• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی کے چار رہنما پی ٹی آئی میں کیا شامل ہوئے ہیں،(ن) لیگ کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اصولی طور پر تکلیف پیپلز پارٹی کو ہونی چاہئے تھی مگر پریشان بلکہ بہت زیادہ پریشان مسلم لیگ(ن) ہے۔ حال ہی میں تحریک انصاف کا حصہ بننے والے سیاستدانوں کی تصاویر لگا کر سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جارہی ہے کہ ان چہروں سے تبدیلی آئے گی؟ اس مہم کو تیز ترین بنانے میں(ن) لیگ کے کارکن اور رہنما پیش پیش ہیں۔ مہم چلانے والوں کو سوچ لینا چاہئے کہ 2013ءکے الیکشن میں مسلم لیگ نے 146ٹکٹ ایسے لوگوں کو دئیے جو پرویز مشرف کے چہیتے تھے، جو کچھ عرصہ پہلے تک ق لیگ کا حصہ تھے۔ میں تمام لوگوں کے نام تو نہیں لکھا سکتا لیکن نمونے کے طور پر چند نام لکھ دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر زاہد حامد، اسکندر حیات بوسن، ریاض پیرزادہ، امیر مقام، اویس لغاری، دانیال عزیز، سمیرا ملک، مخدوم خسرو بختیار اور ماروی میمن یہ وہ لوگ ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے چہیتے تھے مگر آج ن لیگ کا حصہ ہیں۔ مجھے پرویز الٰہی کی گاڑی کے سامنے دھمال ڈالنے والے کا نام بھی لکھ دینا چاہئے تھا مگر لوگ بہت سمجھدار ہیں صرف دھمال ہی سے نام سمجھ جائیں گے۔ اب اگر پی ٹی آئی میں پیپلز پارٹی کے چار لوگ شامل ہوئے ہیں تو کیوں پریشانی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں ،ابھی پیپلز پارٹی کے چند اور لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوں گے اور پھر ن لیگ کے رہنمائوں کی لائن لگ جائے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس اراکین جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے وہ عمران خان کے ساتھ رابطے میں ہیں، یہ وہ اراکین ہیں جو اپنی حکومت سے شاکی ہیں۔ اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ بھی رخ تبدیل کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس سے پیشتر مقتدر قوتیں کبھی ن لیگ کو اقتدار سونپ دیتی تھیں تو کبھی اقتدار پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا جاتا تھا مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہورہا، دونوں پارٹیاں ایک ہی صف میں کھڑی ہوگئیں، دونوں نے ایک دوسرے کو سہارادیا، دونوں نے ایک دوسرے کی چوریاں چھپائیں، اپوزیشن برائے نام رہ گئی۔ شہباز شریف سال میں دو چار بڑھکیں مارتے تھے تو زرداری صاحب سالانہ ایک بڑھک مارتے تھے، یہ بھی اتفاق ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی، محمود اچکزئی اور ایک بین شدہ سیاستدان بھی اسی کشتی کے سوار بن گئے جس میں نواز شریف اور آصف زرداری سوار تھے۔ ان تمام جماعتوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ کرپشن کی جائے، ملک کو لوٹا جائے۔ اس سارے کھیل میں ملک کھوکھلا ہوگیا، نام نہاد جمہوریت کی اس صف میں کھڑے سیاستدانوں نے ملکی مفاد کو بھی نظر انداز کیا، ان کے نزدیک ملکی سلامتی کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی۔ پچھلے چند سالوں میں اس ٹولے نے قومی سلامتی کو بہت سی ٹھوکریں ماریں، اس صورتحال میں محب وطن سوچتے رہے، اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس ٹولے کے خلاف آخری اور فیصلہ کن کام کرنے والے ہیں۔ اس ٹولے کو جو بیرونی ہمدردی حاصل تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ اس ٹولے کے دو بڑے رہنمائوں نے ہیلری کلنٹن پر دولت کے انبار خرچ کئے تھے مگر ان کی بدقسمتی کہ ٹرمپ جیت گئے۔ اس امریکی الیکشن کے بعد بین الاقوامی سیاست تبدیل ہونا شروع ہوئی، اس تبدیلی کے آثار آنے والے دنوں میں مزید نمایاں ہوں گے۔
