• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسے کہتے ہیں بات کا بتنگڑ بنانا یا رائی کا پہاڑ کھڑا کرنا۔ایک بے ضرر سادہ سی تصویر پر یہ ہائو ہو اور چیخ و پکار سمجھ سے باہر ہے جبکہ اکثریت تو اس پر بھی متفق ہے کہ یہ تصویر لیک کا کام( ن) لیگ کے کسی ہمدرد نے دکھایا ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں بٹوری جاسکیں جبکہ یہ اسے ہتک آمیز اور انتقام قرار دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک ان میں کچھ بھی درست نہیں، خوامخواہ سیکنڈ لائز کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔سب سے پہلے تو یہ کہ کیا اس تصویر کا لیک ہونا ڈان لیک سے زیادہ حساس ہے؟ دوسری بات یہ کہ اس تصویر میں توہین یا انتقام والی بات کون سی ہے؟ جس ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے لے کر تھانوں، کچہریوں اور ہسپتالوں میں بغیر الزام عام پاکستانیوں کی بدترین توہین و تذلیل معمول ہو، وہاں اس تصویر میں مجھے تو کوئی قابل اعتراض شے دکھائی نہیں دیتی۔ ایک بندہ ہے جو ایک ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں معقول سی نشست پر بیٹھا ہے، ساتھ اس کی فائلیں رکھی ہیں اور وہ تفتیش کے لئے اپنی باری کا انتظار کررہا ہے تو یہ ساری صورتحال افسوسناک ضرور ہے، توہین یا انتقام والی کوئی شے نہیں۔ کچھ وزن ہے تو اس میں کہ اسے دیکھ کر ہمدردی سی ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن وہ بھی کیا کہ معاشرہ بری طرح محبتوں اور نفرتوں میں منقسم ہوچکا اور میرٹ یا منطق نامی شے کب کی دفن ہوچکی۔رہ گیا یہ انتھک پروپیگنڈا کہ تاریخ رقم ہوگئی تو یہ انتہائی مضحکہ خیز قسم کا کلیم ہے کیونکہ یہ روٹین کی بات ہے۔ ابھی کل ہی تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس امتحان سے گزر کر نااہل قرار پائے تو اگر تب کوئی آسمان گرا نہ زمین پھٹی تو اب اس نوٹنکی کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے؟اگر مسلمانوں کے امیر صدیوں پہلے یہ پریکٹس دکھا چکے تو باقی کوئی کون سے باغ کی مولی یا کدو ہے؟اعتزاز احسن نے یہ کہتے ہوئے سچوئشن کو درست سمیٹا ہے کہ گھیرا تنگ ہوتے ہوئے دیکھ کر( ن) لیگ اداروں سے تصادم کرکے سیاسی شہید بننا چاہتی ہے۔ واقعی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ بھٹو کی طرح ان کے دماغ میں بھی یہ فتور راسخ ہوچکا کہ یہ’’بحرانوں کے بادشاہ ‘‘ ہیں اور ہر بحران انہیں توانا تر کر گزرتا ہے تو یہ نہیں جانتے کہ ہر شیر شاہ کا کوئی نہ کوئی کالنجر، ہرابراہیم لودھی کا پانی پت، ہر رانا سانگا کا سیکری اور ہر نپولیون بونا پارٹ کا واٹرلو ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہر ناقابل شکست بایزیدیلدرم کی زندگی میں کبھی کبھی کوئی تیمور فولادی دیوار بن کے آجاتا ہے۔ سپریم کورٹ پر دھاوے سے لے کر جلا وطنی تک’’سروائیو کر جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر بار تصادم کی ترکیب تیر بہدف نسخہ ثابت ہوگی اس لئے احتیاط و احتراز کا راستہ ہی بہتر ہوگا لیکن اگر ایف 16میں سوار ہو کر اڑتے تیر کا تعاقب ہی مقدر ہوچکا تو کون روک سکتا ہے؟ اور یوں بھی نہالوں کی صحبت میں بصیرت کا کیا کام؟حسین نواز کی تصویر سے کہیں زیادہ افسوسناک صورتحال کرکٹ نامی بیماری کی ہے جو ٹھیک ہو تو مصیبت نہ ہو تو قیامت۔ چمپئنز ٹرافی میں شکست سے پہلے دن رات شاہینوں کی شان میں قصیدے بولے، گائے اور لکھے جارہے تھے۔ انہیں خدا جانے کیا کچھ بناکے پیش کیا جارہا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا سے پرنٹ میڈیا تک۔ پوش ڈرائنگ رومز سے تھڑوں تک، پڑھے لکھوں سے ان پڑھوں تک ہر کوئی ہیجان میں مبتلا لیکن شکست کے بعد ہر کوئی’’ہیروز‘‘ کے لتے لے رہا ہے۔ مجھے کرکٹ سے رتی برابر کوئی دلچسپی نہیں، میری طرف سے لوگ انہیں آسمان پر چڑھائیں یا پاتال میں گرائیں، ان پر صدقے واری جائیں یا انہیں صدقے کے بکروں کی طرح ٹریٹ کریں، میری صحت پر ہر دو کا قطعاً کوئی اثر نہیں لیکن اس پنڈولم رویے پر شرم آتی ہے کہ شکست نہیں یہ رویہ شرمناک ہے کیونکہ نہ نارمل ہے نہ متوازن۔ جن شکستوں پر واقعی شرم آنی چاہئے، ان پر توجہ ہی کوئی نہیں دیتا اور جسے کھیل کا حصہ سمجھنا چاہئے، اس پر طوفان کھڑا کردیتے ہیں، لیکن شاید وہ وقت دور نہیں جب عوام ہر مرحلہ اور مقام پر صحیح معنوں میں غیور اور باشعور ہونے کا ثبوت دیں گے جس کی ایک خوبصورت قابل فخر مثال مہنگے پھلوں کے بائیکاٹ، کامیاب بائیکاٹ مہم کی صورت میں سامنے آئی ہے اور اب سوشل میڈیا پر مہنگے گوشت کے با ئیکاٹ کی مہم بھی شروع ہے۔عوام کو سلامان کے لئے بے پناہ خراج تحسین اور مبارکبادکہ یہی’’غیور‘‘ اور باشعور‘‘ ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔ میں اکثر لکھتا ہوں کہ پاکستانیوں کے’’ اجتماعی جسم‘‘ کے ہر مسام میں نیزے گڑے ہوئے ہیں اور عوام، عوام دشمنوںکی یلغار اور حصار میں ہیں تو لاتوں کے بھوت جو باتوں سے نہیں مانتے، منوانے اور انہیں سبق سکھانے کا یہی وہ طریقہ ہے جسے’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ کہتے ہیں۔حسین نوازوں کی تصویریں نہیں، یہ زنجیریں ہمارا مسئلہ ہیں جنہیں عوامی اجتماعی طاقت سے ہی توڑا جاسکتا ہے۔ بائیکاٹ مہم کی کامیابی اور پھلوں کی قیمتوں میں واضح کمی کا سنا تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔کبھی صبر کا پھل میٹھا ہوتا تھااب صبر کا پھل’’سستا‘‘ ہوتا ہےان سب کے لئے دعائیں ،محبتیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر یہ مہم شروع کی جس سے عوام کو اپنی ناقابل شکست طاقت کا احساس شروع ہوا اور اس سوچ کا بھی کہ عوام کا مسئلہ شہزادوں کی تصویریں نہیںمہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، غربت ہے، جہالت ہے، عدم انصاف اور عدم احتساب ہے۔

تازہ ترین