• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض سوالات بظاہر بڑے سادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن اُن کا جواب قطعی انداز میں دینا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ قدرت کے راز تہہ در تہہ ہوتے ہیں اور انسان ساری زندگی بھی انہیں سمجھنے پر گزار دے تو سمندر سے دوچار گھونٹ ہی پی سکتا ہے۔ البتہ اُن لوگوں کی بات اور ہے جنہیں قرب الٰہی کے انعام کے طور پر خالق حقیقی سے علم عطا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عطا کے بھی اپنے اپنے درجے ہوتے ہیں کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطا ہوتا ہے۔ مجھ سے ایک دن میرے ایک کلاس فیلو اور دیرینہ دوست نے ایک ایسا سوال پوچھا جس کا جواب دینا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ وہ میرا مخلص اور پیارا دوست ہے، میں اُسے ٹالنا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے سوال کا جواب دینے کا بھی اہل نہیں تھا۔ وہ اُن دنوں بیکار تھا حالانکہ وہ اعلیٰ درجے کی ڈگریوں اور تجربے کا مالک ہے۔ دنیاوی قانون کے مطابق اس کی ڈگریوں اور وسیع عملی تجربے کے پیش نظر بڑی کمپنیوں کو خود اسے تلاش کر کے پُرکشش تنخواہ اور مراعات دینی چاہئے تھیں لیکن یہاں صورت یہ تھی کہ اُسے کہیں سے بھی آفر نہیں آرہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے اُسے نہ جانے کیا خیال آیا، مجھ سے پوچھنے لگا کہ یار بتائو انسان اپنے معاملات پر کس قدر قادر ہے؟ ہماری زندگی پر کس قدر دنیاوی اصول لاگو ہوتے ہیں اور کس قدر معاملات پر دنیاوی یا سائنسی اصول اپلائی نہیں ہوتے؟ میں اس کا سوال سن کر مسکرایا اور عرض کیا کہ اس موضوع پر صدیوں سے بحث جاری ہے اور جاری رہے گی، نہ کوئی حتمی جواب دے سکا ہے اور نہ ہی دے سکے گا کیونکہ قدرت کے رازوں کو پانا یا سمجھنا انسان کے بس کا روگ نہیں، بس انسان اُسی قدر سمجھ پاتا ہے جس قدر اُسے علم عطا ہوتا ہے۔ مقدر کے حوالے سے حضرت علیؓ کا وہ فرمان قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے جب کسی نے مقدر یا اپنے معاملات پر قادر ہونے کا پوچھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا اپنی ٹانگ اٹھائو، اُس نے فوراً ٹانگ اٹھا لی۔ فرمایا اب دوسری ٹانگ اٹھائو۔ اُس نے کہا کہ میں دوسری ٹانگ نہیں اٹھا سکتا۔ فرمایا بس اپنے معاملات پر انسان کو اسی قدر قدرت حاصل ہے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں تمہیں ایک صاحب علم کے پاس لے چلتا ہوں، وہ صاحب کبھی اسکول تو نہیں گئے لیکن اللہ پاک نے اُن کا باطن روشن کر رکھا ہے اور انہیں کچھ علم بھی عطا کر رکھا ہے۔ بابا جی نیم مجذوب ہیں بس تم چپ چاپ اور مودب بیٹھے رہنا۔ ذہن میں کوئی سوال آئے تو مجھ سے کہنا۔ وہ مجھ پر شفقت فرماتے ہیں اس لئے مجھے سوال پوچھنے کی بھی اجازت ہے۔
جب ہم بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ آنکھیں بند کئے چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہمارے قدموں کی آہٹ سن کر اٹھ بیٹھے۔ نہایت محبت بھرے انداز میں کرسیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’بابا جی بیٹھو‘‘۔ وہ عام طور پر مہمانوں کو بابا جی ہی کہتے تھے۔ ہم دونوں مودب ہو کر بیٹھ گئے۔ چند لمحے خاموشی رہی۔ پھر بابا جی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’بابا جی آپ کے دوست کا رزق امریکہ میں ہے، اسے کہیں تیاری کرے‘‘۔ ہم نے تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد اجازت لی۔ باہر نکلتے ہی میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اب اِن شاء اللہ تمہیں امریکہ سے بلاوا آئے گا۔ پریشان رہنا چھوڑو اور اللہ پاک سے رجوع کرو۔ اپنے رب سے مانگو۔ باباجی کے منہ سے نکلی بات عام طور پر سچ ثابت ہوتی ہے۔ کئی ہفتوں بعد اُس کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کے آثار نمایاں ہوئے۔ کہنے لگا میں نے امریکہ میں بھی اپلائی کر رکھا ہے۔ا سکائپ پر انٹرویو بھی ہو چکا ہے۔ باقی جو اللہ کو منظور۔ اس واقعہ کے تقریباً دس روز بعد میرے دوست کا فون آیا کہ اُسے امریکہ میں نوکری مل گئی ہے اور میرے تقرر نامے (Appointment Letter)پر وہی تاریخ ہے جس دن ہم بابا جی سے ملنے گئے تھے۔
