• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تلخی ، تنائو ،بدمزگی جھگڑے تک پہنچتی ہوئی لگ رہی ہے ۔جب سے پانامہ لیکس کا کیس عدالت عظمی کی عمارت میں داخل ہوا ہے پوری قوم کی آنکھیں اُسی کے دروازے پر لگی ہیں اور حکومت کو بھی لگ رہا ہےکہ فیصلہ اُس کے حق میں نہیں آرہا۔سو حکومت پریشان ہے اور پریشانی سے نہال ہو کرایسے کام کرتی چلی جارہی ہے جس کی وجہ سے تلخی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ایک طرف سفید کا غذ پرحکومت جج صاحبان کے ریمارکس کوافسوسناک قرار دے رہی ہے تودوسری طرف سپریم کورٹ یہی کہہ رہی ہے کہ ہم دھمکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ۔
بیس اپریل کوجب پانامہ کیس کا پہلافیصلہ سنایا گیا تھا تو مٹھائی بانٹی گئی تھی کہ پانچ میں سے تین ججوں نے وزیر اعظم پاکستان کو نااہل قرار نہیں دیا بلکہ جے آئی ٹی سے تفتیش کرنے کے آرڈر جاری کئے ہیں مگر جیسے جے آئی ٹی نے کام شروع کیا وہ مٹھائی جیسے میٹھے جج کڑوے لگنے لگے ۔کونین کی گولیاں حلق سے اترنے لگیں ۔پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلہ کا آغا ز ماریوپوزو کے مشہور ناول گاڈ فادر کے اس جملے سے کیا تھاکہ ہر بڑی کامیابی کے پس منظر میں جرم پوشیدہ ہوتا ہے ۔(اس ناول کا اردو زبان میں رئوف کلاسرا نےبڑا خوبصورت ترجمہ کیا ہے )۔
حکومت مخالف پارٹیوں نے وزیراعظم کےلئے ’’گاڈ فادر ‘‘ کے لقب کو اچھالا۔خاص طور پر عمران خان نے۔ کیونکہ ان کا ایک عرصےسے شریف فیملی کے متعلق یہی خیال چلا آرہا ہے ۔حکومت نے اس لقب پر کوئی خاص ردعمل نہیں دیامگر اندر سے پیچ وتاب کھاتی رہی ۔پھر جب وزیراعظم کے صاحبزادگان کی مجرموں کی طرح تفتیش کی گئی توپیچ و تاب میں بڑی تیزی سے اضافہ ہواجو سابق سینیٹر نہال ہاشمی کی زبان سے لپکتے ہوئے شعلوں کی طرح برآمد ہوا ۔عدالت کے بارے میں وہ کچھ کہہ دیا گیا جو پاکستان میں کسی نے نہیں کہا تھا ۔ایک مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کچھ جج صاحبان کے خلاف بات کی تھی مگر وہ بھی ’’چمک ‘‘ کے لفظ سے آگے نہیں بڑھی تھیں ۔سینیٹر نہال ہاشمی پرسپریم کورٹ میں بلائی گئی سماعت کے دوران جج جسٹس عظمت سعید نے حکومت کےلئے ’’سسلین مافیا ‘‘کے لفظ استعمال کئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کے گاڈفادر کے لقب کے بعدجسٹس عظمت سعید کے مافیا کے خطاب نے معاملہ بہت گمبھیر کردیا ہے۔’’سسلین مافیا ‘‘ انیسویں صدی کے آخری حصہ میں سسلی میں جنم لینے والا ایک مافیا تھا۔ یہ اٹلی، برطانیہ ،جرمنی ،کینیڈا ،آسٹریلیا ،وینزویلا، ارجنٹینا، برازیل ،میکسیکواورجنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا تھا۔یہ مافیا دوسری مجرمانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ میں بھی بہت شہرت کا حامل تھا۔
