• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت ہی دلچسپ صورتحال ہے۔مختلف اقسام کے غلام چیختے چلاتے، ہاتھ نچاتے، زبانیں لپلپاتے اپنے اپنے ’’اوزار‘‘ اٹھائے بھاگے پھر رہے ہیں لیکن مساجروں اور تیل کی بوتلوں کے بل پر تو گرتا آسمان سنبھالنا آسان نہیں۔ کبھی حب الوطنی تو کبھی نام نہاد ترقی کے نام پر دہائی، کبھی انتقام کی درفنطنیاں، کبھی توہین کے طعنے....سب اوٹ پٹانگ حرکتوں اور بوگس بے بنیاد کھوکھلی دلیلوں کے پیچھے صرف اور صرف ایک مقصد ہے....زیادہ سے زیادہ دھول اڑانا، زیادہ سے زیادہ کنفیوژن پھیلانا، ایک ایسا ماحول پیدا کرنا جس میں بائیکاٹ کے ذریعے بچا کھچا بھرم رکھنے کے لئے ہاتھ پائوں مارے جا سکیں۔ کچھ کی لاٹریاں نکلی ہوئی ہیں، کچھ کو امید ہے کہ خط ِ خوشامد عبور کرتے ہی نکل آئیں گی کیونکہ وہاں پسینہ اور قلم کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے مزدوری مل جاتی ہے بلکہ اکثر اوقات تو ایڈوانس بھی دے دیا جاتا ہے۔ مال غنیمت کی منصفانہ تقسیم اور وہ بھی دو، دو، تین تین نسلوں پر محیط تو ’’ن‘‘ سے نمک حلال تو کرنا ہی پڑے گا۔ دفاع کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو براہ راست اور سرعام بینی فشری نہ ہو۔ ملفوف نہیں کھلی دھمکیاں....عوام کی عدالت؟ جو صرف انتخابات کے دوران چند دنوں کے لئے کھلتی، باقی سارا کام اعلیٰ عدلیہ کی حدود تک محدود اور اگر سجاد علی شاہ والا ایکشن ری پلے کرنے کی کوشش یا سازش کی گئی تو دھیان میں رہے پی ٹی آئی جیسی تازہ دم اور پرجوش سٹریٹ پاور کسی اور کے پاس نہیں۔ دمادم مست قلندر ہو گیا تو عدیم ہاشمی مرحوم کی یہ خواہش بعد از مرگ پوری ہو جائے گیبوزنے ہیں تو ملے ہم کو ہمارا جنگلآدمی ہیں تو مداری سے چھڑایا جائےکہتے ہیں 3نسلیں حساب دے رہی ہیں۔ بالکل غلط، صرف ایک سیاسی نسل کا حساب ہو رہا ہے، باقی دو بطور ڈھال استعمال کرنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔ رہ گیا مشرف کا احتساب تو مشرف نے حساب کیا ہوتا تو جدہ کیسے بھجوائے جاتے اور ’’پاناما‘‘ تو پیدائش ہی چند ماہ پہلے کی ہے جو ’’ایسکلیز ہیل‘‘ ثابت ہو رہا ہے۔ ’’حدیبیہ‘‘ وغیرہ تو ایویں MORE OVERکے طور پر ساتھ ہے۔ یہ منطق بھی درست نہیں کہ ایک خاندان پر بندوق تان لینا درست نہیں کیونکہ بھائی! کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا تھا تو بہترین یہی تھا کہ ٹاپ سے شروع کرتے، خاطر جمع رکھیں کہ اگر وزیر اعظم جواب دہی کے مراحل سے گزر رہا ہے تو باقی کیسے بچ رہیں گے؟ ’’تصویر‘‘ پر ماتم فہم سے بالاتر، اس کا لیک ہو جانا ٹیکنیکل سی بات ہے اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اگر برخوردار سے موبائل فون لے لیا جاتا ہے تو یہ بھی نارمل پریکٹس ہے جس میں کوئی قباحت نہیں۔ تفتیش کے لئے بلائے جاتے ہیں، تفریح کے لئے نہیں، پوچھ گچھ ہو رہی ہے پکنک پارٹی نہیں چل رہی۔ خدا جانے انہیں قصائی کی دکان کیوں یاد آ رہی ہے۔ قصائی کی دکان تو وہ ہے جہاں ہڈیاں چھیچھڑے کھالیں بٹتی ہیں۔