• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام اور ترکی کا سرحدی علاقہ زیتون کے باغات سے بھرا ہوا ہے۔زیتون کے ان خوبصورت باغات کے درمیان سے گزرتی سڑک پر سفر کے دوران قرآن مجید میں زیتون اور انجیر کا ذکر یاد آتا ہے اور جب گاڑی دریائے فرات کے پل پر سے گزر رہی تھی تو دریا کے پانی کی چمک مجھے بہت سے واقعات یاد دلانے لگی جو میں نے تاریخی کتب میں فرات کے متعلق پڑھ رکھے ہیں۔ زیتون کے باغات اور فرات کا پانی مجھے بار بار تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے پر شاید اس لئے مجبور کررہا تھا کہ میرے اس سفر کا آغاز ایک تاریخی شہر عرفا سے ہوا تھا۔ عرفا کو انبیاءؑ کا شہر کہا جاتا ہے۔جمعہ کی نماز اس شہر کی مسجد ایوب ؑ میں ادا کی۔ مسجد کے احاطےمیں وہ غار موجود ہے جہاں حضرت ایوبؑ نے اپنی بیماری کے دن گزارے تھے اور اس بیماری میں ان کا صبر اتنی بڑی مثال بنا کر صبر ایوبی ؑکہلایا۔ غار کے قریب ہی وہ کنواں موجود ہے جس کے پانی سے حضرت ایوب ؑ کو شفا ملی۔ عرفا شہر میں ایک اور تاریخی جگہ مقام ابراہیم ؑ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں بھی ایک مسجد ہے اور مسجد کے قریب وہ غار موجود ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالا تھا وہ جگہ بھی اس غار کے قریب ہے۔ یہ ایک پہاڑ ہے جس پر ایک قلعہ تھا اور قلعے کی فصیل سے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں پھینکا گیا لیکن حضرت ابراہیم ؑ اس آگ سے بچ نکلے اور نمرود کی خدائی کا دعویٰ باطل ثابت ہوا۔ جس جگہ آگ جلائی گئی تھی وہاں پانی کا ایک خوبصورت تالاب ہے جس میں لاتعداد خوبصورت مچھلیاں تیرتی نظر آتی ہیں اور زائرین مچھلیوں کو خوراک پھینک کر خوش ہوتے ہیں۔ اس مقام سے وابستہ تاریخی واقعات کی تصدیق کے لئے میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے اور میں وہاں کوئی بک اسٹال ڈھونڈتا رہا لیکن فوری طور کوئی کتاب نہ مل سکی۔ عرفا شہر شامی مہاجرین سے بھرا پڑاتھا۔عجیب بات تھی کہ کوئی ایک شامی مہاجر عورت حجاب کے بغیر نہ تھی۔خبیب فائونڈیشن نے عرفا میں ایک پاکستانی بیکری قائم کر رکھی ہے۔ اس بیکری سے کارڈ سسٹم کے ذریعہ روزانہ ہزاروں شامی مہاجرین میں روٹیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ روٹیاں لینے کے لئے قطاروں میں کھڑی عورتوں کے اداس چہروں کو دیکھ کر فوراً یہ خیال آتا ہے کہ امت مسلمہ کی یہ لاکھوں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں کب تک قطاروں میں کھڑے ہو کر روٹیاں مانگیں گی؟تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک آپس میں لڑرہے ہیں لیکن انہیں عربی بولنے والی ان مہاجر عورتوں کی تذلیل میں اپنی تذلیل کیوں دکھائی نہیں دیتی؟
اس وقت صرف ترکی میں35لاکھ شامی مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے۔ ان میں کم از کم چھ لاکھ بچے یتیم ہیں۔ شام کے یتیم مہاجر بچوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ پچھلے سات سال سے شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث تعلیمی ادارے بند ہیں اور لاکھوں بچے اسکول نہیں جارہے۔ یہ بچے مہاجر کیمپوں میں پڑے ہیں یا سڑکوں پر دھکے کھارہے ہیں۔ ایک پوری نسل تعلیم سے محروم ہو کر ان عسکری گروپوں کا ایندھن بن رہی ہے جنہیں مختلف عالمی و علاقائی قوتیں اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ عرفا سے اکلس اور اکلس سے ریحان لی کے سفر کے دوران مجھے بہت سی بیوائوں کی دردناک کہانیاں سننے کا موقع ملا۔ کسی کا خاوند روسی بمباری سے مارا گیا تھا، کسی کے خاوند کو داعش نے قتل کیا تھا، کسی کا خاندان بشارالاسد کی فوج کے ظلم کا شکار ہوا تھا اور کوئی ادلیب میں گیس بم کی متاثرہ تھی۔ ایسا ہی ظلم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بمباری سے دمشق کے آس پاس ہوا ہے۔ ان بیوائوں اور یتیموں کو دیکھ کر یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ انتقام کی آگ میں جلنے والے یہ لاکھوں مہاجرین سنی اور شیعہ لشکروں میں شامل ہو کر آپس میں تو نہیں لڑتے رہیں گے؟ اگر یہ آپس میں لڑتے رہے تو فائدہ کس کو ہوگا؟ ریحان لی میں ترکی اور شام کی سرحد پر ایک چھوٹی سی آبادی میں انسانی حق و حریت(آئی ایچ ایچ) نے قطر کے تعاون سے ایک بہت بڑا یتیم خانہ اور اسکول قائم کیا ہے۔ اسکول کے اخراجات خبیب فائونڈیشن نے مہیا کئے ہیں۔ اس اسکول کو دیکھ کر تھوڑا سا اطمینان قلب ملا کہ سب کے سب شامی یتیم بچے جنگ کا ایندھن نہیں بنیں گے لیکن ایک سوال کانٹا بن کر دل میں چبھتا رہا۔ اس دور دراز علاقے میں قطر یتیموں کی مدد کے لئے پہنچ گیا باقی عرب ممالک کہاں ہیں؟ ترکوں نے عرب و عجم کی تفریق مٹا کر شامی مہاجرین کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے ہیںاور انہیں شہریت دینے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے لیکن جنہوں نے اسلامی اتحاد کے نام پر فوج تشکیل دی ہے اور ’’عرب نیٹو‘‘ بننے جارہے ہیں وہ یہاں نظر کیوں نہیں آتے؟ یہ درست ہے کہ شامی مہاجرین نے اردن، لبنان اور سعودی عرب میں بھی پناہ لے رکھی ہے لیکن ان کی سب سے زیادہ تعداد ترکی میں ہے اور ترکی میں ان مہاجرین کی امداد کے لئے سرگرم کچھ پاکستانیوں کو اپنی حکومت کی طرف سے جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا ذکر پھر کبھی ،فی الحال تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ زیتون کے باغوں سےبھرے اس پہاڑی علاقے میں مجھے جس بڑی جنگ کی نشانیاں نظر آئیں اس جنگ کے خطرے کو سعودی عرب اور قطر کے اختلافات نے مزید بڑھادیا ہے۔ سعودی عرب نے کئی اہم عرب ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر قطر کا اقتصادی بائیکاٹ شروع کردیا ہے۔ مجھے افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ایران کی حکومت نے بھی حالات کی نزاکت کا احساس نہیں کیا۔ ان ممالک کے حکمرانوں کی انا پرستی ا مت مسلمہ کی ایک پوری نسل کو فرقہ وارانہ لڑائی کی آگ میں جھونک سکتی ہے اور یہی مسلمانوں کے دشمنوں کا اصل ایجنڈا ہے۔
یاد کیجئے ! کچھ عرصہ قبل جب سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی ممالک کا ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا جارہا تھا تو پاکستانیوں کی اکثریت نے نواز شریف حکومت کو احتیاط کا مشورہ دیا تھا۔ پھر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب پہنچے۔ انہوں نے شاہ سلمان کے ساتھ مل کر تلواروں کے سائے میں رقص کیا اور ابھی اس رقص کا ذکر ختم بھی نہ ہوا تھا کہ اسلامی اتحاد ٹوٹ گیا اور ایک دوسرے کے خلاف صف بندی ہوگئی ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو نئے فوجی اتحاد کی کمان نہیں سنبھالنی چاہئے لیکن عام پاکستانیوں کی رائے کو کچھ خاص لوگوں نے’’قومی مفاد‘‘ کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا۔ نئے حالات نے ثابت کیا کہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔ ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر پاکستان کی ساکھ کو عالمی طاقتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ فیلڈ مارشل بننے کی تشنہ آرزو میں مبتلا راحیل شریف کو سعودی عرب سے واپس بلانے کی ہمت کسی میں نہیں ہے تو وہ خود ہی واپس آجائیں اور پاکستان کو مسلمانوں کی باہمی لڑائی کا فریق نہ بنائیں۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ 40کے مطابق ریاست پاکستان عالم اسلام کا اتحاد مضبوط بنانے کی پابند ہے۔سعودی عرب اور قطر کی لڑائی شروع ہوجانے کے بعد کسی پاکستانی کا اس لڑائی کے ایک فریق کے ساتھ کھڑا ہونا دفعہ40کی خلاف ورزی ہے۔

تازہ ترین