• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں گزشتہ چار سال سے جاری سیاسی محاذآرائی قانونی جنگ میں تبدیل ہو کرعدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں میں اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو چارکہانیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں جو چار مردوں کے بارے میں ہیں اس لئے ہم انہیں ’’چار مرد چار کہانیاں‘‘ کاعنوان دے سکتے ہیں۔
پہلی کہانی
یہ کہانی آئین پاکستان کو پامال کر کے آٹھ سال دس ماہ اور چھ دن تک ملک پر حکمرانی کرنے والے پرویز مشرف کے گرد گھومتی ہے۔ وہ عام انتخابات سے قبل 24 مارچ 2013 ءکو پاکستان پہنچتے ہیں تو بے نظیر بھٹو قتل، اعلی عدلیہ کے ججز کی نظر بندی،،عبدالرشید غازی قتل اور نواب اکبڑ بگٹی قتل سمیت چار مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہوتے ہیں۔ پاکستان آمد کے بعد ان کے خلاف آئین شکنی کے جرم میں سنگین غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا جاتا ہے۔ تمام مقدمات میں ان پر فرد جرم عائد ہوتی ہے۔ چک شہزاد میں واقع ان کا عالیشان فارم ہاؤس سب جیل قرار پاتا ہے۔ تین سال ایڈیشنل سیشن جج سے لیکر انسداد دہشتگردی اور خصوصی عدالت تک پرویز مشرف ملکی نظام کی بے بسی سے کھیلتے ہیں۔عدالتوں کی باربار طلبی کے باوجود وہ کسی جج کے سامنے پیش ہونے کو اپنی توہین گرادنتے ہیں۔ گھر بیٹھے ضمانتیں حاصل کرتے ہیں اور جب اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہوتی ہے تو ریاستی اداروں کی طرف سے بھرپور پروٹوکول میں پہلے اپنی رہائش گاہ اور پھر ادارہ امراض قلب پہنچ جاتے ہیں۔ حکومتی ادارے اپنے مسلزدکھانے کی کوشش کرتے ہیں توملزم پرویز مشرف کی تیمارداری کیلئے بھجوائے گئے پھولوں کا ایک گلدستہ ہی حکومت کے سارے کس بل نکال دیتا ہے۔ کوئٹہ کی خصوصی عدالت اکبر بگٹی قتل کیس میں پیشی کے بغیرہی با عزت بری کر دیتی ہے۔ دیگر تین مقدمات میں عدم پیشی پہ انہیں اشتہاری قراردے دیا جاتا ہے جبکہ سنگین غداری کیس میں ٹھوس ضمانتوں پر پرویز مشرف کو ایک بار خصوصی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے جسکے بعد یہی اشتہاری کراچی میں بیٹھ کر کبھی پارٹی میٹنگز کرتے تو کبھی انٹرویو دیتے ہیں۔ عارضہ قلب اور کمر درد سمیت سات بیماریوں کا میڈیکل سرٹیفکیٹ دیکر 18مارچ 2016 ءکودبئی سدھار جاتے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں خصوصی عدالت بھی انہیں اشتہاری قرار دے کر اپنا فرض پورا کر دیتی ہے۔ موصوف آج کل کبھی کسی ٹی وی اسکرین پرقانون کی بالا دستی کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔
دوسری کہانی
دوسری کہانی کے کردار پاکستانی نژاد کینڈین شہری ڈاکٹرطاہر القادری ہیں جو ٹھنڈی فضا میں بیٹھ کر پاکستانی عوام کے غم میں گھلتے ہیں تو انقلاب لانے کیلئے جون 2014 میں تپتے ہوئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے انقلاب کی پیش بندی کیلئے پنجاب پولیس ماڈل ٹاون میں ان کے طاقت کے مرکز تحریک منہاج القرآن کے ہیڈ آفس کے گرد قائم رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کرتی ہے تو جھڑپوں میں پاکستان عوامی تحریک کے 14 جانثاران انقلاب کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کارکنوں کے خون کو انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں اور یوم آزادی پر لاہور سے اسلام آباد تک انقلاب مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ کارکنان سخت گرمی اورحبس میں قائد انقلاب کے ائیر کنڈیشنڈ اور تمام سہولتوں سے آراستہ کیبن والے کنٹینر کے پیچھے چلتے صعوبتیں اور سختیاں برداشت کرتے آبپارہ چوک اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں۔ علامہ ہر روز اپنے خطاب میں پیروکاروں کو گلے سڑے نظام سے نجات کی نوید سناتے ہیں اور بلاخر انقلاب کے پروانے تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جاپہنچتے ہیں۔
انقلاب تو نہیں آتا تاہم وہ اور ان کے درجنوں کارکنوں کے خلاف ایس ایس پی آپریشنز پر تشدد اور کار سرکار پر مداخلت کا مقدمہ قائم ہو جاتا ہے۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نامزد ملزم ڈاکٹر طاہر القادری کو بار بارطلب کرتی ہے تاہم وہ پیش نہیں ہوتے۔ انکے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں لیکن پولیس تعمیل کرنے سے قاصر رہتی ہے جس پر ان کو اشتہاری قرار دیدیا جاتا ہے۔ وہ آج کل بیرون ممالک میں بلا امتیازانصاف اورمساوات پر لیکچردینے میں مصروف ہیں۔
