• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے واضح اثرات نظر آناشروع ہوگئے ہیں۔مسلم دنیا کے ایک اہم ملک قطر کے ساتھ سعودی عرب سمیت سات مسلمان ملکوں متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، لیبیا، یمن اور مالدیپ نے اچانک اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ تاہم پاکستان نے قطر سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کاکہناہے کہ قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کاہماراکوئی ارادہ نہیں ہے۔ ترکی اور ایران نے بھی عرب مسلمان ملکوں کے درمیان مفاہمت اور مذاکرات پر زور دیتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کردی ہے۔امریکہ نے بظاہر خلیجی ریاستوں کو متحد رہنے کاپیغام دیا ہے مگر لگتاہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ کیونکہ امریکہ کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور۔مشرق وسطیٰ میں بدامنی،انتشار اور افتراق کی آگ امریکہ کی ہی لگائی ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان نے اس اہم اور حساس معاملے پرنہایت حکیمانہ اور دانشمندانہ طرزعمل اختیار کیا ہے۔حکومت پاکستان کایہ موقف بجا طور پر درست ہے کہ پاکستان مسلم ممالک کے درمیان اتحاد اور رواداری کے کلچرکوفروغ دینا چاہتا ہے۔ یمن، شام اور لیبیا کے بحران میں بھی پاکستان نے اعتدال پسندانہ روش اختیار کی۔ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے پاکستان کی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ موجودہ منظرنامے میں ایک بارپھر پاکستان نے اسلامی ممالک کے اتحاد کا علم اٹھایا ہے۔اس وقت حکومت پاکستان ترکی ،کویت اور دیگر خلیجی ریاستوں کی حکومتوںکو اعتماد میں لے کر مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور کشیدگی کو دورکرنے میں اپنا کردار اداکرسکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے بعد یکایک خلیجی ریاستوں میں پیداہونے والاحالیہ سب سے بڑا بحران کیوں پیدا ہوا؟اس کے پس منظر میں امریکی استعماری ایجنڈا ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ دکھائی دے رہا ہے۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کو قطر سے جائز شکایات ہوسکتی ہیں۔ قطر کی حکومت کو بھی ان معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہئے اور ہمسایہ ملکوں کے تحفظات کو ختم کرنا چاہئے۔ موجودہ نازک صورتحال میں عالم اسلام کے اندر اتحاداور اتفاق ہونا وقت کاناگزیرتقاضا ہے وگرنہ ہمارادشمن مسلمانوں کو شیعہ سنی کی بنیادپر لڑاکر کمزورکرکے اپنے مذموم اورناپاک عزائم کی تکمیل چاہتاہے۔شام،عراق اور یمن میں امریکہ اور یورپی ملکوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ایساجال بچھایا ہے کہ جس میں مشرق وسطیٰ کے ممالک چاروناچار پھنستے چلے جارہے ہیں۔اب اس جال کادائرہ کار قطر تک بڑھادیا گیا ہے۔جنوبی ایشیامیں پاکستان، افغانستان اور ایران کو بھی ایک دوسرے کے مدمقابل لایا جارہا ہے۔اب اس موجودہ صورتحال میں مسلمان ملکوں کو اپنے چھوٹے موٹے اختلافات بالائے طاق رکھ کر اپنے اصل دشمن کی سازشوں کوناکام بنانا ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے موجودہ اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کومضبوط کرنے کے لئے مسلمان ملکوں کوباہم دست وگریباں کرانا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایرا ن کو گریٹر اسرائیل کے خطرناک منصوبے کو سمجھنا چاہئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب سے شام میں آگ وخون کاکھیل شروع ہوا ہے اُس وقت سے فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم دنیاکی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔بس یہی امریکہ اور یورپی ممالک چاہتے تھے کہ مسلمان ملکوں کوآپس میں لڑادیاجائے اور وہ اسرائیل کی جانب رخ نہ کرسکیں۔ قطر سے مسلمان ممالک کے حالیہ اختلافات کے پیچھے بھی یہی سازش کارفرما ہے۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ امریکہ کو قطر سے اس وقت سب سے بڑی تکلیف یہ ہے کہ اُسے الجزیرہ ٹی وی ہضم نہیں ہورہا۔الجزیرہ ٹی وی کی انگریزی اور عربی زبانوں میں نشریات دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں۔اکثر اس کی خبروں اور تجزیوں میں امریکہ اور اسرائیل کی مسلم دشمنی پر بات کی جاتی ہے۔ امریکی حکومت پہلے بھی کئی بار الجزیرہ ٹی وی کے حوالے سے قطر حکومت پر دبائوڈال چکی ہے۔ قطر کی حکومت فلسطین اور مصر میں اخوان المسلمین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے اس لئے بھی وہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی قوتیں مشرق وسطیٰ کے جغرافیے کو ایک بار پھر تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ماضی میں بھی اس خطے کے جغرافیے کو کئی مرتبہ تبدیل کیاگیا۔حالیہ قطر بحران اور شام، عراق، لیبیا کے مسائل سے نمٹنے کے لئے او آئی سی، عرب لیگ اور خلیجی تعاون کونسل کو بھی فعال ہوناپڑے گا۔پاکستان کے ایران اور سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں۔ دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے سے مڈل ایسٹ کا بحران ختم کیاجاسکتا ہے۔اب کچھ تذکرہ ہوجائے پاکستان میں دینی اداروں کی خدمات کا!مساجد اور دینی مدارس درحقیقت اسلام کے قلعے ہیں۔رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے اوپرسایہ فگن ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہمیں مساجد اور دینی مدارس پر دل کھول کر خرچ کرنا چاہئے۔ اسی تناظر میں مجھے ملک کے اہم دینی ادارے جامعہ رضویہ کے ناظم اعلیٰ اورنامورعالم دین جناب مفتی محمد وحید قادری نے درد دل کے ساتھ اپنا خط بھجوایا ہے جوکہ نذرقارئین ہے!