حکومت کی طرف سے اسے ججز کے کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی کہا گیا ہے۔پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے بھی کہا ہے کہ’’ بے شک شریف برداران مافیا ہیں مگرججز کو ایسے ریمارکس نہیں دینے چاہئیں‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کیا ہے جس کی وجہ سے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار مختلف شکلوں میں ہورہا ہے ۔سننے میں آیا ہے کہ وہ تیرہ سوال سپریم کورٹ نے طے کئے تھے کہ’’گلف اسٹیل مل کیسے وجود میں آئی؟۔کیوں فروخت کی گئی ؟۔اس کے واجبات کا کیا ہوا؟۔بیچنے پرحاصل ہونے والی رقم کہاں استعمال کی گئی ؟۔ وہ رقم جدہ، قطر اور پھر برطانیہ کیسے منتقل ہوئی؟۔کیا نوے کی دہائی کے اوائل میں حسن اور حسین نواز شریف اپنی کم عمری کے باوجود اس قابل تھے کہ وہ فلیٹس خریدتے یا ان کے مالک بنتے؟۔کیا حماد بن جاسم الثانی قطری کے خطوط حقیقت ہیں یا فسانہ؟۔ شیئرز فلیٹس میں کس طرح تبدیل ہوئے؟۔
نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیوں کے اصل مالک کون ہیں؟۔ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ نامی کمپنی کیسے وجود میں آئی؟۔حسن نواز شریف کی زیر ملکیت فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے لیے رقم کہاں سے آئی؟۔ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟،حسین نواز شریف نے اپنے والد میاں محمد نواز شریف کو جو کروڑوں روپے تحفتاً دئیے وہ رقم کہاں سے آئی ؟‘‘۔
جے آئی ٹی ان سوالوں تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ کچھ اورسوال بھی پوچھ رہی ہے جن کا بظاہر ان سوالات سے کوئی تعلق نہیں ۔خاص طور پر حکومت کے خیال میں اسحاق ڈار کے حلفیہ بیان کا ان سوالوں سے کوئی واسطہ نہیں ۔جب کہ جے آئی ٹی کے ارکان کا یہ خیال ہے کہ ان سوالات کے اصلی جوابات وہی ہیں جو اسحاق ڈار اپنے حلفیہ بیان میں بہت عرصہ پہلے دے چکے ہیں ۔یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ اِس جے آئی ٹی میں وہ شخص بھی موجود ہے جس نے اسحاق ڈار سے وہ حلفیہ بیان لیا تھا۔اسی سلسلے میں جے آئی ٹی کے دو ارکان برطانیہ سے اپنی تحقیقات مکمل کرکے واپس پہنچ چکے ہیں ۔آج حسین نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے چوتھی پیشی ہے۔اس کے بعد اسحاق ڈار نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ایک مسئلہ وٹس ایپ کی وساطت سے کی جانے والی کالوں کا بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے سرکاری فون کیوں نہیں استعمال کیا اور مخصوص نام جے آئی ٹی کےلئے بھجوانے کا کیوں کہا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت جے آئی ٹی کو متنازع بنانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ۔کیا اس جے آئی ٹی کے فیصلے کو حکومت تسلیم کرے گی یا نہیں ۔بہر حال یہ سوال ہر طرف سلگ رہا ہے کہ کیا اداروں میں تصادم ہونے والا ہے ۔
وزیر اعظم نواز شریف کی ایک بار پہلے بھی عدلیہ کے ساتھ لڑائی ہو چکی ہے ۔اُس لڑائی میں نواز شریف جیت گئے اب دیکھتے ہیں اِ س مرتبہ کیا ہوتا ہے ۔لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر ان تینوں ججوں میں سے کسی ایک نے بھی وزیر اعظم کی ناہلی کا فیصلہ دے دیا تو وہ نااہل ہوجائیں گے کیونکہ دو جج پہلے فیصلہ دے چکے ہیں ۔یعنی وہ جمہوریت جس کا نام نواز شریف ہے اس کے خلاف ہونے والی سازش کامیاب ہوجائے گی۔



.
تازہ ترین