امریکہ جانے سے قبل میرے دوست نے ایک بار پھر بابا جی کو سلام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میرے دوست نے شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا کے لئے کہا۔ بابا جی نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ بابا جی نے میرے دوست سے پوچھا ’’بابا جی آپ کے کتنے بچے ہیں؟‘‘ اُس نے جواب دیا حضور دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بابا جی نے کہا کہ وہاں ’’سیٹ‘‘ ہو کر اُنہیں بھی اپنے پاس بلا لیں۔ اس نے جواباً عرض کیا کہ حضور یہی ارادہ اور پروگرام ہے۔ بابا جی ایک دم بولے ’’بابا جی ماشاء اللہ اب چوتھا ’’کاکا‘‘ بھی بھاگتا ہوا آ رہا ہے۔‘‘ جب ہم اجازت لے کر باہر نکلے تو میرا دوست حیرانی کے سمندر میں گم تھا۔ کہنے لگا کہ صفدر یار حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی امید سے ہے اور اس بات کا ہم میاں بیوی کو ہی صرف علم ہے لیکن بابا جی نے یہ راز بھی کھول دیا ہے۔ میں نے صرف اتنا جواب دیا کہ جنہیں رب علم عطا کرتا ہے ان کی نگاہ سمندر کی تہہ تک دیکھ لیتی ہے جبکہ ہم دنیاوی علم کی بے شمار ڈگریوں کے باوجود ظاہر بین ہی رہتے ہیں۔ میرا دوست امریکہ چلا گیا۔ اس نے اپنی فیملی کو بھی وہیں بلا لیا۔ فاصلوں نے رابطے کمزور کر دیئے۔ میں اُس سے یہ پوچھنا بھی بھول گیا کہ ’’کاکا‘‘ آیا ہے یا نہیں۔
دو سال کے بعد وہ پاکستان لوٹا تو اس نے آتے ہی بابا جی سے ملنے کی فرمائش کی۔ ہم بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ دیر تک وہ خیر، خیریت پوچھتے رہے۔ پھر انہوں نے ایک ایسی بات کی کہ مجھے پائوں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ میرے دوست سے کہنے لگے کہ بابا جی جو بھی محبت سے ہمیں ملنے آتا ہے ہم اسے دعائوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ آپ کے بارے میں میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ بابے صفدر کے دوست ہیں اور بابے صفدر سے مجھے پیار ہے۔ آپ بابے کے دوست ہیں اِن شاء اللہ نیک انسان ہوں گے۔ لیکن نہ جانے کیوں میں جب بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہوں تو مجھے فضا میں خون کے چھینٹے نظر آتے ہیں جو کسی قاتل یا قتل کی سازش میں ملوث انسان کے لئے نظر آتے ہیں۔ بابا جی جائو توبہ تلّا کرو۔ اللہ پاک رحمان و رحیم ہے، غفار ہے اور گناہ معاف کرنے والا ہے۔ میرے دوست کا تو یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ چپ اور پریشانی کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔ بابا جی کو سلام کر کے ہم باہر نکلے تو میں نے اُسے دلاسہ دیا۔ وہ ایک دم پھٹ پڑا۔ یار تمہیں علم ہے کہ میری بیوی حاملہ تھی۔ امریکہ جانے کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ بس تین ہی بچے کافی ہیں جو اب اسکول جا رہے ہیں۔ چوتھے کو ان حالات میں پالنا ممکن نہیں ہو گا۔ چنانچہ ہم نے آپس میں مشورہ کر کے حمل ساقط کروا دیا۔
میں اپنے دوست کی بات سُن کر سوچ کی گہرائیوں میں ڈوب گیا اور سوچنے لگا کہ اولاد اللہ پاک عطا فرماتے ہیں۔ اس پر انسان کا کوئی بس نہیں چلتا لیکن ہم اس کا راستہ روکنے پر کسی حد تک قادر ہیں۔ کچھ معاملات پر انسان قادر نہیں اور کچھ پر انسان قادر ہے۔ ظاہر ہے کہ اُس سے صرف انہی معاملات پر بازپرس ہو گی اور انہی کا حساب لیا جائے گا جن پر وہ قادر ہے۔ کئی برس قبل بابا جی وصال فرما گئے تھے۔ دنیا سے اُن کی رخصتی بھی آناًفانا تھی۔ میرے دامن میں فقط اُن کی یادیں اور مشاہدات ہیں جنہوں نے میری سوچ کو متاثر کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جو انسان ایسے روحانی مشاہدات و تجربات سے گزرا ہو، ایسے بزرگوں کی محفلوں سے فیض یاب ہوا ہو اس کا روحانیت پر یقین مضبوط ہوتا ہے۔ جنہیں ایسے تجربات نصیب نہیں ہوئے اُن کے لئے یہ تمسخر کا سامان ہوتا ہے۔

تازہ ترین