شہباز شریف کا بیان تازہ بھی خوب ہے کہ ’’جھوٹ کی سیاست کے دن گنے جا چکے‘‘ ۔ شہباز کے منہ میں گھی شکر۔ ابھی کل کے کالم میں ہی تو عرض کیا تھا کہ سیاست بالخصوص ن لیگی سیاست میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی انکاری، تھوک کر چاٹ لینے کے ایکسپرٹ لیڈروں اور بات کر کے مکر جانے والے ’’نہالوں‘‘ اور ’’نونہالوں‘‘ کی فراوانی ہے اور تو اور وزیر اعظم کی وہ ابتدائی تقریر ہی سن لیں جس میں کئے گئے رنگین وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ اگر جھوٹ کی سیاست ختم ہونی ہے تو افقی اور عمودی انداز میں اس ’’سیاسی مٹیریل‘‘ کو جمہوری کنویں سے نکال پھینکنا ہو گا جس نے کنویں کا سارا پانی پلید کر رکھا ہے۔ صرف ’’بوکے‘‘ نکالنے سے بات نہیں بنے گی۔ جھوٹ اور لوٹ کی سیاست کے دنوں کی گنتی بلکہ الٹی گنتی شروع ہے تو اس سے بڑھ کر نیک شگون کیا ہو سکتا ہے۔ سیاسی کوڑا کرکٹ کی صفائی سالہا سال سے ’’اوور ڈیو‘‘ ہے۔ سود اصل زر سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے پہلی بار کوئی ڈھنگ کی بات کی ہے کہ ’’ادارے کسی ایک خاندان کے لئے قربان نہیں کرنے دیں گے اور اگر تصادم یا ٹکرائو کی صورت ہوئی تو آئینی اداروں کا ساتھ دیں گے۔ ‘‘ ’’زر‘‘ نے ’’شر‘‘ کے ساتھ مل کر جو ترمیمی قسم کے گناہ کئے ہیں، یہ ان کا کفارہ ہو گا، اگر پیپلز پارٹی ادا کرنا چاہے۔ بلاول کی اس بات کو بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے عدالتی قتل بھی سہے، لاشیں بھی اٹھائیں لیکن تصادم کا راستہ کبھی اختیار نہیں کیا۔ان کی چتر چالاکیاں ہمیشہ حیران کر دیتی ہیں لیکن اس خبر کا تو جواب ہی نہیں کہ وفاقی بجٹ 2017-18میں کسانوں کے ساتھ ڈی اے پی کھاد پر سبسڈی کے نام پر حکومت نے واردات کر دی اور وہ یوں کہ ایک طرف ڈی اے پی کھاد پر جنرل سیلز ٹیکس کو فی بوری 400روپے سے کم کر کے 100روپے کیا گیا تو دوسری طرف اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں کسانوں کو الجھا کر اسی بوری پر 190روپے کے مزید ٹیکس لگا دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق کسانوں کو رواں مالی سال میں بجٹ پیکیج کے نام پر 506ارب کا ٹیکہ لگایا گیا ہے لیکن یہ تو ان کا مخصوص طریقۂ واردات ہے جو صرف کسانوں تک محدود نہیں۔میرے فیورٹ مینڈکوں اور مینڈکیوں میں ایک اور کا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ ’’آئٹم‘‘ ویسی تفریح مہیا کرنے میں بری طرح ناکام جا رہی ہے جو وہ لوگ پیش اور مہیا کیا کرتے تھے جن کے پیارے پیارے نام لال (ل) پہ ختم ہوتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ن لیگ صرف انہی کو میدان میں رکھے کیونکہ ان کی ایک خاص قسم کی ’’انٹرٹینمنٹ ویلیو‘‘ ہے جو اس تازہ تحفے کے نزدیک سے بھی نہیں گزری جو اپنے آقا کی طرح پرچیاں پڑھ پڑھ کے بور کرتا ہے کیونکہ فی البدیہہ زبان درازی کا لطف ہی کچھ اور ہے۔کہاں ہیں خلال اور دھمال؟ الٹی گنتی کے خاتمہ تک رونق ضروری ہے۔

تازہ ترین