• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ رمضان کا مقدس مہینہ ہے جس میں اہلِ ایمان پر فیوض و برکات نازل ہوتی ہیں اور امن و آشتی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، مگر اِس بار پاکستان کے اندر اور اس کے گرد و پیش نہایت دل دوز واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ نوازشریف حکومت نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں اپنے عزیز وطن کی اقتصادی بدحالی پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے اور پاک چین دوستی جو انسانی تاریخ میں ایک مثالی دوستی کی زندہ جاوید علامت ہے، اِسے پورے خطے کے لئے بڑی محنت اور جانفشانی سے ایک زبردست معاشی انقلاب کی صورت دے دی ہے۔ یہ عظیم الشان کارنامہ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں سرانجام دیا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تجزیوں سے اُمید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان آئندہ پندرہ بیس برسوں میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان میں اقتصادی راہداری کے منصوبے کی صورت گری میں وزیراعظم نوازشریف کے علاوہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقیات و اصلاحات نے زبردست کردار ادا کیا جس کی تعمیر سے پاکستان کے تمام صوبوں کو غیر معمولی فائدہ پہنچے گا، شاہراہوں کا ایک جال بچھ جائے گا، توانائی کے منصوبے بڑی تیز رفتاری سے مکمل ہوں گے اور چند برسوں میں ایک نیا بلوچستان وجود میں آ جائے گا جس کے نتیجے میں ایک خوشحال اور مستحکم پاکستان جلوہ گر ہو گا جو عالمی برادری میں حد درجہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
پاکستان جسے مؤرخین بیسویں صدی کا ایک سیاسی معجزہ قرار دیتے ہیں، اپنی آفرینش سے اَن گنت آزمائشوں اور متعدد معجزوں کے درمیان سفر کرتا آیا ہے۔ برہمن قیادت نے پورا زور لگایا کہ پاکستان وجود میں نہ آنے پائے، مگر جب تقسیمِ ہند کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، تو اس نے ایسے حالات پیدا کیے جن میں مسلمانوں کو ایک لولا لنگڑا وطن میسر آیا، لیکن پاکستان حاصل کرنے والی نسل کے بے پایاں اخلاص اور جذبۂ ایثار نے اسے ایک عظیم طاقت بنا دیا اور صرف سات برسوں ہی میں اس کے روپے کی قیمت بھارتی روپے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئی اور بھارت کو عالمی برادری میں بڑی خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس وقت ہمارے ہاں یہ معاشی معجزہ رونما ہو رہا تھا، اِسی دورآن سیاسی اقتدار کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی اور گورنر جنرل ملک غلام محمد نے 24؍اکتوبر 1954ء کو دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی جس نے ہماری آئینی تاریخ اور ملکی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے۔ اِسی نوعیت کا حادثہ 60ء کی دہائی میں پیش آیا۔ سول اور فوجی بیورو کریسی کی ملی بھگت سے جنرل ایوب خاں نے اکتوبر 1958ء میں مارشل لا نافذ کیا اور امریکی امداد اور عمدہ اقتصادی پالیسیوں کی بدولت پاکستان ایشیا میں حیرت انگیز تیزی سے معاشی ترقی کرنے والا ملک بن گیا۔ زرعی اور صنعتی ترقی عروج پر تھی کہ حکمرانوں کی مہم جوئی کے بطن سے 1965ء کی جنگ نے جنم لیا اور جو کچھ کمایا تھا، وہ خاکستر ہو گیا۔ آج بھی ہم اس معاشی تباہی کے اثرات سے پوری طرح باہر نہیں آ سکے ہیں۔ ایک طویل جمود کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے انقلاب انگیز معاشی اصلاحات کے ذریعے پاکستان کو ترقی کا ایک وسیع میدان فراہم کیا، مگر مخالف سیاسی عناصر ان کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہے اور آخرکار وہ اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحٰق خاں کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کر دیے گئے۔ یہی معاملہ اُن کے ساتھ اکتوبر 1999ء میں پیش آیا جب جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر دس برسوں تک فوجی آمریت قائم کئے رکھی۔ دراصل وہ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو گئے تھے۔
