• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست سیاسی چالوں کا نام ہے اور سیاسی چالیں وقت کے تقاضوں کے مطابق چلی جاتی ہیں۔ گھاگ سیاستدان جب محسوس کرتے ہیں کہ وہ پھنس رہے ہیں تو وہ سیاست کی ڈور کو اتنا الجھا دیتے ہیں کہ سارا معاملہ ہی مشکوک نظر آنے لگتا ہے اور دھاگے کی ڈور کا سرا غائب ہوجاتا ہے۔ ہماری سیاست آج کل الجھائی جارہی ہے اور اسے مزید الجھانے کے لئے چالیں چلی جارہی ہیں۔ چالیں چلنے والے ہاتھ غیر مرئی ہوتے ہیں، نظر نہیں آتے بس وہ وقتاً فوقتاً’’لیکس‘‘ (Leaks)کرکے شکوک و شبہات کی آگ کوتیز کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگ مزید کنفیوژن کا شکار ہوں، حقائق پس پردہ چلے جائیں، ہمدردی کا عمل اپنا رنگ دکھانا شروع کرے اور سیاسی منظر نامہ اس مصرعے کی تصویر بن جائے۔ مصرع کہے’’ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ کبھی کبھی یہ سیاسی چالیں اس قدر کامیاب ہوجاتی ہیں کہ ملزموں یا مجرموں کے چہروں پر معصومیت نظر آنے لگتی ہے،ہر دیکھنے والی آنکھ ان کی معصومیت سے متاثر ہو کر ان پر الزام لگانے والوں کو مطعون کرنے لگتی ہے۔ میں نے کئی دہائیوں کی سیاست کو قریب سے دیکھا ہے اور اپنی گنہگار آنکھوں کے سامنے مجرموں کو معصوم اور معصوموں کو مجرم بنتے دیکھا ہے۔یہ سب سیاسی چالوں کا کمال ہوتا ہے۔
البتہ اس کاایک پہلو خطرناک اور سبق آموز ہے۔ وہ یہ کہ کبھی کبھی سیاسی چالیں الٹی ہوجاتی ہیں اور چلنے والے ہی کے گلے پڑجاتی ہیں۔ اس حوالے سے میرا مشاہدہ کچھ اس قسم کا ہے کہ یہاں مقدر اور قسمت کے کردار بڑے ا ہم ہوتے ہیں۔ مقدر میں سرخرو ہونا لکھا ہو تو ہر چال کامیاب ہوجاتی ہے ورنہ’’پوٹھی‘‘یعنی الٹی اپنے گلے پڑجاتی ہے۔ جن دنوں میں مسلم لیگ کا دور حکومت(1947-54)پر دن رات تحقیق کررہا تھا، مواد اکٹھا کررہا تھا، سیاستدانوں کو انٹرویو کررہا تھا ان دنوں مجھے اندازہ ہوا کہ ممتاز دولتانہ مرحوم کی وزارت اعلیٰ پنجاب کے دوران جو اینٹی احمدیہ موومنٹ چلائی گئی تھی اس میں پنجاب کے حکمرانوں کا ہاتھ کار فرما تھا۔حتیٰ کہ حکمرانوں کے کچھ کارندوں، حواریوں اور شر انگیزوں کے کارنامے اس قدر نمایاں ہوگئے تھے کہ ان کا ذکر سبز رپورٹ میں بھی ملتا ہے۔ گیم کیا تھی؟ مقصد یا ہدف کیا تھا؟ کہنے والے بتاتے تھے کہ ممتاز دولتانہ مرکز میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی جگہ لینا چاہتے تھے یعنی وزیر اعظم بننا چاہتے تھے،چنانچہ اینٹی احمدیہ موومنٹ شروع ہوئی تو انہوں نے چپکے چپکے سے جلتی پر تیل ڈالا اور تحریک کا رخ مرکز کی جانب موڑ دیا۔ مقصد مرکزی حکومت کو غیر مستحکم کرکے وزارت عظمیٰ حاصل کرنا تھا لیکن چال الٹی ہوگئی، ایجی ٹیشن کنٹرول سے باہر ہوگئی لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑا، فوج آگئی، کچھ قتل و غارت ہوئی اور سارا ملبہ میاں ممتاز دولتانہ پر آن گرا۔
1958میں مارشل لاء لگانے کے بعدا سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف ایوب خان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے چال چلی، چال الٹ ہوگئی اورا سکندر مرزا کو جلا وطن ہونا پڑا۔ درجنوں مثالیں ہیں کہ سیاست کی ڈور کو کس طرح سلجھایا جاتا ہے اور جب ضرورت پڑے تو کس طرح الجھایا جاتا ہے۔
