• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے سوشل میڈیا پر مہیا کی گئی معلومات پر کبھی یقین نہیں کیا کیونکہ اس بے لگام میڈیا کی نذر لوگ وہ کچھ کر دیتے ہیں جس کا وجود تک نہیں ہوتا۔ مثلاً وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کے بارے میں ان دنوں بہت کچھ سوشل میڈیا کی گردش کا حصہ بنا ہوا ہے۔ یہ کام کچھ عرصہ پہلے بھی ہوا تھا۔ پہلے پہل انہیں سینیٹر مشاہد اللہ خان کی صاحبزادی ظاہر کیا گیا، اس جھوٹ کا شکار کچھ عامل صحافی بھی ہو گئے، انہوں نے بھی اپنے پروگراموں میں وہی کہا جو سوشل میڈیا بول رہا تھا۔ یہ صریحاً جھوٹ تھا۔ مریم اورنگزیب ہمیشہ مشاہد اللہ خان کو انکل کہتی ہیں، ایک پارٹی میں ہونے کے سبب ان کا آپس میں میل جول ہے پھر دونوں ایک ہی شہر راولپنڈی کے رہنے والے ہیں۔ اس زور دار مہم کا جواب دینے کی بجائے مریم اورنگزیب چپ رہیں۔ اب ایک تازہ وار ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب پر کیا گیا ہے، کہانی گھڑنے والے نے کیا خوب کہانی گھڑی ہے۔ جو لوگ مریم اورنگزیب کے خاندان سے واقف نہیں ہیں، وہ اس من گھڑت کہانی کو سچ سمجھ بیٹھیں گے۔ ایسی جھوٹی کہانیاں گھڑنا سراسر زیادتی ہے۔ میں خود اس خاندان کو جانتا ہوں۔ مریم اورنگزیب کی والدہ اور خالہ دونوں سے میرے اتنے قریبی مراسم ہیں کہ انہیں اکثر نک نیم سے بلاتا ہوں۔ برسوں پر محیط تعلقات میں مجھے کم از کم کوئی ایسی بات نہیں ملتی جسے کہانی کی زینت بنایا گیا ہے۔ طاہرہ اورنگزیب اور نجمہ حمید دونوں بہنیں ستر کی دہائی کے آخر میں سیاسی طور پر متحرک ہوئیں۔ دونوں عملی سیاست میں بلدیاتی سیاست کے ذریعے داخل ہوئیں۔ نجمہ حمید 1985ء میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کی رکن بنیں، انہیں صوبائی وزارت بھی ملی۔ میرے پیارے مرحوم دوست اختر وریو بھی اسی دور میں صوبائی وزیر تھے۔ مشرف کا آمرانہ دور دونوں بہنوں نے جدوجہد میں گزرا۔ نجمہ حمید مسلم لیگ ن پنجاب کی صدر تھیں جبکہ طاہرہ اورنگزیب راولپنڈی شہر کی صدر تھیں۔ جب نواز شریف اٹک جیل میں تھے تو بیگم کلثوم نواز اکثر نجمہ حمید کے گھر آیا کرتی تھیں۔ اگر ماضی کے دریچوں میں جھانکا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں بہنوں کا تعلق ملتان سے ہے۔ ان کے والد سید محمد شاہ ملتان کے صنعتکار تھے۔ ان کی جننگ فیکٹری پورے جنوبی پنجاب میں مشہور تھی۔ وہ 1947ءسے پہلے ایک انگریز کی فیکٹری میں جنرل منیجر تھے۔ یہ قصہ تھا مریم اورنگزیب کے نانا سید محمد شاہ کا، اگر ان کے والد راجہ اورنگزیب کے خاندان کو دیکھا جائے تو وہ بھی ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مریم اورنگزیب کے دادا راجہ کالاخان 1947ء میں مری راولپنڈی سے پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ ان کی دعوت پر قائد اعظمؒ مری تشریف لائے تھے۔ ایک بات یاد رہے کہ جب نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب بچپن میں اسکول کی طالبات تھیں تو گرمیوں کی چھٹیوں کے موقع پر ان کے والد انہیں مری شفٹ کر دیا کرتے تھے۔ رہی سیاست تو طاہرہ اورنگزیب پہلی مرتبہ رکن اسمبلی 2008ء میں بنیں۔ اس وقت بھی وہ قومی اسمبلی کی رکن ہیں جبکہ ان کی بہن نجمہ حمید سینیٹر ہیں۔ خود مریم اورنگزیب 2013ء کی اسمبلی میں رکن منتخب ہوئیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ ایک غیرملکی ادارے میں کام کرتی تھیں، وہ اس وقت بھی سیاست کی طرف مائل تھیں۔
