• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک حقیقت ہے کہ رجب طیب ایردوان کے بغیر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( آق پارٹی) کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ پارٹی اُن کی محنت اور کاوشوں ہی کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی ۔ 16 جنوری 1998ء میں رفاہ پارٹی کو ترکی کی آئینی عدالت کی جانب سے کالعدم قرار دئیے جانے کے بعد ملی نظریات کے حامل سیاستدانوں نے فضیلت پارٹی کے نام سے نئی جماعت کو تشکیل دیا لیکن اس نئی جماعت کی تشکیل کے فوراً بعد ہی جماعت کے اندر روایتی پالیسی اور جدید پالیسی کے حامل سیاستدانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے اور ان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے 14 مئی 2000ء کو فضیلت پارٹی میں انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں عبداللہ گل کی قیادت میں جدید نظریات کا حامل گروپ چھوٹے مارجن سے شکست سے دوچار ہوگیا اور پھر اسی گروپ جس میں رجب طیب ایردوان ، عبداللہ گل عبد لطیف شینر، ادریس نعیم شاہین، بن علی یلدرم اور بلنت آرنچ شامل تھے،نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے نئی پارٹی تشکیل دی۔ 3 نومبر 2002ء کو نئی پارٹی کی تشکیل کے پندرہ ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں آق پارٹی نے34 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کلی اکثریت حاصل کرلی اور عبداللہ گل کی قیادت میں ( ایردوان جن کو استنبول کا مئیر ہونے کے دور میں عوام کو مذہب کے نام پر اکسانے اور اشعار پڑھنے کی وجہ سے پابندِ سلاسل کردیا گیا تھا عام انتخابات میں حصہ لینے سے محروم رہے تھے) نئی حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دوران ری پبلکن پیپلز پارٹی نے آق پارٹی سے تعاون کرتے ہوئے آئین میں ترامیم کے ذریعے ایردوان کے لئے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار کی جس پر ایردوان 8 مارچ2003ء کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوگئے اور وزیراعظم عبداللہ گل نے11 مارچ 2003ء اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے ایردوان کے لئے نئی حکومت تشکیل دینے کے دروازے کھول دئیے اور یوں15 مارچ 2003ء کو ایردوان کی قیادت میں ترکی میں نئی حکومت تشکیل دی گئی۔ اس طرح وہ صدر منتخب ہونے سے قبل تک آق پارٹی کے بانی رکن اور چیئر مین کی حیثیت سے فرائض ادا کرتے رہے تھے۔ انہوں نے 22 جولائی 2014ء کو وزیراعظم اور آق پارٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے آخری بار پارلیمنٹ میں آق پارٹی کے گروپ اجلاس سے خطاب کیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے یہ اختیارات 27 اگست 2017ء کو اس وقت کے وزیراعظم احمد داؤد اولو کو سونپ دئیے کیونکہ ترکی کے آئین کی رو سے صدر منتخب ہونےکے لئےپارٹی سے وابستگی ختم کرنے کی ضرورت تھی ۔ احمد داؤد اولو کے وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد22 مئی 2016 کو آق پارٹی کے دوسرے ہنگامی کنونشن میں بن علی یلدرم کو پارٹی کا نیا چیئر مین منتخب کرلیا گیا اور انہوں نے یہ فرائض 364روز تک ادا کیے۔ ایردوان 2 مئی 2017ء تک آق پارٹی کی رکنیت اور چیئرمین شپ سے دو رہےتاہم 16 اپریل 2017ء کے آئینی ریفرنڈم نے انہیں ایک بار پھر آق پارٹی کے دوبارہ سے رکن اور چیئر مین بننے کے امکانات فراہم کردئیے۔ آق پارٹی نے اس سلسلے میں آئین کی رو سے 2 مئی 2017ء کو ایردوان کو دوبارہ سے پارٹی کی رکنیت عطا کرنے کی پیش کش کی جسے انہوں نے ایک اعزاز سمجھتے ہوئے دوبارہ سے قبول کرلیا ۔
