• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایک بار پھر تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ’’ صحیح یا غلط ‘‘ اداروں سے تصادم اور ٹکراؤ چاہتی ہے ، جس کے نتیجے میں کوئی بڑا حادثہ پیش آئے اور وہ اس صورت حال سے نکل سکے ، جو پاناما کیس کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔ ویسے تو یہ حکومت جب سے آئی ہے ، بحران کا شکار رہی ہے اور یہ بحران اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے ۔ ماضی میں بھی جب کبھی اس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی ، اس نے اداروں کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرکے حالات کو دوسرا رخ دے دیا ۔ اس سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے دوسری طرح کی مشکلات پیدا ہوئیں بلکہ ملک ایک بڑے حادثے سے دوچار ہوا ۔ اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔اداروں کے تصادم میں کون جیتا ہے سب کو معلوم ہے۔
پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) جو بھی کام کر رہی ہے ، وہ سپریم کورٹ کے حکم پر کر رہی ہے ۔ جے آئی ٹی کے بارے میں جس طرح خبریںآ رہی ہیں ، وہ در حقیقت اعلیٰ عدلیہ کو متنازع بنانے کی کوشش ہے ۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے مستعفی سینیٹر نہال ہاشمی نے عدلیہ کے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے ، اس نے بھی عدلیہ اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض دیگر رہنما یہی باتیں دوسرے انداز میں کہہ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے صاحبزادے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو گئے ہیں ۔ یہ ایک اچھی بات ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنما اپنے بیانات میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شریف خاندان کو اس مہم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، جو پاکستان کی غیر سیاسی اشرافیہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک سیاست دانوں کیخلاف چلاتی رہی ہے ۔ حسین نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات زیادہ واضح انداز میں کر دی ہے ۔ حسین نواز کہتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے بعد اان کے اور ان کے خاندان کیساتھ ایسا ہو رہا ہے ۔ حسین نواز کے اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ عدلیہ ماضی کی عدلیہ کے راستے پر گامزن ہے لیکن حسین نواز یہ بات بھول گئے کہ حسین شہید سہروردی بنگالی تھے اور وہ بھی اس وقت اکیلے سیاستدان نہیں تھے ، جنہیں ماضی کی حکمراں اشرافیہ نے نام نہاد احتساب کا نشانہ بنایا ۔ حسین شہید سہروردی نے کبھی بھی اداروں سے تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ بھٹو شہید، بینظیر بھٹو اور آصف زرداری نے کڑی صعوبتیں برداشت کیں اور وہ تو نواز شریف کی حکمرانی کا دور تھا۔ اس بات پر بھی افسوس ہوتا ہے کہ آج میڈیا کے ہمارے کچھ دوست پاناما کیس جے آئی ٹی کو کسی نہ کسی حوالے سے اپنی خبروں اور مباحثوں میں لیکر آجاتے ہیں اور جے آئی ٹی کی غیر جانبدارانہ پوزیشن کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ حکومت اور عدلیہ کے مابین تصادم کا وہ ماحول بن رہا ہے ، جس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
عدالتوں پر جس طرح مختلف طریقوں سے حملے کئے جا رہے ہیں یا انہیں متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور قیادت مایوس ہے اور تصادم کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نظر نہیں آتا۔ اس مرتبہ صورت حال زیادہ گمبھیر بھی ہے ۔ پاناما کیس میاں محمد نواز شریف کی پولٹیکل ڈائے نیسٹی ( Political Dynasty ) کوخطرہ ہے ۔ پہلے بدترین حالات کے باوجود ایسا خطرہ نہیں تھا۔ اندرونی طور پر بھی حالات اچھے نہیں ہیں مہنگائی کا بڑھ ررہی ہے ایکسپورٹ کم ہو رہا ہے trade deficit بھی بڑھ گیا ہے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیل بھی کم ہو تی جا رہی ہے بے روزگاری بھی پہلے سے زیادہ ہے آبادی کا بڑھنا اور پچھلے ہفتے میں اسٹاک انڈیکس میں 4000پوائنٹس کی کمی۔ ایک طرف بیرونی سرحدوں پر بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کا سعودی اتحاد میں شامل ہونا ایران اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا۔ دوسری طرف علاقائی اور بین الاقوامی حالات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ۔ امریکہ کیلئے 1979 ء اور 2001 ءوالی صورت حال ہے ۔ اس خطے میں مہم جوئی کرنے کیلئے امریکہ پہلے پاکستان میں ضیاء الحق کو اقتدار میں لے آیا تھا اور پھر 2001ء میں اس نے ہمارے خطے میں حالات کو اپنے حق میں کرنے کیلئے سب سے پہلے پاکستان میں اپنی مرضی کا سسٹم رائج کیا اور پرویز مشرف کو عنان اقتدار سنبھالنے میں مدد کی ۔ اس وقت اگر میاں محمد نواز شریف اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار نہیں کرتے تو جنرل مشرف کیلئے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا آسان نہ ہوتا ۔ آج ایک بار پھر علاقائی اور عالمی سطح پر نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ خاص طور پر ہمارے خطے میں امریکہ کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے ۔ ڈیڑھ عشرے سے جاری تاریخ کی بدترین خونریزی کی وجہ سے نہ صرف اس خطے کی بڑی طاقتیں امریکہ کے خلاف ایک الگ بلاک بنا رہی ہیں بلکہ امریکی اتحادی بھی امریکہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور وہ یورپ ، آسٹریلیا ، لاطینی امریکہ میں بھی امریکہ مخالف صف بندیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔ یہی وقت ہے ، جب امریکہ 1979 ء اور 2001 ء کی طرح ہمارے خطے میں ہی کوئی بڑی اور خطرناک مہم جوئی کی تیاری کر رہا ہے ۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ بھٹو صاحب کوٹ لکھپت جیل میں موت کی کال کوٹھری میں اذیت کے دن گزار رہے تھے ۔ انہیں باہر کی دنیا کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی ۔ انہیں نہ تو اخبارات مہیا کئے جاتے تھے اور نہ ہی کسی سے ملاقات کرائی جاتی تھی ۔ کھانا یا پانی دینے کیلئے جو بھی جیل اہلکار ان کے پاس جاتا تھا ، وہ اس سے پوچھتے تھے کہ کیا روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا ہے اور کیا افغانستان میںداؤد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے ۔ یہ 1978ءکی بات ہے ۔ اپریل 1978 ء میں دادؤد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ۔ اس کے بعد بھٹو صاحب یہ سوال کرتے تھے کہ سوویت یونین کی افواج کا افغانستان میں مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ نے اپنی حکمت عملی کے مطابق کیا اقدامات کئے ہیں ۔ بھٹو صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ یہ سوال کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میری جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ضیا الحق کو لانے کی اسکیم کے منطقی نتائج یہی ہونا ہیں ۔ یہ امریکی منصوبہ تھا ۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے امریکہ نے پہلے پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی کیونکہ امریکی مفادات کی تکمیل پاکستان میں ضیاالحق جیسے حکمرانوں کے بغیر ممکن نہیں تھی ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ اور اپنے عہد کے حالات کا بہت گہرا ادراک تھا وہ پہلے سے ہی مستقبل کے واقعات کی درست پیش گوئی کرتے تھے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ قیادت کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے کس طرح بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت اور مفادات کی عالمی جنگ کا میدان بن جاتا ہے ۔ کسی تصادم کے نتیجے میں بدلتے ہوئے حالات میں خدشات بڑھ جائیں گے ۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے ۔
اس صورت حال سے بچنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پاس ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ قبل از وقت عام انتخابات کا انعقاد کرا دے لیکن اس آپشن پر اب عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ مردم شماری کے نتائج ابھی تک مرتب نہیں ہوئے ہیں ۔ یہ نتائج مرتب ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی ۔ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ۔ لہٰذا عام انتخابات کے قبل از وقت انعقاد کے آپشن پر فوری عمل درآمد ممکن نہیں ۔
پاکستان کے جمہوریت پسند اور محب وطن حلقوں کو اس صورت حال کا ادراک کرنا چاہئے اور اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ تصادم کے نتیجے میں ملک کسی حادثے کا شکار ہو اور ایک بار پھر عالمی مفادات کی جنگ میں جھونک دیا جائے ۔ اس صورتحال میںہم صرف یہ ہی کہ سکتے ہیں۔ بقول فیض
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں



.
تازہ ترین