پاناما کیس کا فیصلہ آیا تو دو ججوں نے فیصلہ خلاف اور تین نے مزید انکوائری کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی بنی تاکہ ہر الزام کی تہہ تک پہنچا جاسکے اور ثبوت اکٹھے کئے جاسکیں۔ جے آئی ٹی کے چند اراکین پر اعتراضات ہوئے، سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، اگر سپریم کورٹ ان اعتراضات میں وزن محسوس کرتی تو ان اراکین کو تبدیل کردیتی لیکن عدالت نے ان اعتراضات کو اعتراض برائے اعتراض سمجھا اور اپیل مسترد کردی۔ اسی مقام سے جے آئی ٹی مشکوک بنانے اور ا س سے انصاف کی توقع نہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس احساس محرومی کو’’وٹس ایپ‘‘ والی خبر نے دوآتشہ بھی کردیا اور شکوک و شبہات کے سائے مزید گہرے کردئیے حالانکہ اگر کامن سینس سے کام لیا جائے تو عدالت کے فرمان کے بعد مٹی کو بیٹھ جانا چاہئے تھا۔ جب وٹس ایپ کے ذریعے نام مانگنے کا مسئلہ عدالت کے سامنے آیا تو عدالت نے واضح طور پر کہا کہ رجسٹرار ہماری ہدایات کے مطابق کام کررہا تھا اور اس ایشو کو خواہ مخواہ ہوا نہ دی جائے۔ سادہ سا سوال ہے کہ جب جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنانی تھی تو ظاہر ہے کہ اس کے لئے کورٹ نے انہی افسران کو منتخب کرنا تھا جنہیں عدالت قابل اعتماد سمجھتی ہے۔ جب چند سرکاری اداروں نے ایسے نام بھجوائے جوعدالت کے لئے قابل قبول نہیں تھے تو اس فہرست کو مسترد کردیا گیا اور گریڈ 18سے اوپر تمام افسران کے نام مانگ لئے گئے۔ انتخاب تو بہرحال عدالت نے کرنا تھا، اگر دو تین محکموں سے عدالت نے اپنے خیال کے مطابق قابل اعتماد نام مانگ لئے تو یہ عدالت کا اختیار تھا۔ جب سپریم کورٹ نے یہ واضح کردیا کہ رجسٹرار ان کی ہدایات کے مطابق کارروائی کررہا تھا تو معاملہ ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن پھر ایک سرکاری ادارے کی مدد سے یا خط لکھوا کر جے آئی ٹی پر شکوک کا ملبہ ڈالنا اور اعتراضات کو اچھالنا سیاسی گیم کا حصہ ہیں۔ معصوم حسین نواز کی جے آئی ٹی میں آمد، انتظار اور اب سر نیچے کئے کرسی پر پریشان حال بیٹھے حافظ قرآن حسین نواز کی تصویر نے میڈیا پر ظاہر ہوتے ہی شام غریباں کا سماں باندھ دیا ہے۔ یہ تصویر اندر سے کس نے لیک کی اور کیسے سوشل میڈیا کی راہوں سے ہوتے ہوئے اخبارات کے صفحات پر پہنچی، قابل تفتیش معاملہ ہے اور سیاسی گیم ہی کا حصہ ہے۔ جے آئی ٹی کا کوئی رکن یہ حرکت کر نہیں سکتا۔ اندر آنے کی اجازت صرف مخصوص حضرات کو ہے، البتہ ایسی ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جو کمروں میں ہونے والی گفتگو سن سکتی ہے اور مدہم سی تصویر بھی لے سکتی ہے۔ یہ بہرحال شرارت ہے جس کا عدلیہ کو نوٹس لے کر انکوائری کروانی چاہئے لیکن آخر انکوائریاں کتنی اور کس کس کی کروائی جائیں کیونکہ لگتا ہے کہ جون اور جولائی میں بہت کچھ سامنے آئے گا اور شاید اپنے ساتھ انکشافات لائے گا۔ فی الحال آپ سیاسی چالوں اور سیاست کی ڈور کر الجھتے ہوئے دیکھتے رہیں۔
اور ہاں جوں جوں سیاست پر کنفیوژن کے سائے پھیل رہے ہیں میرے دیرینہ مہربان اور سابق دوست شہباز شریف کے اشتہارات کی بارش میں تیزی آرہی ہے۔ وہ درد دل رکھتے ہیںلیکن اربوں روپے کے اشتہارات کی رقم غربت و جہالت مٹانے پر صرف کرنا جائز نہیں سمجھتے۔لوگ صاف پانی کو ترس رہے ہیں اور وہ اشتہارات سے لوگوں کی پیاس بجھانا چاہتے ہیں۔ ساہیوال کول پروجیکٹ کی کارکردگی پر انہوں نے قوم کو مبارک دی ہے لیکن اس بات پر افسوس کا اظہار نہیں کیا کہ بھکی پروجیکٹ، جس کا افتتاح وزیر اعظم صاحب نے ڈیڑھ ماہ قبل کیا تھا اور شہباز سپیڈ کے تذکرے کئے تھے وہ خراب ہوگیا ہے اور اس کی مرمت پر کروڑوں خرچ ہوں گے اور وقت بھی لگے گا۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل پر بھی کروڑوں روپوں کے اشتہارات برسائے گئے تھے۔ سچ ہے کہ سیاستدانوں کا دل پیسے اور پبلسٹی سے کبھی نہیں بھرتا۔



.
تازہ ترین