• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والٹن روڈ لاہور کے چوک پر ٹریفک سگنل لال تھا۔ ہم سگنل ہرا ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ دائیں طرف کی گاڑیاں چل رہی تھیں اور بائیں طرف کی گاڑیاں بھی ہماری طرح سگنل ہرا ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ اب اچانک بائیں جانب ہماری نظر پڑی تو ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ایک موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر ایک گوری چٹی لڑکی دائیں بائیں دونوں طرف ٹانگیں لٹکائے ایسے بیٹھی تھی جیسے مرد بیٹھتے ہیں۔ ہماری حیرت کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے بوڑھی عورتوں کو تو ایسے بیٹھے دیکھا تھا، لیکن کسی جوان عورت کو اس طرح بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ یوں تو ہم نے لاہور کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب لڑکیاں سائیکل چلاتی تھیں۔ اور سائیکل بنانے والی کمپنیاں عورتوں کے لئے وہ سائیکلیں بناتی تھیں جن کا ڈنڈا نیم دائرے یا ہلال کی شکل کا ہوتا تھا۔ لیکن اب تو وہ زمانے خیال و خواب ہو چکے ہیں۔ اب ہماری عورتیں موٹر سائیکل پر دونوں ٹانگیں ایک طرف کر کے بیٹھتی ہیں۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچھا... کیا واقعی زمانہ بدل رہا ہے؟ کہ بائیں جانب کا سگنل ہرا ہو گیا۔ اب وہ موٹر سائیکل ہمارے سامنے سے گزری اور ہماری حیرت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ موٹر سائیکل چلانے والا تو پہچانا نہیں جا سکا کہ اس نے ہیلمٹ سے اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا لیکن جسے ہم گوری چٹی پاکستانی لڑکی سمجھ رہے تھے وہ اچھی خاصی عمر کی چینی عورت تھی۔ اب ہمیں اپنے دوست ایرج مبارک کی بات کا یقین آیا کہ اب چینی باشندے ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ لاہور میں ہی ہر بڑے شاپنگ مال پر آپ کو چینی عورتیں اور مرد خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈیفنس جیسے علاقوں کی سڑکوں پر بھی ان سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ گلبرگ کی مین مارکیٹ میں انہوں نے دکانیں بھی کھول لی ہیں۔ ان کی عورتیں ان بازاروں میں گھڑیاں اور موبائل فون بیچتی نظر آتی ہیں۔ شیخوپورہ روڈ پر ان کی کئی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ اور تو اور بیدیاں روڈ پر انہوں نے ایک بہت وسیع و عریض فارم بنایا ہوا ہے جہاں دنیا بھر کے رنگ برنگے پھول اگائے جاتے ہیں۔ اور وہ پھول لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔ اب پھولوں پر ہمیں معروف ناول نگار امیتائو گھوش کا ناولSea of Smoke یاد آ گیا۔ اس ناول سے معلوم ہوتا ہے کہ آج دنیا بھر میں جتنے بھی قسم کے پھول پائے جاتے ہیں ان کی اکثریت چین سے لائی گئی ہے۔ یعنی چین ان سب کا خالق ہے۔ پچھلی سے پچھلی صدی میں انگریزوں کے بحری جہاز ہندوستان سے افیون لے کر چین جاتے تھے،اور وہاں سے رنگ برنگے پھولوں کے پودے یورپ لے کر آتے تھے۔
آج سے ساٹھ ستر سال پہلے ہم جن چینیوں کو جانتے تھے وہ یا تو دندان ساز ہوتے تھے، یا پھر جوتے بنانے والے ہوتے تھے۔ لیکن آج کا چینی پڑھا لکھا اور کھاتا پیتا سرمایہ دار چینی ہے۔ اور یہ جو چین کی اقتصادی راہداری ہے وہ صرف ہماری معاشی حالت میں تبدیلی کا ذریعہ ہی بنتی نظر نہیں آ رہی ہے بلکہ وہ ایک لحاظ سے تہذیبی اور ثقافتی تبدیلی کا بہت بڑا عامل بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اب تک ہمارے ہاں اقتصادی راہداری کے معاشی پہلو پر تو بہت بات کی گئی ہے، لیکن اس کے تہذیبی اور ثقافتی تناظر پر علمی لحاظ سے غور نہیں کیا گیا ہے۔ اب پہلی بار حلقہ ارباب فنون لطیفہ کے ماہانہ اجلاس میں رضوان عظیم نے اس موضوع پر مضمون پڑھ کر یہ کمی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ رضوان عظیم آرکی ٹیکٹ (ماہر تعمیرات) ہیں۔ اور نیر علی دادا، مسعود احمد اور غافر شہزاد وغیرہ کی طرح فن تعمیر کے ساتھ فنون لطیفہ کے دوسرے شعبوں، جیسے مصوری، موسیقی، ادب اور تاریخ سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے اس علاقے کی تہذیب کو، جسے ہم انڈس سولائزیشن یا سندھ تہذیب کہتے ہیں، اور جو سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا کے علاوہ ہندوستان کے گجرات اور کاٹھیا وار تک پھیلی ہوئی ہے، پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ یہ پانچ ادوار دراوڑ اور آریائوں سے ہوتے ہوئے، ایرانی، تورانی، یونانی اور انگریزی دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ رضوان عظیم انہیں چار دور کہتے ہیں۔ اور اب چین کی آمد کو وہ پانچواں دور مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں باہر سے آنے والے اپنے ساتھ اپنی تہذیب لے کر آئے۔ اور انہوں نے ہماری قدیم تہذیب کے ملاپ سے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ رضوان عظیم نے اپنے مضمون میں اس کی وضاحت تو نہیں کی لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کے تجزیے کی رو سے، اب چین ہمارے خطے میں اقتصادی ترقی کے ساتھ تہذیبی تبدیلی کے ایک نئے عامل کے طور پر بھی داخل ہو رہا ہے۔ چین کارخانے لگائے گا اور ہماری زمینیں بھی کاشت کرے گا۔ یقیناً اس مقصد کے لئے وہ اپنے ملک سے کارکن بھی لائے گا (جیسے وہ لا رہا ہے) لیکن وہ کارکن ان کاموں کے لئے کافی نہیں ہوں گے۔ اسے پاکستانی کارکنوں کی بہرحال ضرورت ہو گی۔ ہم جانتے ہیں کہ چینیوں کے کام کرنے کا کلچر ہم سے بالکل ہی مختلف ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے آپ کو چین جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ شیخو پورہ روڈ پر ان کارخانوں میں چلے جایئے جو چینیوں نے لگائے ہیں۔ وہاں دیکھ لیجئے کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں۔ اب جہاں تک ہماری زمینوں پر کام کر نے کا تعلق ہے اس کے لئے ہم تو کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ اپنے مہربان دوست مرحوم سوشلسٹ رہنما سید قسور گردیزی کے صاحب زادے سید زاہد حسین گردیزی یا قسور صاحب کے داماد سید حیدر عباس گردیزی سے ہی معلوم کر سکتے ہیں کہ ہماری زمینوں پر چینیوں کے آجانے سے ہمارا کاشت کاری کلچر تبدیل ہو گا یا نہیں؟ زاہد حسین اور حیدر عباس سیاسی طور پر ہی نہیں بلکہ زمیندارانہ طور پر بھی ترقی پسند خیالات رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اس بارے میں کاشت کاری کے جدید کلچر کو ہی سامنے نہیں رکھیں گے بلکہ اس کھیت مزدور کا بھی خیال رکھیں گے، جو یوں تو مشینوں کی آمد کے بعد پہلے ہی بے کار ہوتا جا رہا ہے، اب چینیوں کی آمد کے بعد اس کا کیا حال ہو گا؟ یہ سوال ان کے لئے ہی ہے۔
اب پھر آجایئے رضوان عظیم کے مضمون کی طرف۔ انہوں نے ہماری تہذیب کے جو پانچ دور بنائے ہیں وہ باہر سے آنے والے حملہ آوروں یا بیرونی سامراج کے لائے ہوئے دور ہیں لیکن یہاں ہم چین کی آمد کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ بعض لوگ تو چین کی آمد کو بھی ایک نئے سامراج کی آمد ہی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ہم اسے اس طرح بیرونی سامراج کی آمد نہیں کہہ سکتے۔ یہ صحیح ہے کہ اس اقتصادی راہداری میں چین کا ہاتھ ہی اوپر ہو گا کیونکہ بڑا سرمایہ اسی کا ہو گا لیکن اس میں ہمارا اپنا حصہ بھی تو ہو گا۔ اس لئے کہ ہم اس ترقی کے لئے چین سے نہایت ہی سستا قرضہ لے رہے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اس راہداری کے لئے چین کے ساتھ ہم نے جو معاہدے کئے ہیں ان کی ساری شرطیں ہمارے سامنے نہیں لائی گئی ہیں۔ ہماری قوم اس مطالبے میں حق بجانب ہے کہ یہ شرائط سب کے سامنے لائی جائیں۔ اس کے بعد ہی ہم وضاحت کے ساتھ کچھ کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال، ہم یہاں تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیوں کی بات کر رہے ہیں۔ انسانی تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے لین دین یا ملاپ سے ہمیشہ تہذیبی ارتقا ہی ہوا ہے۔ کوئی بھی تہذیب الگ تھلگ رہ کر پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ہم نے ایران، توران اور یونان یا یورپ سے تہذیبی لین دین کیا اور اس مقام پر پہنچے جہاں آج ہیں۔ اب چینی تہذیب سے لین دین کے بعد شاید ہم وہ معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں جہاں شدت پسندی اور دہشت گردی کا نام ونشان تک نہ ہو۔ اور وہ رواداری اور تکثیریت کا معاشرہ ہو۔ کہتے ہیں جب سب نوجوان کام سے لگ جائیں گے تو شدت پسندی کی طرف ان کی توجہ نہیں جائے گی۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔

تازہ ترین