محترم محمد فاروق چوہان صاحب!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
روزنامہ جنگ میں آپکا کالم ملک کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں میں بھی بہت مقبول ہے اور بڑے ذوق وشوق سے پڑھاجاتاہے۔آپ کے کالم کی وساطت سے میں عرض کرناچاہتاہوں کہ پاکستان میں سارے جرائم کی جڑ جہالت ہے۔اس دور میں جہالت کے خلاف جنگ کرنا اور لوگوں کو شعور دینا ہر نیکی سے بڑھ کر نیکی ہے۔الحمدللہ جامعہ رضویہ لاہور کادینی ادارہ 1990سے اس جہاد میں مصروف عمل ہے۔جامعہ رضویہ کا ادارہ شیخ القرآن ڈاکٹر مفتی غلام سرورقادریؒ کی ہمیشہ رہنے والی ایک بے مثال یاد گار ہے۔جامعہ عرصہ 33سال سے دینی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔اس دینی جامعہ سے اب تک سینکڑوں علماء، قراء اور حفاظ فارغ ہوچکے ہیں اوروہ دبئی،جرمنی،امریکہ اور سائوتھ افریقہ میں اپنی دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس جامعہ کے سینکڑوں طلباء کاقیام وطعام، کتب، علاج معالجہ اور دیگر ضروریات کاانتظام وانصرام بالکل مفت کیاجاتا ہے۔جامعہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے علوم اسلامیہ کی ابتدا سے لے کر اعلیٰ درجہ تک معیاری تعلیم دی جاتی ہے جبکہ حالات حاضرہ کے تحت جدید علوم ریاضی، انگلش، سائنس، کمپیوٹرایجوکیشن اور میٹرک سے ایم اے تک کا بھی انتظام ہے۔اس اہم ادارے کے دارالافتاء سے مسلمانوں کے دینی مسائل کی بھی رہنمائی کی جاتی ہے۔ موجودہ رواں سال کے دوران بھی اس ادارے سے دورہ حدیث شریف سے الحمدللہ کئی طلبہ فارغ التحصیل ہوئے جبکہ 8طلباء نے پنجاب یونیورسٹی سے امتحان پاس کیا اور نمایاں نمبر حاصل کئے۔133طلباء نے بورڈ اور یونیورسٹی کے تحت امتحانات پاس کیے۔اس دینی ادارے کی مزیدتوسیع کی جارہی ہے۔جامعہ کے لئے کانفرنس ہال،اساتذہ کرام کے لئے رہائشی بلاک،رضویہ فری اسپتال،ایمبولینس سروس کا انتظام اور نمازیوں کے لئے نئے واش رومزکی تعمیر جاری ہے۔اس جامعہ کے مختلف شعبہ جات میں تجوید و قرآت، شعبہ درس نظامی، شعبہ علوم عصریہ، شعبہ کمپیوٹر ایجوکیشن، لائبریری اور طباعت و اشاعت شامل ہے۔دین پر خرچ کرنایقیناً سب سے بڑی نیکی ہے۔یہ ناداراورغریب طلباء بھی آپ کی نظرکرم کے منتظر ہیں۔ یہ اللہ کاوعدہ ہے کہ جواس کی راہ میں خرچ کرتا ہے اس کاذمہ اور اجراللہ ہی کے ذمہ ہے۔ہماری پاکستان کے مخیرحضرات اوردرددل رکھنے والے پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وہ دینی اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون فرمائیں۔
والسلام
مفتی محمد وحید قادری
ناظم اعلیٰ جامعہ رضویہ لاہور

تازہ ترین