21 مئی 2017ء کو انقرہ میں آق پارٹی کا تیسرا ہنگامی کنونشن منعقد ہوا جس میں پارٹی کے ایک ہزار 414 مندوبین نے ایردوان کو دوبارہ سے پارٹی چیئر مین منتخب کرلیا۔ ایردوان پارٹی کنونشن کے انتخابات میں واحد امیدوار تھے۔ ایردوان نے پارٹی کا چیئرمین منتخب ہونے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ " ہم اپنے مسائل کو اپنے دوستوں ، اتحادیوں کے ساتھ مل کر حل کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم ان کی عدم موجودگی میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ "انہوں نے کہا کہ وہ اس سال کے آخر تک اپنی پارٹی کی تشکیل نو کریں گے اور مقامی سطح پر اس میں از سر نو تبدیلیاں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ "یہ کنونشن آق پارٹی کے لئے نیا سنگِ میل ثابت ہوگا ۔ ہم ملک ، قوم اور پارٹی اراکین کی خدمت کے لئے نئے دور کا آغاز کررہے ہیں ۔ سولہ سالہ تجربے کی روشنی میں نئے دور میں بڑے پیمانے پرکارنامے سرانجام دینے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں پہلے 2019 ء کے صدارتی انتخابات تک ملک میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کو عملی شکل عطا کرنا ہے اور 2023ء میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ" اللہ ہی ہمیں کامیابیاں اورکامرانیاں عطا کرنے والا ہے ۔ ہم ترکی کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کے مستقبل کے لئے جس جدو جہد کاآغاز کرچکے ہیں ہمیں امید ہے کہ ہم عالمِ اسلام کو بھی کامیابیوں سے ہمکنار کریں گے ۔انہوں نے پارٹی کنونشن کے اختتام پر ریفرنڈم میں ان کی جماعت کا مکمل ساتھ دینے والی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے چیئرمین دولت باہیچے کا بھی شکریہ ادا کیا۔
صدر ایردوان نے پارٹی چیئر مین منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں 1044 روز بعد پارلیمنٹ میں پارٹی گروپ اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم بن علی یلدرم نے ان کو خطاب کی دعوت دیتےہوئے کہا کہ ملک میں نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور اس دور میں ملک میں مزید سیاسی استحکام قائم ہوگا اور اب فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے کوئی امکانات باقی نہیں بچے ہیں ۔ اب کسی کو بھی عوام کی منشا کے بغیر اقتدار پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عوام کا فیصلہ ہی آخر ی اور حتمی فیصلہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 15 جولائی کو عوام نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ادوار میں تو سیاستدان بڑی خاموشی سے فوجیوں کے سامنے سر تسلیم ِ خم کیے اقتدار بغیر کسی مزاحمت کے حوالے کردیا کرتے تھے لیکن صدر ایردوان نے ترکی کی اس روایت کو تبدیل کیا اور جس طریقے سے عوام ان کی اپیل پر سڑکوں پر نکلے اور اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اس نے ملک میں جمہوریت اور ڈیمو کریسی کو اپنے مضبوط پائوں پر کھڑا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ صدر ایردوان نے اس بار ملک میں مارشل لا لگانے کی کارروائی پر کاری ضرب لگاتے ہوئے فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردئیے ہیں۔ صدر ایردوان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا میں سب پر واضح کردوں کہ " یہ ایک انقلابی جماعت ہے جس کی وجہ سے ملک میں گزشتہ سولہ سالوں سے مسلسل انقلاب برپا کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک بھی ترکی میں اس خاموش انقلاب کا اعتراف کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا اگر یہ جماعت ملک میں انقلاب برپا نہ کرتی تو سولہ سال بعد بھی بھلا کیسے اقتدار میں رہ سکتی تھی۔
ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد 2019ء تک بن علی یلدرم ، بطوروزیراعظم اور ایردوان بطور صدر فرائض ادا کرتے رہیں گے تاہم 2019 ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد وزیراعظم کا عہدہ ختم کردیا جائے گا اور صدر ایردوان صدارتی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ہی نئے نظام کے تحت اختیارات سنبھالیں گے اور اس وقت ہی ملک میں صحیح معنوں میں صدارتی نظام پر عمل درآمد شروع ہوگا۔

تازہ ترین