• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علم ابلاغیات (کمیونی کیشن سائنس) انسانی ابلاغ میں اس امر کی نشاندہی کرتا ہے (جس کی تصدیق ہر تحقیق ثابت کرتی ہے) کہ ابلاغی عمل (کمیونی کیشن پراسس) خواہ یہ انٹرپرسنل (ون ٹو ون) ہو، گروپ کمیونی کیشن یا ماس کمیونی کیشن(ابلاغ عامہ)یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ابلاغ کرنے والے ذریعے (خواہ فرد ہے یا میڈیا) کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ جو لکھ، کہہ اور دکھا رہا ہے، قاری یا قارئین، سامع یا سامعین، ناظر یا ناظرین کے ذہن میں اس کی وہی تصویر (Perception)بنے گی جو کہ خود ذریعہ ابلاغ (سورس آف کمیونی کیشن) کے ذہن میں ہے، جتنے فیصد ذریعے کا زاویہ نگاہ پڑھنے، سننے اور دیکھنے والے کا بھی بن جائے ذریعے کی ابلاغی عمل میں اتنی ہی کامیابی ہے، بالکل مختلف بنے تو مکمل اختلاف کی صورت بن جاتی ہے، ایسے میں کامیابی مکمل یا جزوی بھی مطلوب ہو تو اس کے دس طریقے لیکن ان سے شناسائی اپنی اپنی کیپسٹی کے مطابق ذرائع ہائے ابلاغ کی ہوتی ہے جن کی بالکل نہیں ہوتی، وہ ڈیزاسٹر میں چلے جاتے ہیں۔
پاکستان کے قومی اور سیاسی ابلاغی عمل میں یہ ڈیزاسٹر حالیہ مہینوں میں سر چڑھ کر بولے ہیں کہ ابلاغ سے کام چلانا ہے ( جو ہے بھی ناگزیر) تو ابلاغی پیچیدگی کو سمجھو۔سو، ڈان لیکس، لیکس پر قائم کمیشن کی رپورٹ پر حکومتی نوٹیفیکیشن اور آئی ایس پی آر کارسپانس، ڈان لیکس2، سپریم کورٹ، (کمیشن) میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران احاطہ عدالت سے باہر ن لیگ اور پی ٹی آئی کا متوازی تندوتیز سیاسی ابلاغ اور میڈیا میں زیر بحث موضوع پر ٹاک شوز سب پاکستان میں قومی سطح کا (ایک مخصوص موضوع، پاناما کیس پر) پیچیدہ ترین ابلاغی عمل ثابت ہوا، جس میں حکومت کے معاون ذرائع ابلاغ ڈیزاسٹر میں چلے گئے۔
حکمران خاندان آئین و قانون کے شکنجے میں آ گیا، بلاوجہ حکومت نواز ابلاغ سے کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل کرنے والے وفا کے چار پیکر بھی ’’قربان‘‘ ہو گئے۔قربانی کے نتائج تو بہت بابرکت ہوتے ہیں لیکن کل ابلاغی عمل میں حکومتی ونگ مسلسل ڈیزاسٹر سے دوچار ہے، اور اب تو نہال ہاشمی نے جیسے حکومتی ابلاغی عمل کو ڈیزاسٹر میں نہلا دیا۔ دوسری جانب حکمرانوں کے مسلسل درپے عمران خان نے پاناما پر اپنے مسلسل سیاسی ابلاغ میں چھوٹے موٹے ڈیزاسٹر کرتے ہوئے پاناما پر ابلاغ مسلسل کی بنیاد پر اصل ہدف حکمران خاندان کو سپرد عدلیہ کرنے کا عظیم ہدف حاصل کر لیا اور اپنے سیاسی ابلاغ کی بڑی پیچیدگیوں کا کفارہ ادا کر دیا۔مان لینا چاہئے کہ برسوں کی تگ ودو کے بعد پی پی آئی کو اسٹیٹس کو کی مکمل موجودگی میں ملک کی تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی بنانے کے بعد یہ خان اعظم کی دوسری بڑی سیاسی کامیابی ہے جو انہوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے ڈیزاسٹر بھرا سیاسی ابلاغ کرتے ہوئے فقط ایک سا ل میں حاصل کی۔
علم ابلاغیات کا طالب علم ہونے کے ناتے خاکسار اپنے حکمرانوں، اپوزیشن، میڈیا، رائے سازوں اور قومی سطح پر وقتاً فوقتاً ابلاغ عامہ کرنے والے ریاستی اداروں کو ملین ڈالر ٹپ (برائے پاکستان ) فری پیش کرتا ہے کہ جہاں ابلاغی عمل بنیادی طور پر ایک پیچیدہ عمل ہے، اور ڈیزاسٹر اس کی ایک بڑی پروڈکٹ ہے وہاں یہ ہی ابلاغ سو بیماریوں کا فقط تنہا علاج ہے۔ رمیڈی ( علاج) بمقابلہ ڈیزاسٹر علم ابلاغیات کے دلچسپ موضوعات میں سے ایک ہے۔