پچھلے کچھ سالوں سے برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے قائدین دولت کے نشے میں سب کچھ بھول گئے، انہوں نے اپنے اقتدار کا رعب و دبدبہ اپنے ہی اراکین پر آزمانا شروع کردیا۔ وہ اراکین اسمبلی کو ملنا اپنی توہین سمجھتے تھے، پارٹی میٹنگوں میں اپنے اراکین کی بے عزتی کرنا قائدین کا شیوہ بن گیا تھا، جب اراکین کے ساتھ یہ رویہ تھا تو پھر عوام کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، اس کا اندازہ کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے بادشاہوں کے اس رویے سے عوام اور عام اراکین اسمبلی دلبرداشتہ ہوگئے۔ اس رویے کے باعث ایک بادشاہ کی پارٹی سندھ کی اے این پی بن کے رہ گئی جبکہ دوسرے بادشاہ کی پارٹی کا حال یہ ہے کہ مبینہ طور پر اس پارٹی نے گوجرانوالہ ڈویژن کا سروے کروایا، اس سروے کے مطابق گوجرانوالہ ڈویژن کی قومی اسمبلی کی اکیس نشستوں میں سے سولہ پی ٹی آئی جیت رہی ہے۔ اس سروے کے بعد ایک میٹنگ ہوئی، اس میٹنگ کی صدارت ایک شہزادے نے کی، وہ اپنے اراکین اسمبلی کو سروے رپورٹ بتانے کے بعد کہنے لگے کہ آپ لوگ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں، لوگوں کے کام کریں، لوگوں کے کام خاک ہونے ہیں، اس کا اندازہ رمضان المبارک میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کسانوں کی صورتحال یہ ہے کہ وہ مظاہرے کرتے پھر رہے ہیں، جو لوگ اقتدار کے کھیل کو سمجھتے ہیں انہیں پتا ہے کہ وسطی پنجاب کے تین ڈویژن لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد اقتدار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی80سیٹیں ان تین ڈویژنوں میںہیں، ایک کی صورتحال میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے، دوسرے دو ڈویژن بھی اس سے مختلف نہیں ہیں، لہٰذا ہر طرف پریشانی بڑھتی جارہی ہے، ایک طرف دولت کا حساب مانگا جارہا ہے، ایک جے آئی ٹی نے پوری پارٹی کو پریشان کررکھا ہے، پوری پارٹی چیخ رہی ہے، حسین نواز اور حسن نواز سے ٹھنڈے کمروں میں تحقیقات ہورہی ہیں، شاید آپ پاکستان کے تھانوں میں ہونے والی تحقیقات سے واقف نہ ہوں، پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کے تھانوں میں دس، بارہ اور چودہ سال کے بچوں پر بھی اس بری طرح تشدد کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات تو موت واقع ہوجاتی ہے، پنجاب کے اکثر تھانوں میں ساری رات چیخوں کی صدا گونجتی رہتی ہے۔ صاحبزادوں نے تو کچھ دیکھا ہی نہیں، پوری پارٹی کی چیخ و پکار کا مطلب ایک ہی ہے کہ اب کسی وقت بھی جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کردیا جائے گا، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فیصلہ ہی تسلیم نہ کیا جائے۔ ایسا کرکے شہید ہونے کی کوشش کی جائے گی مگر اس کوشش میں سوائےرسوائی کے کچھ نہیں ملے گا۔ مافیا کی شکست کا وقت آگیا ہے، پہلے مافیا نے فوج کے ہاتھوں شہید ہونے کی بڑی کوشش کی مگر وہ کوشش فوج کے صبر کی وجہ سے ناکام ہوگئی، اگر کسی کو فوج کے ہاتھوں شہادت مل جاتی تو اس کی سیاست زندہ ہوجاتی مگر جو انصاف کے ہاتھوں جائے گا، اس کے مقدر میں رسوائی ہوگی صرف رسوائی۔
کرپشن پر دارومدار کرنے والوں کی خدمت میں حضرت علیؓ کا یہ فرمان پیش کرنے کو دل چاہ رہا ہے کہ ’’ایسی غربت پر صبر کرنا جس میں عزت محفوظ ہو، اس امیری سے بہتر ہے جس میں ذلت و رسوائی ہو‘‘ کرپٹ لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ملک میں عنقریب صفائی مہم شروع ہونے والی ہے، اب کوئی کرپٹ نہیں بچے گا، الیکشن سے پہلے اتنی صفائی ہوگی کہ جو اس وقت منظرنامے پر ہیں، ان میں سے اکثریت منظرنامے پر نہیں ہوگی، بقول محسن نقوی؎
جو بات بھی کہتے ہیں اتر جاتی ہے دل میں
تاثیر جدا سی ہمیں ورثے میں ملی ہے

تازہ ترین