• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی جوڈیشل اکیڈمی سپریم کورٹ آف پاکستان کے ماتحت کام کرتی ہے۔پاناما کیس میں بننے والی جے آئی ٹی کے لئے بھی وفاقی جوڈیشل اکیڈمی میں سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے معززججز نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا تھا کہ وہ سیکرٹریٹ اور جے آئی ٹی اراکین کیلئے ضروری سیکورٹی انتظامات یقینی بنائیں۔ لیکن بدقسمتی سے وزارت داخلہ کے تمام سیکورٹی انتظامات کو بیرونی گیٹ تک محدود رکھا گیا۔سیکرٹریٹ کی اندرونی سیکورٹی کی ذمہ داری وزارت دفاع کے اداروں کے حوالے کردی گئی۔جنگ ،دی نیوز میں چھپنے والی خبر سے علم ہوا ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاکے کوآرڈی نیشن آفیسر تک کا تعلق عسکری انٹیلی جنس ایجنسی سے ہے۔عمارت میں کوئی بھی متعلقہ یا غیر متعلقہ شخص کوآرڈی نیشن آفیسر کی مرضی کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا۔حتی کہ بیرونی گیٹ پر تعینات پولیس اہلکار بھی صرف اسی شخص کو گیٹ سے اندر پارکنگ کی طرف جانے دیتے ہیں۔جس کی اجازت انٹیلی جنس ایجنسی کا کوآرڈی نیشن آفیسر دیتا ہے۔اس ساری صورتحال میں یہ تو طے ہوگیا کہ جے آئی ٹی جس عمارت میں بیٹھ کر کام کررہی ہے ،اور جو عملہ ان کی معاونت کررہا ہے۔تمام کا کنٹرول عسکری انٹیلی جنس اداروں کے پاس ہے۔یہ غیر معمولی صورتحال ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر یہ تحقیقات ہورہی ہیں کہ وائٹ کالر کرائم ہوا ہے کہ نہیں ۔مگر اس وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی میں عسکری ادارے کے نمائندوں کا کیا تعلق ہے؟ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ کچھ ایسی معلومات درکار ہوتی ہیں ۔جن تک صرف عسکری انٹیلی جنس اداروں کی رسائی ہوتی ہے۔اس لئے ان کی معاونت لی گئی ہے۔لیکن جب تاثر ملتا ہے کہ جے آئی ٹی کے لئے قائم کیا گیا سیکرٹریٹ مکمل کسی حساس ادارے کے افسران کے کنٹرول میں ہے تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔جن کا آگے چل کر تذکرہ کروں گا۔اگر جے آئی ٹی کے سربراہ کی بات کی جائے توپولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے واجد ضیاء ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیں۔سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جے آئی ٹی کے تمام ممبران کو اپنے اپنے اداروں سے ماتحت اسٹاف کا بندوبست کرنا تھا۔لیکن جب جے آئی ٹی کے سربراہ کو چلانے والے انٹیلی جنس اداروں کے لوگ ہونگے تو پھر دیگر ممبران کا کیا کہہ سکتے ہیں۔جنگ میں چھپنے والی خبر سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے لیجانے سے قبل جس افسر کے پاس لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے وہ بھی حساس اداے کے افسر ہیں۔جے آئی ٹی میں پیش ہونے والے سینئر صحافی عمر چیمہ لکھتے ہیں کہ جب وہ جے آئی ٹی کے سامنے بیان ریکارڈ کروانے کے لئے اس کمرے میں پہنچے ،تو انہیں بھی اسی کرسی پر بٹھایا گیا ،جس پر بیٹھے ہوئے حسین نوازکی تصویر کو لیک کیا گیا ہے۔بہرحال جے آئی ٹی کے اندرونی ماحول کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ واجد ضیا ء کے دائیںبائیں عسکری حساس اداروں کے دونوںنمائندے بیٹھے ہوئے تھے ۔تفتیش کے دوران جے آئی ٹی کے ممبران کی نشستوں کی ترتیب سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پوری جے آئی ٹی کو کون کنٹرول کررہا ہے۔