تیسری کہانی
اس کہانی کے کردارتحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کے تحت احتجاج شروع کرتے ہیں،چار حلقے کھولنے کا مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر آزادی مارچ کا اعلان کر دیتے ہیں اور وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے126 دن دھرنا دے کر ریڈ زون کو یرغمال بناتے ہیں۔ کارکنوں کو سول نا فرمانی پر اکساتے ہیں،حراست میں لئے گئے کارکنوں کو پولیس پر دھاوا بول کر چھڑا لیتے ہیں،طاہر القادری کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر امپائر کی انگلی کھڑی کرانے کیلئے پورا زور لگاتے ہیں جس میں تشدد کارنگ بھی غالب آ جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کیخلاف بھی ایس ایس پی آپریشنز کو زدو کوب کرنے اور کارسرکار میں مداخت کا مقدمہ درج ہوتاہے۔ تین سال میں انسداد دہشت گردی کی عدالت بارہا طلب کرتی ہے لیکن وہ ایک بار بھی پیش نہیں ہوتے،ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں لیکن پولیس کی کیا مجال جو گرفتار کرنا تو دور کی بات عدالتی حکم کی تعمیل کیلئے بنی گالہ کا رخ بھی کر سکے۔ مجبورا اے ٹی سی انہیں اشتہاری قرار دیکر 6 جولائی کوگواہان کوطلب کر لیتی ہے۔ انکے خلاف الیکشن کمیشن میں نا اہلی کی پٹیشن دائر ہوتی ہے لیکن وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے،ان کی عدم حاضری میں فیصلہ ان کے حق میں سنا دیا جاتا ہے۔ پارٹی فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن سے آنکھ مچولی کھیلی جاتی ہے، پیش ہونا تو دور کی بات جواب تک جمع نہیں کرایا جاتا۔ توہین کے مقدمے میں بھی معافی مانگنے کی بجائے چھپن چھپائی کھیلی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ میں آف شور کمپنی سے متعلق مقدمے میں بھی احتساب کاسامنا کرنے کی بجائے تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ انصاف کے علمبردار کپتان آج کل عدالتوں کے احترام کے بھاشن دے رہے ہیں۔
چوتھی کہانی
اس کہانی کے مرکزی کردار وزیر اعظم نواز شریف پاناما پیپرز میں صاحبزادوں کا نام سامنے آنے پر خود کوہرطرح کے احتساب کیلئے پیش کرنے کا اعلان کرتے ہیں تاہم تحقیقاتی کمیشن کے ٹی اوآرز میں احتساب وزیر اعظم سے شروع کرنے کے اپوزیشن کے مطالبے پر ہامی نہیں بھرتے۔ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لیتی ہے تاہم پھرعدالت عظمی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے جیسے تاخیری حربے استعمال نہیں کرتے۔ تمام ریکارڈ پیش کرنے کے دعوئوں کے برعکس جب قطری خط کے ذریعے منی ٹریل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو جے آئی ٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم کے صاحبزادے نان ریذیڈنٹ ہونے کے باجود بیرون ملک سے آ کر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ جے آئی ٹی انہیں بار بار طلب کرتی ہے وہ باربار پیش ہوتے ہیں۔ وہ سات ،سات گھنٹے تک اس جے آئی ٹی کے ارکان کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ کی واٹس اپ کال سامنے آنے کے بعد شک کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ یہی جے آئی ٹی نیشنل بنک کے صدر اور وزیر اعظم کے صاحبزادے کو ایک ہی وقت یعنی صبح نو بجے طلب کرتی ہے اور حسین نواز کو ڈھائی گھنٹے انتظار کرایا جاتا ہے۔اس دوران ایمبولینس کو طلب کر کے طرح طرح کی افواہیں بھی پھیلائی جاتی ہیں جبکہ جے آئی ٹی کی کارروائی کو لیک بھی کیا جاتا ہے۔ اس کہانی کے کردار وزیر اعظم پاکستان کو اپنے خلاف پاناما پیپرز کے مقدمے کی سماعت کے دوران گاڈ فادر جیسے ریمارکس سننے کوملتے ہیں اور جب نہال ہاشمی جیسا سیاسی کارکن قائد سے وفاداری کا دم بھرتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے تو اسی وزیر اعظم کو اپنی حکومت کیلئے ’’سسلین مافیا‘‘ کا جملہ بھی سہنا پڑتا ہے۔
قارئین چار مرد چار کہانیاں ہمارے معاشرے کا وہ آئینہ ہیں جن میں ہم اپنے نظام کا عکس بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔



.
تازہ ترین