• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب اب واقعی تاریخی حیثیت یوں اختیار کر گیا ہے کہ وہ عرب، اسلامک امریکن سمٹ میں قطر سمیت موجود تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کو یہ تلقین کر کے گئے کہ وہ متحد ہو کر ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کے خلاف جنگ کریں لیکن ان کے واشنگٹن پہنچنے پر نہ صرف یمن، لیبیا، سعودی عرب، مصر، یواے ای اور بحرین نے قطر سے سفارتی تعلقات توڑ لئے بلکہ کئی عشروں سے قائم خلیجی ریاستوں کا اشتراک (G.C.C)بھی ٹوٹ پھوٹ کی لپیٹ میں آ گیا۔ عملاً قطر کی تو سمندری اور زمینی ناکہ بندی بھی ہو جائے گی۔ دنیائے عرب کا موثر ترین میڈیا الجزیرہ بھی ان چار ممالک میں دیکھا نہ جا سکے گا۔ امریکی سینٹرل کمان کے دس ہزار سے زائد مسلح امریکی افواج اور جنگی جہاز و اسلحہ قطر سے کہاں منتقل ہو گا، انتہائی جدید ترین زیر زمین قائم امریکی مرکز جس کا افتتاح اور معائنہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کیا تھا، اس کا کیا بنے گا؟ اور ان چار ممالک کی جانب سے اس نوعیت کے اقدامات کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان کو سمجھنے اور جواز کو اپنانے میں دقت کا سامنا ہے۔ اگر خود عرب ممالک میں جن وجوہات کو جواز بنا کر عرب اتحاد کو توڑا گیا ہے تو پھر غیر عرب مسلم ممالک کو بھی ایسی ہی صورتحال کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ صدر ٹرمپ کے دورۂ ریاض کی کامیابی اور نتائج کی یہ رفتار رہی تو جلد ہی اس خطے میں عدم استحکام، کنفیوژن اور تصادم کا بہت بڑا زلزلہ آئے گا جو ٹرمپ کے دورہ کی کامیابی اور خطے میں بسنے والے انسانوں کیلئے تباہی و مشکلات کا باعث ہو گا۔ صدر ٹرمپ کا دورۂ ریاض تو ایک تا ڈیڑھ دن کا تھا مگر اس کے نتائج آنے والے کئی عشروں پر مرتب اسی طرح ہوں گے جس طرح صدر جمی کارٹر کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر برزنسکی نے 1979کے آخر میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ڈاکٹر زبگنیو برزنسکی نے 1979کے آخر میں پاک۔ افغان طورخم سرحد پر کھڑے ہو کر افغان مہاجرین اور مجاہدین (آج کے طالبان) کو افغان سرزمین کی طرف اشارہ کر کے جہاد کرنے اور اپنی مساجد اور اپنے گھر واپس لینے کی تلقین کرتے ہوئے ان کے جذبۂ اسلامی اور خدا کی مدد کا ذکر کر کے ان کے مذہبی جذبات کو ابھارا مگر یہ نہیں بتایا کہ امریکہ کا رول کیا ہو گا؟ برزنسکی کا یہ دورہ اور تقریر دونوں تاریخی تھے۔ سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کی جنگ کو جہاد قرار دے دیا گیا۔ حکمران ضیاء الحق نے بھی اسے جہاد ہی تسلیم کیا لیکن پھر 1979سے شروع ہونے والی اس جنگ سے ہم پاکستانی آج تک نجات حاصل نہیں کر سکے۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد ان مجاہدین کی حمایت سے امریکہ نے ہاتھ اٹھا لیا اور ایک طویل جنگ کے منفی اثرات و تباہی سمیت پاکستان کو بھی تنہا چھوڑ دیا بلکہ پابندیاں بھی لگائیں اور داخلی استحکام کو بھی نقصان پہنچایا۔ وقت کے تقاضے بدلے تو مجاہدین اب طالبان کہلائے اور جہاد بھی امریکہ کی نظر میں منفی حیثیت اختیار کر گیا۔ برزنسکی تقریر کے ذریعے جذبات ابھار کر چلے گئے اور چارلی ولسن اور سی آئی اے کے سربراہ ولیم کیسی نے امریکی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے کام کی نگرانی کی، رول اور معنیٰ بدل گئے لیکن ہم آج تک دہشت گردی، القاعدہ، طالبانائزیشن اور مسلسل تباہی کا شکار ہیں۔ مسلمان نسل دنیا کے ہر کونے میں پریشان بیٹھی برزنسکی کی حکمت عملی اور اپنے حکمرانوں کی بے شعوری کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ روز 89سال کی عمر میں برزنسکی فوت ہو گئے۔ وہ محب وطن امریکی تھے اور امریکی مفادات کے حصول کو بجا طور پر فوقیت دیتے تھے، مگر وہ مسلم دنیا کو جن مشکلات اور چیلنجز میں مبتلا کر گئے مسلم دنیا آج تک ان سے باہر نہیں نکل سکی۔ خود ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے اپنی سرزمین اور عوام کا جو سودا کیا لمحوں کی خطا سے صدیوں کی سزا کے دروازے ہم پر کھل گئے۔ ضیاء الحق، برزنسکی، ولیم کیسی اور کانگریس مین چارلی ولسن 1980کے آغاز میں جو فیصلے اور اقدامات کر کے پاکستان اور اس کے اردگرد صورتحال پیدا کر گئے آج صرف جنوبی ایشیا کا خطہ ہی نہیں بلکہ دنیا دہشت گردی کی صورت میں اس کی سزا بھگت رہی ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب نے مشرق وسطیٰ میں جس نئے مرحلے اور تقسیم در تقسیم کا آغاز کیا ہے اس کا ابتدائی نتیجہ ابھی سے خلیجی ریاستوں کے تعاون یعنی جی سی سی میں دراڑ کی صورت میں سامنے آ گیا ہے، آگے خدا خیر کرے۔ اس صورتحال کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے جو پہلے ہی پاک۔ بھارت، پاک۔ افغان اور پاک۔ ایران صورتحال کی الجھنوں سے دوچار ہے اور اس کے سیاستدان اس صورتحال سے لاتعلق ہو کر اقتدار کی داخلی جنگ میں مصروف ہیں۔ خطرات پاکستان کی سرحدوں اور قرب و جوار میں دستک دے رہے ہیں اور ہم ایٹمی طاقت ہونے کے زعم میں ان خطرات سے لاتعلق داخلی سیاست میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑے ملک کی سلامتی کو دائو پر لگائے بیٹھے ہیں۔ آن واحد میں عالمی سطح پر ممتاز قطر ایئر لائن، الجزیرہ ٹی وی، گیس کے ذخائر، معاشی خوشحالی کے حامل ملک قطر کی زمینی اور سمندری ناکہ بندی اور اب تک 7مسلم ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات توڑنے کے عمل سے ہم سب کو سبق سیکھنا چاہئے۔ امریکی وزیر خارجہ اب بھی عرب ممالک میں اتحاد پر زور دے رہے ہیں اور اس صورتحال کے معاشی اور سیاسی نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ دیکھیں ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ اور صدارت کا دور ابھی مزید کیا رنگ لاتا ہے؟
ادھر ریاض میں اپنے مشن میں کامیاب ہو کر واشنگٹن لوٹنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب زیادہ اعتماد کے ساتھ مسلم ممالک سے امریکہ آنے پر اپنے ’’ٹریول بین‘‘ آرڈر کے بارے میں اصرار کرنے لگے ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت اور حکم امتناعی کی زد میں آئے ہوئے صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کو نافذ دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ مسلم حکمرانوں کی جانب سے انہیں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں حالیہ دہشت گردی کی لہر نے بھی ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں پلنے والی نوجوان مسلم نسل کیلئے بھی مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ دہشت گردی کے ان واقعات میں خرم شہزاد بٹ اور رشید رضوان نامی نوجوان ملوث بیان کئے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں دہشت گردی کے حالیہ شرمناک واقعات نے امریکہ کے مسلمانوں کیلئے بھی ناموافق صورتحال پیدا کی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت نے امریکہ کو سیاسی طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔ ریاست اوریگن میں حجاب پہننے پر دو لڑکیوں کو ہراساں کرنے والے انتہاپسند امریکی نے منع کرنے والے دو غیر مسلم امریکیوں کو قتل کر ڈالا تو اب اس کی حمایت میں ’’آزادی اور امریکہ کی حفاظت‘‘ کے عنوان سے مظاہرہ نے صورتحال مزید کشیدہ کر رکھی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب صدر ٹرمپ کے حامی بھی اپنی ’’اسٹریٹ پاور‘‘ دکھانے کیلئے 10؍جون کو امریکہ کے 23شہروں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کریں گے جبکہ ٹرمپ کے سیاسی مخالفین گزشتہ ہفتے ہی نیویارک سمیت بڑے بڑے شہروں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور 14؍جون کو صدر ٹرمپ کی 71؍ویں سالگرہ کے روز امریکہ کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالیں گے۔ مختصر یہ کہ سیاسی طور پر تقسیم شدہ امریکہ میں سب سے کم آبادی اور کمزور حیثیت مسلمان کمیونٹی کی ہے جو واضح طور پر دہشت گردی کو خلاف اسلام، خلاف انسانیت اور قابل مذمت فعل قرار دیتی ہے لیکن اسلامو فوبیا کے شکار بعض انتہاپسند امریکی حلقے بھی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کا جمہوری حق استعمال کرتے ہیں۔ مسلمان ناموں والے دہشت گرد اپنی دہشت گردی کی گھنائونی کارروائیوں سے اسلام اور مسلمان مخالف عناصر کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ زبگنیو برزنسکی کے دورۂ طورخم سے ٹرمپ کے دورۂ ریاض تک کے عرصہ میں مسلم دنیا صرف 38سالوں میں سنبھلنے کی بجائے کن حالات کا شکار ہے؟

تازہ ترین