جمہوری دور میں ایک آئینی ادارے کی طرف سے عسکری انٹیلی جنس ایجنسیز کے نمائندے جے آئی ٹی میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں۔ ہماری عدالتیں اور ہماری پارلیمنٹ ہمیشہ عسکری اداروں کے سیاسی کردار پر تنقید کرتی رہی ہیں۔غیر آئینی اقدامات کو ہمیشہ غلط کہا گیا ہے۔لیکن جب آپ خود آئینی طریقے سے اداروں کو مداخلت کی اجازت دینگے تو پھر محفوظ کوئی نہیں رہے گا۔اگر درست مان لیا جائے کہ جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس ادارے سے معاونت لینے کی اشد ضرورت تھی تو اس کے لئے آئی بی کی خدمات بھی لی جاسکتی تھیں۔آئی بی پر اگر یہ تحفظات تھے کہ وہ سویلین حکومت کے زیر انتظام ادارہ ہے تو ایس ای سی پی ،ایف آئی اے، اسٹیٹ بنک بھی حکومت کے ہی زیر انتظام ہیں۔جیسے ان اداروں میں واٹس ایپ پر کال کرکے مخصوص افراد کو ممبر بنانے کا کہا گیا تھا،یہی اقدام آئی بی کے لئے بھی کیا جاسکتا تھا۔اب انگلی اٹھائی جارہی ہے کہ شاید تصویر آئی بی نے لیک کی ہے۔قارئین خو د بہتر بتاسکتے ہیں کہ جن اداروں نے آئی بی کے افسر کو بطور ممبر شامل نہیں ہونے دیا ،کیا وہ آئی بی کو جوڈیشل اکیڈمی کی حدود میں پر مارنے دینگے۔ویسے پٹھان کوٹ سے لے کر سانحہ ماڈل ٹاؤن تک ،گزشتہ چند عرصے میں یہ واحد جے آئی ٹی بنی ہے ۔جس میں آئی بی کا افسر شامل نہیں ہے۔مجھے جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس ایجنسیز کے کنٹرول پر افسوس نہیں ہے بلکہ افسوس اس بات پر ہے کہ جن اقدامات کو ہمیشہ ہم غیر قانونی اور غیر آئینی لکھتے اور بولتے آئے ہیں۔آج انہوں نے خوبصورت طریقے سے قانون کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے کردار کو آئینی اور قانونی بنادیا ہے۔دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وائٹ کالر کرائم پکڑنے کے لئے حساس اداروں کے بجائے تحقیقاتی ادارے بہتر ہوتے ہیں۔جن افسران نے زندگی میں کبھی تفتیش نہیں کی ۔آج وہ ملک کی تاریخ کے سب سے حساس اور نازک کیس کی تفتیش کررہے ہیں۔یعنی ریہرسل بھی کس کیس پر کی جارہی ہے؟
بہت اچھا ہوتا اگر اس جے آئی ٹی کی سربراہی سپریم کورٹ کے ہی کسی ریٹائرڈ ایماندار جج کے پاس ہوتی۔ایف آئی اے سمیت تمام تحقیقاتی ادارے اس کا حصہ ہوتے۔کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے نمائندے کوجے آئی ٹی میں شامل کرنے کے بجائے اپنی معاونت کے لئے رکھا جاتا اور جو بھی معلومات درکار ہوتیں ۔اس پر تحریری انداز میں ان اداروں سے معلومات حاصل کرلی جاتیں۔جب آپ خود عسکری اداروں کو ہر معاملے میں شریک کریں گے تو پھر کل ہر تعیناتی میں بھی وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔کوشش تو ہونی چاہئے تھی کہ جمہوریت کے مسلسل دس سال مکمل ہونے پر مزید ایسے اقدامات کئے جاتے کہ ان اداروں کا کردار کم سے کم ہوتا چلا جاتا مگر ہم نے اب تو ان اداروں کو آئینی و قانونی چھتری دینا شروع کردی ہے۔جس کے بہرحال بہت خوفناک اور دو رس نتائج ہوں گے۔ ابھی تو معاملہ صرف نوازشریف کے بیٹے کا ہے مگر کل کسی اور کے حوالے سے بھی اگر کوئی تحقیقات ہونگی تو یہی ادارے دی گئی آئینی ڈھال کو جواز بنا کر اس کے خلاف چار ج شیٹ بنارہے ہونگے۔باقی بات رہی تصویر کی تو بالا حقائق پڑھ کر قارئین کو یقین ہوگیا ہوگا کہ حسین نواز کی تصویر کون لیک کرسکتا ہے؟ لیکن اس معاملے میں قرآن کریم کی آیت یا د آگئی ہے ،جس کامفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’ایک چال تم چلتے ہو اور ایک چال اللہ چلتا ہے،کامیاب ہمیشہ اللہ ہی کی چال ہوتی ہے‘‘۔اس مرتبہ بھی چال کسی اور نے چلی مگر فائدہ اللہ نے شریف خاندان کا کردیا۔جاتے جاتے ایک شعر عرض ہے۔
اپنے حصے کی چال تم چل بیٹھے
ہمارے منتظر رہنا، کہانی ختم کرنی ہے

تازہ ترین