں میٹنگز ہوتی رہتی تھیں اور ہم عمرہ بھی کرتے تھے اور رسول ؐ کی خدمت میں سلام بھی پیش کرتے تھے۔ وہاں کے گورنر ہمیں ہمیشہ لنچ پر دعوت دیتے تھے۔ ابھی ماضی قریب میں حکومت نے جدّہ سے مکّہ اور وہاں سے مدینہ تک ٹرین چلا دی ہے جس سے بہت آرام ہوگیا ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے۔ اللہ پاک سعودی حکمرانوں اور اہلکاروں کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔
(2) دوسرا نہایت دلچسپ واقعہ جنرل ضیا الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کا ہے۔ ہندوستان نے اپنی فوجوں کی بڑی تعداد ہماری سرحدوں کے پاس جارحانہ انداز میں کھڑی کردی تھی۔ ہندوستان نے 18 مئی 1974 کو ایٹمی دھماکہ کرکے جارحانہ رَویّہ اختیار کرلیا تھا اور وہ 1971 کو دہرانا چاہتے تھے مگر اس کو علم نہیں تھا کہ میں نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے دفاع کی مکمل تیاری کرلی ہے۔ مندرجہ ذیل واقعہ جو راجیو گاندھی کے مشیر سیکورٹی بہرامنام نے بیان کیا ہے وہ سب کی آنکھیں کھولنے کو کافی ہے۔ اس واقعہ نے جنرل ضیاء الحق کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
سابق پاکستانی صدر ضیا الحق کے دور میں بھارت اپنی تمام فوجی طاقت سرحد پر لاچکا تھا جبکہ دوسری طرف سابق سوویت یونین (روس) کی فوجیں افغان مجاہدین سے افغانستان میں گتھم گتھا تھیں،پاکستان میں ہر آدمی یہی سمجھتا تھا کہ آج رات جنگ ہو جائے گی اور ہر روز سرحد کے قرب و جوار کے دیہات اور شہروں میں لوگ رات جاگ کر گزار دیتے۔ بھارتی فوج اپنے وزیر اعظم کے آرڈر کا انتظار کررہی تھی اورکسی بھی وقت پاکستان کیساتھ جنگ چھیڑ سکتی تھی۔ اسی دوران اچانک سابق صدر جنرل ضیا الحق میچ دیکھنے کے بہانے دہلی چلے گئے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے مشیر بہرامنام جس نے اس سارے واقعے کو بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے میں اپنے ایک کالم میں تحریر کیا ہے کے مطابق راجیو گاندھی پاکستانی صدر جنرل ضیا الحق سے ملنے پر تیار نہ تھا مگر ان کے استقبال کے لئے اسے ایئر پورٹ جانا پڑا جہاں اس نے پاکستانی سربراہ جنرل ضیا الحق سے مصافحہ بھی ٹھیک سے نہ کیا اور مجھے کہا کہ ’’ضیا الحق کے ساتھ میچ دیکھنے کو جائو‘‘۔ ضیا الحق بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے میں نے دیکھا کہ راجیو کے ناروا روئیے کے باوجود ضیاالحق کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو خدا حافظ کہتے وقت ضیاالحق نے کہا’’مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں بے شک کریں لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اس کے بعد لوگ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائیں گے اور ضیاالحق اور راجیو گاندی کو یاد رکھیں گے کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ یہ ایٹمی جنگ ہوگی۔ ممکنہ طور پر پورا پاکستان تباہ ہوجائے گا لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں زندہ رہیں گے کیونکہ بہت سے مسلمان ممالک ہیں لیکن یاد رکھنا ہندوستان صرف ایک ہے اور اگر میرے پاکستان لوٹنے سے پہلے آپ نے پاکستانی بارڈر سے فوج ہٹانے کے انڈین فوج کو آرڈر نہ دیئے تو پاکستان کی سرزمین پر جاکر میرے منہ سے جو سب سے پہلا لفظ نکلے گا وہ ہوگا ’’فائر‘‘۔ بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندی کے مشیر بہرامنام کے مطابق راجیو کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوچکے تھے اور میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ تھی۔ مجھے ضیا الحق دنیا کا سب سے خطرناک انسان نظر آیا، اس کا چہرہ پتھر کا لگ رہا تھا اور اس کے الفاظ میں دہشت تھی اور اس کی آنکھوں کو دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ یہ پورے برصغیر کو ایٹم بم سے راکھ کردے گا۔ میں دہل کر رہ گیا تھا، پلک جھپکتے ہی ضیاالحق کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اس نے کھڑے باقی لوگوں سے نہایت ہی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ میرے اور راجیو گاندھی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بظاہر ہلکے پھلکے خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ضیاالحق نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی سے کیا کہا ہے۔
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ ختم ہونے جا رہا ہے۔ یاد رکھیں کہ ہم پر نہ صرف نماز بلکہ روزے اور زکوٰۃ بھی فرض کئے گئے ہیں۔ اگر کسی مجبوری سے روزہ نہ رکھ سکیں تو دو مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ یاد رکھیں کہ حمد و ثنا اس رب کے لئے ہے جس کی رحمت، نعمت اور مغفرت کا فیضان کبھی نہیں رُکتا، دعا ہے کہ اللہ رب العزّت ہم سب کا دامن خوشیوں سے بھر دے، مایوسی کو اُمید اور تکلیف کو راحت میں اور زندگی کے اَندھیروں کو روشنی میں بدل دے۔ آمین، ثم آمین۔ آپ سب کو رمضان بہت بہت مُبارک ہو۔



.
تازہ ترین