• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمراں پارٹی نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، ایک طرف جلسوں کا اہتمام تو دوسری طرف منصوبوں کے افتتاح اور آئے روز پورے پورے صفحات کے اشتہارات شائع ہورہے ہیں جن میں چاربرسوں کی کارکردگی کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ ان اشتہارات میں دعوے کئےگئے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انفراسٹر کچر اور توانائی کے شعبوں میں تاریخی سرمایہ کاری ہوئی ، 180ارب روپے کا ایکسپورٹ پیکیج دیا گیا ، صحت عامہ اور نوجوانوں کیلئے وزیراعظم کے خصوصی پروگرام سی پیک کے ذریعے 50ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ، اسٹاک مارکیٹ 50ہزار پوائنٹس سے اوپر چلی گئی جبکہ ملک کی دس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ شرح نمو 5.3فیصد سے زیادہ ہوگئی ، صنعتیں لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ، مردم شماری کا انعقاد ، نیلم جہلم ، لواری ٹنل ، اسلام آباد ایئر پورٹ سمیت سرد خانے میں پڑے کئی دیگر منصوبوں پر ازسرنو عمل درآمد ، کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے انقلابی منصوبے اور امن بحالی سے مقامی سطح پر سیاحت میں تاریخی اضافہ اور پھر کئی سالوں میں پہلی بار افراط زر کی شرح میں 4فیصد نمایاں کمی اور ڈوبتی معیشت تبدیل ہوکر ایمرجنگ اکانومی اس حکومت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پچھلے دنوں پنجاب میںدوسرے بین الاقوامی بزنس سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں دنیا کے 26 ممالک سے 4سو سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔ اس موقع پر پنجاب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے 60سے زائد معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط کئےگئے۔ اس سے پہلے نومبر 2015ء میں بھی لاہور میں بین الاقوامی بزنس سیمینار منعقد ہوا تھا جس میں معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر ستخط کئےگئے ۔ حکومت پنجاب کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں لاکھوں معاہدے اور یادداشتوں پرد ستخط ہوتے رہے مگر عملدرآمد آٹے میں نمک کے برابر رہا لیکن اب جو عمل درآمد ہورہا ہے اس سے واشنگٹن سے ٹوکیو اور دہلی سے ماسکو تک پوری دنیا حیران ہے۔ ایسے دعوئوں کے بعد حکومت کا کریڈٹ توبنتا ہے ۔ آپ کے نظریاتی اختلافات جتنے بھی ہوں مگر جب ملک کی ترقی اور خوشحالی کی بات ہوتی ہے تو پھر دل کھول کر ہی داد دینی چاہئے ۔ زیر تحریر کالم میں خصوصی طور پر ساہیوال کول پاور پروجیکٹ کاذکر کرنا ہے ۔ جس 1320میگا واٹ کے کول پروجیکٹ کاسنگ بنیاد 30مئی 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف نے رکھا تھااور اب 22مئی 2017ء کو افتتاح کیا ، یکم جون سے 13سو 20میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوگئی ہے۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ سی پیک کے تحت پاکستان میں مکمل ہونے والا پہلا منصوبہ ہے اور دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا منصوبہ ہے جس نے 22 ماہ میں بجلی کی پیداوار شروع کر دی ہے جو ایک عالمی ریکارڈ ہے ۔ خود چین میں ایسا منصوبہ 27ماہ میں مکمل ہوا تھا۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جس میں سو فیصد سرمایہ کاری چین کی ہے جو 30سال بعد یہ پلانٹ پاکستان کے حوالے کردے گا ۔ ساہیوال کول پاورپروجیکٹ کو پہلے ہی قومی گرڈ سے منسلک کیا جا چکا ہے ، منصوبے سے سالانہ 9ارب کلو واٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے ۔ اس پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 8روپے فی یونٹ پڑے گی ۔
