• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیکچرکے بعد ایک نوجوان اسٹوڈنٹ نے وہی سوال کیا جو آج سے کئی سال پہلے اپنے زمانہ طالب علمی میں مجھے بھی پوچھنے کا خبط تھا اور میں یہ سوال اپنے کئی غیر ملکی گورے ٹیچرزسے پوچھ چکاتھا لیکن اس کا بہت مؤثرجواب ملنےپرمیں سمجھ گیا کہ اس سوال کاجواب کیاہے اور آج کئی برسوںبعد ایک نوجوان نے یونیورسٹی میں لیکچر کے بعد مجھ سے یہی سوال کردیا تھا۔
میرا یہ تجربہ ہے کہ والدین مجھ سے ملاقات کے دوران کچھ سوالات بہت تواترسے کرتےہیں کہ ہمارا بیٹایا بیٹی اسکول ، کالج یا یونیورسٹی سے واپسی کے بعد کتنے گھنٹے پڑھے تو وہ اے گریڈز حاصل کرسکتا ہے، یا کونسا تعلیمی ادارہ ہمارےبچے کیلئے بہتر ہے یا یہ کہ کیا بچے کو گھر میںپڑھانے کیلئے کسی ٹویٹر کی خدمات حاصل کرناچاہیں یا کسی اکیڈمی میں داخلہ کراکے اس کی کارکردگی کو بہتر کیاجاسکتاہے اور کیا بچوں کوا سپورٹس اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوںمیں حصہ لینا چاہیے ، اورمیں انہیں کہتا ہوں کہ یہ کوئی ایسا سخت قاعدہ یا قانون نہیں کہ مخصوص گھنٹوں تک بیٹھ کر ہی اے گریڈزحاصل کئے جاسکتے ہیں ، یہ طالبعلم پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اسکولوں ، کالج یا یونیورسٹی میں کتنی باقاعدگی سے اپنا لیکچر اٹینڈ کرنےکے ساتھ اسے توجہ سے سنتا ہے اور پھر گھر آکے کتنی دیر میں وہ دن کے لیکچر پر دسترس حاصل کرسکتا ہے وہ دس منٹ بھی ہو سکتے ہیں اور کئی گھنٹے بھی اور بچے کا پڑھائی کا اپنا طریقہ کار ہوتاہے، دوسری بات میں والدین سے یہ کہتا ہوں کہ ضروری نہیں ٹاپ پوزیشن یا درجنوں اے گریڈ ہی بچے کی کامیاب زندگی کی ضمانت ہو،بچے کو گھر میں اچھا ماحول دیں اسے اپنی محبت اورچاہت کے یقین دلانےکے ساتھ اس کی تعلیم کی اہمیت کو بھی باور کرائیں، تعلیم کے ساتھ ساتھ اسے اسپورٹس اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے بھی نہ صرف رغبت دلائیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کریں ، اپنےبچے کیلئے اچھے تعلیمی ادارے اور اچھے اساتذہ کے لئے بھی آپ کو تھوڑی سی تگ و دوسے معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا تعلیمی ادارہ اچھی شہرت کا حامل ہے اور کس تعلیمی ادارے میںپڑھانےوالے اساتذہ کی اچھی شہرت ہے۔ لیکن میںپھر کہوں گا سب سے زیادہ بچے کی تعلیم اور اپنے کورس کے حوالےسے دلچسپی اہم ہوتی ہے ،بچے کو بڑا ہوکر کیا بننا ہے اس حوالےسے بھی بچے کی مرضی کو اہمیت دیں اب محض ڈاکٹر یا انجینئربننے کو ہی کامیابی نہیں کہاجاسکتا بلکہ بہت ساری ایسی فیلڈز ہیں جس با رےمیںبچوں کو معلوم ہوتا ہے یا ان کی کیرئر کونسلنگ کی جاسکتی ہے، بچے کا تعلیم کے حوالے سے کسی بھی مضمون یا چپٹر کے نظریہ کو کلیئر کرنے کےلئے اگر گھر میں کسی ٹیچرز کی مدد درکار ہو تولینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس یہ قباحت شامل نہیں ہونا چاہیے کہ بچہ اپنے تعلیمی ادارے میں کلاسز اور لیکچرز پر توجہ کی بجائے سارا انحصار گھر آکر پڑھانے والے ٹیچر سے کرے ، بات لمبی ہوگئی میں نے آغاز کیا تھا میرے ایک لیکچر کے دوران ایک بچے کے سوال کا جو زمانہ طالبعلمی میں میرے ذہن میں بھی گونجتا رہتا تھا، وہ سوال ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے ؟مجھے اس سوال کے بہت سے جوابات ملتے رہے لیکن ایک گورے استاد نے مجھے اس کا جواب یوں دیا کہ پاکستان کا مستقبل وہی ہوگاجو آپ چاہو گے آپ کی قوم چاہے گی یا آپ کی نوجوان نسل چاہے گی پھر اسی چاہت کے ساتھ اس کی ڈائریکشن میں عملی کام بھی کرنا ہوگا، یعنی مختصر الفاظ میں اس ٹیچر کا کہنا تھا’’ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستار ہ‘‘ یہی جواب میں نے اس طالبعلم کو دیا جو آج سے کچھ سال پہلے مجھے ملا تھا اور میں نے اسے درست جان کے اپنے پلے باندھ لیا تھا ، رمضان سے پہلے ایک دوسری یونیورسٹی بھی مجھے لیکچر کی دعوت دی گئی جس کا عنوان تھا اچھے کردار والے معاشرے کی تشکیل لیکچر کے بعد مجھے یونیورسٹی اساتذہ نے بتایا کہ یہ سلسلہ ہم نے نیب کے چیئرمین چوہدری قمر زمان کی ہدایت پر شروع کیا ہے مجھے بہت اچھا لگا اس کے کچھ روز بعد ہی میری نیب چیئرمین سے ملاقات ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے اسی سلوگن کہ ’’Say no to Corruption‘‘ کیلئے کتنی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کیلئے انہوںنے مختلف اداروں کے ساتھ ملکر کتنا کام کیا کہ قوم اور یوتھ کو یہ باوور کرایا جائے کہ کرپشن سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کیلئے ہر فرد کے کردار کی کتنی اہمیت ہے ، چیئرمین کا یہ کہنا ہے کہ محض سزائیں دے کر معاشرے کو درست نہیں کیاجاسکتا اگر ایسا ہوتا توپھانسی کی سزائوں کے بعد قتل کے واقعات ختم ہوجائیں لیکن ایسا نہیں ہوا اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ معاشرے کو اچھی قوم کی شکل دینے کیلئے برائی کا گھناؤنا چہرہ دکھا کر اس سے دور رکھا جائے اور ا س کیلئے نئی نسل کی اہمیت بہت زیادہ ہے جی ہاں ہم سب کو یہ ضرور کہنا چاہیے کہ "Say no to Corruption"بلکہ اس کو عملی شکل دینے کیلئے اپنا اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے ۔

تازہ ترین