• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کیا دلچسپ کردار اس بدکردار کی وجہ سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ نہال ہاشمی کی ’’پرفارمنس‘‘ دیکھ کر کڑھی کے ابال والا محاورہ یاد آتا ہے۔ تازہ ترین کمال کا جواب نہیں۔ فرمایا ’’تقریر میں بنی گالا والوں کو مخاطب کیا تھا‘‘ حالانکہ بنی گالا میں ایسا کوئی نہیں جس نے ’’ریٹائر‘‘ ہونے کے بعد خود پر زمین تنگ کروانی ہو اور بنی گالا والے کے بچے بھی غنڈہ گردی کی رینج سے بہت باہر انگلینڈ میں ہوتے ہیں تو یہ کیسی بونگیاں مار رہے ہیں۔ جھوٹ کے بارے توسنا تھا کہ ایک جھوٹ نبھانے کیلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں لیکن اس بات کی سمجھ اب جا کر آرہی ہے کہ ایک بونگی سے بچنے کی کوشش میں لاتعداد بونگیاں بھی مارنی پڑتی ہیں۔ سیاست کا کمال یا زوال دیکھو کیسا کیسا نونہال سینیٹ جیسے باوقار ادارہ تک پہنچ جاتا ہے۔ کیسے کیسے لوگ اس قوم کی قسمت کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے اور اب تک اس کارخیر میں مصروف ہیں۔جنہیں سب سے زیادہ ’’ذمہ دار‘‘ ہونا چاہئے، وہی لوگ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ ’’غیر ذمہ دار‘‘ ہیں۔ اک محاورہ ہے۔"Privilege and responsibility are two sides of the same coin."اگر واقعی، استحقاق، مراعات اور ذمہ داری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں تو اس کی روشنی میں اپنی سیاسی، مذہبی اور فکری لیڈر شپ کو دیکھیں تو جھٹکا لگتا ہے اور یقین نہیں آتا کہ ان کی موجودگی میں ہم 70برس نکال چکے لیکن پھر یہ آفٹر تھاٹ کہ نہیں ..... دولخت ہو کر وقت پورا کیا، انہی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی قیمت ڈھاکہ کے پلٹن گرائونڈ میں چکائی تھی اور اب تو وہ نسلیں میدان عمل میں ہیں جنہیں شاید علم بھی نہیں کہ کبھی کوئی مشرقی پاکستان بھی ہوتا تھا جو مدتوں سے بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ اتنا کچھ گنوانے لٹانے کے بعد بھی ہمارے سیاسی میٹرئیل کو سمجھ نہیں آئی کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور کیسے نبھانی ہیں۔ سیکھنا سمجھنا تو کیا تھا، میرا ذاتی مشاہدہ، مطالبہ اور تجزیہ تو یہ ہے کہ سیاسی میٹرئیل کا معیار بتدریج گرتا ہی چلا گیا۔ اس زوال کی علامتیں ہیں یہ نہال اور دیگر نونہال جن کی زبانیں کسی کپتی ساس کی زبان سے زیادہ زہریلی اور لمبی ہیں تو کسی سیانےکا یہ قول یاد آتا ہے۔"Some men grow under responsibility, while others only swell."ذمہ داری کچھ لوگوں کو سنوار دیتی ہے، نکھار دیتی ہے اور بہت سوں کو مسخ کردیتی ہے۔ ان کی انائیں ہی نہیں، دماغ اور زبانیں بھی بری طرح سوجی ہوئی ہیں۔کیسا عالیشان رویہ ہے۔"I have a very responsible job here; I am responsible for every thing that goes wrong."سبحان اللہ ..... کتنی بصیرت، جرات اور ظرف چاہئے ایوان میں کھڑا ہو کر یہ کہنے کیلئے کہ ’’میرے کندھوں پر بہت بڑی اور بھاری ذمہ داری ہے اور میں ہر غلطی یا غلط کام کیلئے ذمہ دار ہوں‘‘۔یہاں وہ لوگ ہیں جو چھچھوڑوں کی طرح ہر کام کا کریڈیٹ سمیٹنا اور بٹورنا چاہتے ہیں اور اپنی بدترین ناکامیوں کوبھی ٹھگوں کی طرح کامیابیاں بنا کرپیش کرتے ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسا عالی ظرف نصیب نہیں ہوا جو چھاتی پرہاتھ مار کر سرعام یہ اعلان اور اقرار کرے کہمیں ذمہ دار ہوں اس ملک میں بے روزگاری کامیں ذمہ دار ہوں اس ملک میں شرح خواندگی کی کمی کامیں ذمہ دار ہوں ہسپتالوں کی کمی اور حالت زار کااور میں ہی ذمہ دار ہوں اگر مظلوموں کو سستا اور فوری انصاف نہیں ملتا۔میں ذمہ داراور جواب دہ ہوں ہر اس بچے کو جو سکول جانے کی بجائے اینٹوں کے پھٹے پر کام کررہا ہے۔لیکن نہیں یہ قدم قدم پر ’’ترقیاں‘‘ سنائیں گے۔ سبز باغ دکھائیں گے، جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جائیں گے، پھائوڑوں سے وہ کریڈٹ ہو نجنا چاہیں گے جس کا جواز ہی کوئی نہیں۔ میں نے شاید پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ دنیا کا مکار ترین، جھوٹا ترین چرب زبان بھی بھوکے کو اس پرقائل نہیں کرسکتا کہ اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے، کوئی شیطان صفت شعلہ بیان بھی کسی بے روزگار کو اس بات پر قائل نہیں کرسکتا کہ اس کے اردگرد، آگے پیچھے اور اوپر نیچے ترقیاں جنگلی ہرنیوں کی طرح قلانچیں بھرتی پھر رہی ہیں۔یہ رائی جتنی اچھائی کا کریڈیٹ لیتے ہیںاور پہاڑوں جیسی بدیوں برائیوں کا ذکر تک نہیں کرتےکیونکہ یہ سب مختلف قسموں اور سائیزز کے ’’نہال‘‘ ہیں جو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی انکاری، تھوکا چاٹ لینے کے ایکسپرٹ، بات کر کے مکر جانے کے عادی۔لفظ کیا لوگ تو تحریر سے پھر جاتے ہیںتو نے کیوں میری ہر اک بات کو سچ جانا تھاکبھی ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اوپر سے نیچے تک اقتدار کے کھیل میں کس کلاس اور قسم کے لوگوں کی اکثریت ہے؟ یہ کتنے باوقار اور ذمہ دار ہیں اور کیا ان جیسوں کی موجودگی میں واقعی عوام کا مقدر بدل سکتا ہے؟کوچوان ایف 16اڑانے کی کوشش کرے گا تو یہی کچھ ہوگا جو ہورہا ہے۔

تازہ ترین