وزیراعظم نے اس منصوبہ کی تکمیل پر شہباز شریف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ تیز رفتار ترقی کے اصل ہیرو ہیں۔یہ منصوبہ بلاشبہ وطن عزیز کے اندھیروں کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔ اس منصوبے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ماحول دوست ہے کیونکہ اس میں سپر کرٹیکل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو اس منصوبے کا جہاں کریڈٹ لینا ہے وہاں اس حوالے سے پیدا ہونے والے مختلف سوالات کے جواب بھی دینے ہیں کیونکہ جب تک یہ جوابات سامنے نہیں آتے ایسے دیگر منصوبوں کی کریڈیبلٹی متاثر ہوگی۔ ساہیوال کول پاور پلانٹ سے 1320میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کیلئے روزانہ 12ہزار ٹن سے زیادہ کوئلہ جلایا جائے گا۔ عوام کا خیال تو یہی تھا کہ تھر میں کوئلے کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن عوام کیلئے یہ بہت حیران کن خبر ہے کہ سالانہ 4.48ملین ٹن کوئلہ انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ سے امپورٹ کیا جائے گا اور کراچی سی پورٹ سے ساہیوال پاور پلانٹ تک لانے کیلئے ریلوے کی ویگنوں کو استعمال کیا جائے گا۔ جس کیلئے امریکہ کی ایک الیکٹرک کمپنی سے 50کروڑ روپے فی انجن کے حساب سے 48انجن خریدے گئے ہیں۔ سپلائی کے لئے ریلوے کی خصوصی ویگنوں کی امریکہ اور چین سے خریداری پر اب تک 27ارب 97کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب انرجی کے متبادل ذرائع موجود ہیں تو پھر کوئلے سے بجلی کیوں پیدا کی جارہی ہے کیونکہ دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے پاور پروجیکٹس بند کئے جارہے ہیں تاکہ ان پلانٹس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے نقصان کو کم کیا جاسکے ۔ ساہیوال کول پاور پلانٹ زرخیز زرعی زمین پر لگایا گیا ہے جس کے بنجر ہونے کا خدشہ ہے ، پھر اس سے خارج ہونے والے کاربن سے لوگوں میں بیماریاں بڑھیں گی۔ ساہیوال کا درجہ حرارت بہت بڑھ جائیگا ۔ درختوں اور فصلوں کی پیداوار پر بھی بڑے منفی اثرات پڑینگے ۔ اسی لئے محکمہ ماحولیات پنجاب کی طرف سے ابھی تک آپریشنل کرنے کیلئے این او سی جاری نہیں کیا گیا بلکہ 1997ء کے ماحولیاتی ایکٹ کے تحت تعمیراتی کمپنی پلانٹ کے اردگرد 30 ہزار پودے لگانا تھے مگر دس ہزار بھی نہیں لگائے گئے اور پلانٹ کو آپریشنل کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کاتو یہاں تک کہنا ہے کہ کوئلے سے پیدا کردہ توانائی ایک مردہ صنعت ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں ، امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 2015ء کے دوران امریکہ میں94کول پاور پلانٹ بند ہوئے جن کی پیداواری صلاحیت 13ہزار 556میگا واٹ تھی ۔ اسی طرح 2016ء میں 41پلانٹس بند کئے گئے جن کی پیداواری صلاحیت 5ہزار 326میگاواٹ تھی۔ ڈنمارک نے 1997ء میں نئے کول پاور پلانٹس کی تعمیر پر پابندی عائد کر دی تھی ۔ کینیڈا کی ریاست اونٹاریو نے 2014ء میں اپنے تمام 19کول پاور پلانٹس بند کرکے کاربن فری ریاست کا درجہ حاصل کیا ہے۔ چین خود کول سے چلنے والے انرجی پلانٹس بند کر رہا ہے ۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ وہی استعمال شدہ مشینری پاکستان منتقل کی جارہی ہے اور جس وقت یہ پلانٹ 30سال بعد پاکستان کے حوالے کیا جائے گا وہ اس قابل بھی نہیں ہوگا کہ اس سے بجلی پیدا کی جاسکے ۔ اسلئے مستقبل کے اتنے روشن انتظامات پر کریڈٹ تو وزیراعلیٰ کا بنتا ہے خواہ بجلی کا بحران حل نہ ہو ۔مگر حکومتی اشتہارات میں بالکل سچ کہا گیا ہے کہ سوچ نواز کی اور جوش شہباز کا !



.
تازہ ترین