چودہ سال بعد جناب نوازشریف انتخابات کے نتیجے میں تیسری بار وزیراعظم بنے، تو حالات حددرجہ دگرگوں تھے۔ دہشت گردی سے پاکستان لہولہان تھا۔ مختلف علاقوں میں حکومت کی رِٹ ختم ہو چکی تھی اور کراچی شہر میں آئے دن سینکڑوں کی تعداد میں لاشیں گر رہی تھیں۔ توانائی کا بحران شدت اختیار کر چکا تھا۔ عالمی اقتصادی ادارے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی نحوست بھری پیشین گوئیاں کر رہے تھے، جبکہ نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے تھے۔ جناب نواز شریف نے پورے عزم اور کامل یقین کے ساتھ حالات بدلنے کا سفر شروع کیا، مگر اُنہیں قدم قدم پر سخت مزاحمت کا سامنا ہوا۔ عمران خاں جو انتخابات سے پہلے ہی اپنے آپ کو وزیراعظم کے منصب پر فائز کر بیٹھے تھے، وہ انتخابی نتائج سے سخت دلبرداشتہ ہوئے اور چار سال تک غیر جمہوری اور غیر قانونی طریقوں سے نواز حکومت کو گرانے میں لگے رہے۔ 2014ء کا سال دھرنوں اور اُن سے پیدا شدہ حالات کی نذر ہو گیا۔ 2015ء کا پورا سال دہشت گردی کے خلاف خونریز جنگ میں گزر گیا۔ 2016ء کے آغاز سے پاناما لیکس کا جو معرکہ درپیش ہے، اس نے سیاسی استحکام، ہماری تہذیبی اقدار اور عدالتی نظام کی چُولیں ہلا ڈالی ہیں۔ یکایک اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ جو ایک سُلجھے ہوئے سیاست دان ہونے کا تاثر دیتے تھے، اِن دنوں وہ شمشیرِ برہنہ بنے ہوئے ہیں۔ ادھر سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد شاہ بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ کوتاہ نظر عناصر مختلف ذرائع سے حکومت اور عسکری قیادت کے مابین محاذ آرائی اور متفرق طبقات میں خانہ جنگی کرانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اقتدار کی لامحدود خواہش نے انہیں باولا کر دیا ہے، انہیں تخت و تاج کے سوا اور کچھ نظر نہیں آ رہا۔ انہیں یہ بھی دکھائی نہیں دے رہا کہ بھارت ہمیں کس قدر خوفناک دھمکیاں دے رہا ہے اور کنٹرول لائن کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ انہیں یہ بھی نظر نہیں آ رہا کہ شرقِ اوسط میں کیسی خطرناک صف بندی ہو رہی ہے جو پاکستان کے سیاسی، معاشی اور علاقائی مفادات پر کاری ضرب لگا سکتی ہے۔ اُنہیں یہ بھی نظر نہیں آ رہا کہ ایران جس کے ساتھ ہماری سرحد ملتی ہے، وہاں امام خمینی کے مزار پر خودکش حملے کیا پیغام دے رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی نظر نہیں آرہا ہے کہ افغانستان کے حکمران جن کا اپنے حالات پر کوئی کنٹرول نہیں، وہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا رہے اور سنگین نتائج کی بات کر رہے ہیں۔ اُنہیں یہ بھی نظر نہیں آ رہا کہ قطر اور چھ عرب اور مسلم ممالک کے مابین آویزش کس قدر خوفناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور ماہِ رمضان میں قطر کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کیسی ہولناک صورتِ حال کی نشان دہی کر رہی ہے۔ انہیں یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ اخوان المسلمین جیسی پُرامن اور جمہوریت سے وابستہ جماعت کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا اِس عہد کا سب سے بڑا ظلم ہے۔انہیں یہ بھی نظر نہیں آ رہا کہ انبیاءؑ کی سرزمین شام کے اندر شدید خونریزی کے باعث ڈیڑھ کروڑ سے زائد مہاجرین ترکی اور دوسرے ممالک میں بڑی اذیت ناک زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ مسلم امہ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے۔
ہمارا پاکستان جو ایک نہایت خوبصورت ملک اور جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے ایک لاجواب خطہ ہے، اس کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہماری دلیر مسلح افواج اپنی بہترین صلاحیتوں سے اس کا دفاع کر رہی ہیں۔ میرے ہم وطنو اپنے وطن میں اُمید کی جو شمع فروزاں ہوئی ہے، خدارا اس کی ضوفشانی میں اضافہ کیجئے اور یہ دیکھئے کہ مٹھی بھر عاقبت ناندیشوں کی حد سے بڑھی ہوئی انا پرستی اور ہنگامہ آرائی سے خدانخواستہ ہمارے قومی وجود ہی کو ناقابل تلافی گزند نہ پہنچ جائے۔ آج میرے دل میں بلا کا درد اُٹھ رہا ہے اور بے اختیار سلامتی کی دعا میرے لبوں پر آ رہی ہے کہ چاروں طرف سے بلائیں منڈلا رہی ہیں حالانکہ یہ رمضان کا مقدس مہینہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ رحمتوں کے در وا ہو چکے ہیں اور اب پاکستان کو نئی بلندیوں کو چھونے سے اہلِ ہوس نہیں روک سکتے جن کا مایوسیوں اور ناکامیوں کا ایک دردناک عذاب مقدر بن چکا ہے۔

تازہ ترین