• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دی نیوزکے سینئیر صحافی عمر چیمہJIT کے سامنے پیش ہو چکے۔7 جون کے جنگ اور دی نیوز میں چیمہ صاحب نے اپنے تجربہ اور معلومات کی بنیادپر سوال اٹھایا کہ حسین نواز کی تصویر کس نے لیک کی؟ اُن کی تحریر دلچسب تھی کیوں نہ کچھ معلومات اور چند اشاروں میں وہ بہت کچھ کہہ گئے۔ چیمہ کے مطابق جب اُنہیں JIT کے سامنے پیشی کےلیے بلایا گیا تو اُنہیں جن صاحب نے فون کیا انہوں نے اپنا تعارف JIT کے چئیرمین واجد ضیاء کے کوآرڈینیشن آفیسر کے طور پر کرایا۔ واجد ضیاء ایک پولیس افسر ہیں اور اُن کی موجودہ تعیناتی ایف آئی اے میں ہے اس بنا پر چیمہ کا خیال تھا کہ JIT سربراہ کا کوآرڈینیشن افسر بھی ایف آئی اے یا محکمہ پولیس سے تعلق رکھتا ہو گا اور یہی سپریم کورٹ کے عملدرآمدا سپیشل بنچ کے حکم میں درج تھا۔ لیکن جب چیمہ JIT کے سامنے پیش ہونے کے لیے مقررہ وقت اور دن جوڈیشل اکیڈمی پہنچے تو اُن کے سامنے یہ راز کھلا کہ سربراہ JIT کے کوآرڈینیشن افسر کا تعلق محکمہ دفاع سے ہے۔ اس پر چیمہ نے لکھا کہ وزارت دفاع سے تعلق کا مطلب وہ ایجنسی ہے جو وزارت دفاع کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔ کوآرڈینیشن افسر نے چیمہ کو ایک کمرے میں پہنچایا جہاں ایک خوش اخلاق افسر نے اُن کو ویلکم کیا۔ چیمہ کہتے ہیں کہ اُن کے پوچھنے پر کوآرڈینیشن افسر کی طرح اس آفیسر نے بھی بتایا کہ اُس کا تعلق بھی محکمہ دفاع سے ہے۔ چیمہ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں JIT کے سامنے پیش کیا گیا اور اُس کرسی اور اُسی کمرہ میںبٹھایا جس میں حسین نواز کو لیک کی گئی تصویر میں دکھایا گیا۔ چیمہ کا کہنا تھا کہ اُن کی پیشی کے دوران کئےگئے مشاہدے کے مطابق JIT سیکرٹیریٹ وزارت دفاع کےماتحت محکموں کے مؤثر کنٹرول میںہے۔ چیمہ نے سوال اٹھایا کہ JIT کے ایک ایسے سیکرٹیریٹ سے جہاں JIT سربراہ کے کوآرڈینیشن افسر تک کا تعلق محکمہ دفاع سے ہو وہاں حکومت کی سی سی ٹی وی تک رسائی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ چیمہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر شریف فیملی JIT کو متنازع بنانا چاہتی ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ JIT اس کام میں حکمرانوں کی مدد کر رہی ہے۔ تصویرسے پہلے ایمبولنس کی خبر چلوائی گئی اور کہا گیا کہ حسین نواز کی طبعیت خراب ہو گئی جو چیمہ کے مطابق من گھڑت کہانی تھی اور اس کا بظاہر مقصد حسین نواز کامذاق اڑانا تھا۔ چیمہ لکھتے ہیں کہ جہاں تک JIT کو کسی سیاسی مداخلت سے بچانے کا سوال ہے تو وہ اچھی بات ہے تا ہم اگر ایسے شرارت آمیز لیکس جاری رہے تو پھر اس پر وزارت دفاع پر بھی بات ہو گی۔
میری ذاتی رائے میں JIT سے متعلق تنازعات کو settle کرنے اور مزید تناعات سے بچانےکےلیے سپریم کورٹ کو کردار ادا کرناچاہیے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ اس JIT اور اس کے انتظامی امور کے متعلق تمام فیصلے سپریم کورٹ خود کر رہی ہے۔ ویسے جب JIT بنانے کے متعلق اپریل 20 کو سپریم کورٹ کا صرف فیصلہ ہی ہوا تھا تو اُس وقت کئی لوگوں کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کو JIT میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو شامل نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ نہ صرف یہ عسکری اداروں کو بلاوجہ سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کا سبب بنے گا بلکہ اس سے سول ملٹری تعلقات میں بھی خرابیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہو گا۔ لیکن چیمہ کی خبر پڑھ کر احساس ہو کہ JIT کا سیکرٹیریٹ بھی وزارت دفاع کے حوالے کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ہماری حکومتیں قابل اعتبار ، آزاد اور خودمختار احتساب کا نظام بنانے میں سنجیدہ نہ ہوں، جب تمام سول ادارے حکمرانوں کی خواہشوں کے تابع ہو جائیں تو پھر سپریم کورٹ کےپاس وزارت دفاع اور اس کے ذیلی ادارے کے علاوہ کون رہ جاتا ہے جس پر اعتبار کیا جائے۔ آج ہی کے اخبار میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا ایک بیان شائع ہوا جس میں اُنہوں نے شکایت کی کہ حسین نواز کو JIT کے سامنے ایسے بٹھایا گیا جیسے اُس نے کرپشن کی ہو۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ایک خاندان (یعنی شریف فیملی) کی طرف بندوق تان لینے کو احتساب نہیں کہتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب بینک لوٹنے اور غریب قوم کے60 ملین ڈالر لوٹ کر سوئس بینک میں رکھنے والوں کو کوئی پوچھ نہیں رہا۔ نہیں معلوم شہباز شریف صاحب شکایت کس سے کر رہے ہیں۔ اگر سچ پوچھیں تو احتساب کا ایک ایسا نظام جو across the board احتساب کرے کو بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی اور کی۔ ن لیگ نے 2013 کے اپنے الیکشن manifesto میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ایک ایسا خودمختار اور آزاد احتساب کمیشن بنایا جائے گا جو کرپشن کے خاتمے کےلیے قانون کے مطابق بلا کسی خوف و خطر کرپشن کرنے والوں کر بنا کسی تفریق کے پکڑے گا۔ لیکن چار سال ن لیگ کی حکومت کو گزر گئے اور اس منزل کے طرف ایک قدم نہیں بڑھایا گیا۔ ایسے میں شہاز شریف صاحب کو دوسروں سے شکایت کرنے کی بجائے اپنی حکومت اور اپنی سیاسی جماعت سے سوال کرنا چاہیے۔ اور یاد رہے جب تک احتساب کا قابل اعتماد نظام نہیں بنایا جائے گا تو پھر کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کو تو ضرور پکڑے گا۔

تازہ ترین