قارئین کرام! آدھے سے زیادہ کالم تو سوشل میڈیا کے ایک جھوٹ کو درست کرنے میں لگ گیا ہے۔ اب آتے ہیں چند اندرونی اور کچھ بیرونی مناظر کی طرف۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کے اندر بہت کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔ بیرونی سیاست میں بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے صاحبزادے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو رہے ہیں، ان سطور کی اشاعت تک کچھ اور کردار بھی پیش ہو جائیں گے مگر یہ انوکھے ملزمان ہیں جو پروٹوکول میں آتے جاتے ہیں۔ سرکاری لشکر ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ملزموں کو ملزمان ہی کی طرح پیش ہونا چاہئے۔ میرے خیال میں ن لیگ پوری تحقیقات نہیں ہونے دے گی کیونکہ شریف خاندان کے پاس ثبوتوں کی کمی ہے لہٰذا جو لوگ پہلے فوج کے ہاتھوں شہادت کے طلبگار تھے اب وہ جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کر کے عدالت کے راستے سے سیاسی شہادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف جے آئی ٹی میں پیشیاں جاری ہیں تو دوسری طرف لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ چند روز پہلے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تحریک انصاف میں شامل ہوئی تھیں، پیپلز پارٹی کے چند اہم رہنما آج پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں گے، کچھ آنے والے دنوں میں ہوں گے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے کچھ ارکان بھی جلد تحریک انصاف کا حصہ بننے والے ہیں۔ اگرچہ یہ تیاریاں الیکشن کی ہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ الیکشن سے پہلے مکمل صفائی ہو گی۔ یہ صفائی تمام سیاسی پارٹیوں میں سے ہو گی۔ اس صفائی کے بعد ملکی سیاست کا نقشہ بالکل بدل جائے گا۔ آئندہ سیاست صاف اور شفاف لوگ ہی کر سکیں گے۔
ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست بھی تبدیل ہو رہی ہے مثلاًایک عرصے تک امریکہ کی تابعداری کرنے والے عرب ایک ساتھ نظر نہیں آ رہے۔ یورپ کی قیادت جرمنی کے پاس چلی گئی ہے، افغانستان میں امریکہ نواز حکمرانوں کے خلاف کھلے عام نعرے بازی ہو رہی ہے وہاں روس نواز عبداللہ عبداللہ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان، چین، روس، ترکی اور ایران میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں بیک چینل ڈپلومیسی کام کر رہی ہے۔ آئندہ عالمی سیاست کی صف بندی میں یہ پانچ ممالک ایک ہی صف میں نظر آئیں گے۔ بھارت نے جو کھیل اپنے آقا کے اشاروں پر شروع کیا تھا وہ بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ اس کی ناکامی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے مظلوم کشمیریوں کی حمایت صرف چین کیا کرتا تھا اب روس کی طرف سے بھی کشمیریوں کی حمایت شروع ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی قومی سلامتی میں ویٹو پاور کی حامل دو بڑی طاقتیں کشمیریوں کی حامی بن گئی ہیں۔ کشمیر میں جن لوگوں نے برسوں پہلے آزادی کی تحریک شروع کی تھی انہیں اب امید کے چراغ روشن نظر آ رہے ہیں ورنہ آج سے پہلے تو لوگ سرور ارمان کی زبان میں کہتے تھے کہ ؎
ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح
لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح



.
تازہ ترین