واضح رہے کہ انسانیت پر ایٹم بم کے عملی تجربے کے بعد کرہ ارض پر انٹر کانٹی نیٹل میزائلوں اور ایک سے بڑھ کر ایک مہلک اور وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے ڈھیر لگ جانے کے باوجود یہ انسانیت کو انسانی ہی ابلاغ سے ملنے والی رمیڈی تھی جس نے سائیکلو جیکل وارفیئر (جدید پروپیگنڈہ)جو ابلاغ عامہ کی ایک جہت ہے، کی قوت سے تیسری عالمگیر جنگ کے بار بار امڈتے بادلوں کے باوجود اس کے امکانات کو کم تر کر دیا کہ اسلحہ ساز طاقتوں کے ابلاغ سے پیدا ہونے والا ’’طاقت یا خوف کے توازن‘‘ کا یقین سرد جنگ میں تبدیل ہو گیا اس نظریاتی جنگ سے بڑی طاقتوں کی بھڑاس نکلتی رہی یوں مہلک اسلحے کا استعمال رکا رہا لیکن یاد رکھا جائے کہ سرد جنگ میں انتہائی منظم شکل میں استعمال ہونے والا اسلحہ مختلف النوع میڈیا تھا، یا ڈپلومیسی کی شکل میں انٹرپرسنل کمیونیکیشن جس طرح کئی حوالوں خصوصاً ذرائع ابلاغ کے حوالے سے تحقیقی عمل بار بار یہ ثابت کر رہا ہے کہ ابلاغی عمل پیچیدہ ترین ہے، وہیں تحقیق ابلاغی عمل سے مبرامطلوب انقلاب آفریں تبدیلیوں کی نشاندہی بھی ہو رہی ہے۔
علم ابلاغیات کا مصدقہ اصول ہے کہ ابلاغ عام میں ایک ہی ’’پیغام‘‘پیغام وصول کرنے والوں (عوام الناس) کے ذہن میں مختلف زاویہ ہائے نگاہ (Perception)بناتا ہے۔ ’’شیر‘‘ کا فقط ایک لفظ سن کر کسی کے ذہن میں بہادری، کسی میں طاقت کسی ذہن کی جنگل کی بادشاہت، یا وحشی درندےجبکہ بچے کے ذہن میں چڑیا گھر اور سرکس کے شیر کی تصویر بنے گی۔بین الاقوامی سطح اور سیاست میں ایک ہی شخص دہشت گرد، ہیرو، حریت پسند، شدت پسند اور ظالم و مظلوم کے طور پر Perceive کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سینکڑوں ارب روپے کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو اسٹیٹس کو بنانے والے اور اسی پر چلنے والے غرباء کا ریلیف پروگرام سمجھتے ہیں پلس بڑا ووٹ بینک، لیکن اس کے مقابل عوامی سطح پر ایک بڑی رائے یہ حکومتی سرپرستی میں قومی سطح کا بھیک تقسیم کا منظم پروگرام اور غرباء کو غریب رکھنے کا سیاسی حربہ ہے۔
حکمرانوں کے نزدیک کچھ میگاپروجیکٹس کسی حد تک مطلوب اور کچھ سرے سے Unwantedاور Undemanded پروجیکٹس (جیسے میٹرو بس اور اورنج ٹرین) ’’ترقی ‘‘ ہیں، اس کے مقابل عوام شدت سے مطلوب کمیونٹی انفراسٹرکچر ، پختہ گلیاں ،کوڑا تلفی کا انتظام، چلتی نالیاں،ا سٹریٹ لائٹس ، پارک، کمیونٹی سنٹر وغیرہ ) خالص خوراک ،پینے کے قابل پانی کی فراہمی کو ’’ترقی‘‘ جانتے ہیں ان کے نزدیک حکمران جسے ’’ترقی ‘‘ کہہ رہے ہیں، وہ یا تو ترجیحاً بہت دور ہے یا یہ شک کہ مختصر ترین وقت میں زیادہ سے زیادہ کرپشن کا بڑا ذریعہ۔
بات پاناما سے چلی تھی تو پاناما پر ختم کرتے ہیں ۔ حکمران خاندان نے جب خود کو قانون کے حوالے کرنے اور عدالتی فیصلوں کے احترام کا ابلاغ کیا یقین کریں ان کا عوام میں اچھا امیج بنا اب جبکہ وہ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے اور جے آئی ٹی سے تعاون کا وسیع ابلاغ کر چکے ہیں اور کر بھی رہے ہیں، اسی سے اپنے حق میں بہتری پیدا کریں متوازی منفی ابلاغ اس کے لئے مہلک ہو گا۔ ہاں ، انہوں نے عمران خان پر آئین و قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرکے صرف پروپیگنڈہ ہی نہیں ،عمل کرتے ہوئے، انہیں عدالت میں بھی پہنچا دیا ہے، وہ باشعور عوام کے لئے قابل قبول بھی ہے اور حکمران ونگ کی طرف سے اس کا طریقے سلیقے سے ابلاغ بھی کسی حد تک بیلنس کرنے کا تاثر دیتا ہے جو اس کی کامیابی ہے حکمران خصوصاً حکمران خاندان اور ان کے ابلاغی معاونین مان لیں کہ انہوں نے پاناما میں اس حد تک منفی ابلاغ کیا ہے کہ پوری قوم کے نزدیک بہت محترم سمجھے جانے والے جج صاحبان کے نزدیک جواباً ریمارکس قدرتی بھی ہیں اور ان کے وقار کے تحفظ کا تقاضا بھی ،حکومت سیاسی ہے جو سب کچھ عوام کو ہی جانتی ہے،وہ یہ بھی جانیں کے عوام الناس کی سطح پر پاناما کیس سے منسلک جج صاحبان اور تفتیشی عملے کا قومی سطح پر احترام کا درجہ بہت بلندی پر چلا گیا ہے۔ باقی حکمران سوشل میڈیا سے اپنے خلاف پروپیگنڈے کو اہمیت نہ دیں تو اس کا جواب دیں۔ اسکی قانونی حیثیت ہے نہ بنیادی کریڈبیلٹی ،وماعلینا الاالبلاغ



.
تازہ ترین