• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشرافیہ اور مافیا کا قافیہ تو ملتا ہی ہے، میرا خیال ہے کہ قارورہ بھی ملتا ہے۔ دونوں سے لڑنا اور جیتنا محال ہے۔ ایک فرق البتہ صاف ظاہر ہے کہ مافیا تو اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لئے دھونس اور دہشت کے ساتھ بے رحمانہ تشدد کا استعمال کرسکتی ہے لیکن اشرافیہ یہ کام ایک ایسے نظام کے سہارے کرتی ہے جوایک ہزار طریقوں سے ان کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ظاہر ہے اشرافیہ سے میری مراد وہ طبقہ ہے جس کے پاس اقتدار بھی ہے اور دولت بھی ۔ دیکھنے کو تو ہماری بڑی سیاسی جماعتیں، اقتدار کی طلب میں، ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں لیکن قبیلہ توایک ہی ہے۔ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ سیاسی رہنما اپنی وفاداریاں کیسے بدلتے ہیں۔اس ہفتے بھی ایسی ایک تقریب سجائی گئی جس میںپیپلز پارٹی کے ایک بڑے لیدر نذر گوندل نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ۔ اس سیاست دوراں کی رنگینی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نذر گوندل صرف خود نہیں بلکہ اپنے خاندان کے ساتھ عمران خاں کی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ خاندان کا اس طرح کا حوالہ شاید جاگیردارانہ سوچ کا مظہر ہے۔ لیکن اسے بھی تو آپ جاگیردار انہ دانشمندی کہہ سکتے ہیں کہ ایک بھائی یا باپ اس پارٹی میں ہوا اور دوسرا بھائی یا بیٹا دوسری پارٹی میں اور خاندان کا کوئی اور ہونہار سپوت کسی ایسی سروس میں کہ جس کا مستقل تعلق حکمرانی سے ہو ۔ اور ہاں، کسی کو کمپنی بھی توچلانا ہے اور زمینوں کی دیکھ بھال بھی تو کرنا ہے۔ دیکھ لیجئے ہماری اشرافیہ کے افراد کے سر پر ذمہ داریوں کا کتنا بوجھ ہے۔ اور سب سے بڑا بوجھ اس ملک کو چلانا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ ملک کیسا چل رہا ہے۔ چپکے سے کوئی یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کب تک چلےگا ۔
یہ جو میں مافیا کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کررہا ہوں تو اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے۔ بات وہا ں سے شروع ہوئی جب20اپریل کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے پاناما کیس کافیصلہ سنایا اور اس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی فیصلے کا آغاز ’ دی گاڈ فادر‘ کے ذکر سے کیا جوایک مافیا خاندان کی کہانی ہے ناول اور اس پر بننے والی فلم کوعالمی شہرت ملی۔ جسٹس کھوسہ نے جو کہا وت نقل کی وہ کچھ یوں ہے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ہوتا ہے۔ مقدمہ کیا تھا اور اشارہ کس کی طرف تھا ، اس سے قطع نظر، ہم اپنے ملک میں دیکھ سکتے ہیں کہ کون ،کیسے ، کتنی دولت کمارہا ہے۔ اونچی دیواروں والے عالیشان گھروں کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ خیال ذہن میں اکثر آتا ہے کہ کیا یہ سب رزق حلال کا کرشمہ ہے۔ بہر حال ، مافیا کا زیادہ گرجدار حوالہ پہلی جون کا ہے کہ جب جسٹس عظمت سعید نے ازخود نوٹس کے نتیجے میں نہال ہاشمی کیخلاف دائرکیس کی کارروائی کے دوران یہ کہا کہ جس انداز کی دھمکیاں نہال ہاشمی نے عدلیہ اور جے آئی ٹی کے ممبران کو دی ہیں ، ججوں اور ان کے خاندان کو ایسی دھمکیاں تو سسلی کی مافیا دیا کرتی ہے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مبارک ہو ، آپ کی حکومت بھی اس صف میں شامل ہوگئی۔ حکومت کا ردعمل توقع کے مطابق تھا دوسرا ردعمل یہ ہے کہ مافیا کا لفظ سیاسی محاورے کا حصہ بن گیا ۔
اب میں آپ کو یہ بتائوں کہ میں اشرافیہ کو مافیا سے ملانے کی جسارت کیوں کررہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہاں مافیا کا حوالہ حقیقی سے زیادہ ایک استعارے کے طور پر دیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے بھی بظاہر ایسا ہی کیا تھا ۔ ورنہ مافیا کو اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے جوگر آتے ہیں وہ ہماری موجودہ یا کسی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ یوں اشرافیہ کسی حد تک نااہل تو ہے لیکن اس کی حکمرانی کو کوئی چیلنج نہیں کرپا رہا ۔ کسی کو نہیں معلوم کہ عمران خاں جس تبدیلی کی بات کررہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ کیا وہ موجودہ اشرافیہ کا تختہ الٹ کر محکوموں کو مسند پر بٹھائیں گے اور اگر وہ ایساکریں گے تو ان لوگوں کا کیا بنے گا جوان کے ساتھ ہیں اور جوان کی پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ پھر کیا وہ خود بھی اس پہاڑی سے نیچے اتر آئیں گے جس پر ان کی رہائش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی تبدیلی آئی بھی تواس سے طاقت کا موجودہ توازن تو قائم نہیں رہے گا ۔ سچی تبدیلی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ موجودہ سماجی ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے ۔ تعلیم کے نظام کو عدم مساوات کی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے ہر بچے کواپنی ذہانت اور سکت کے مطابق آگے بڑھنے کا ذریعہ بنایا جائے ۔ خواتین کو معاشرے میں ان کاجائز مقام ملے،اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم اپنے دیرینہ روایات اور مغالطوں کونئے خیالات کی روشنی میں پرکھنے کے قابل ہوجائیں۔ سماجی تبدیلی کے لئے کیا کچھ ضروری ہے اس کی فہرست طویل ہوسکتی ہے اور ہر نکتے پر اختلاف رائے کی گنجائش بھی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس جانب کسی باقاعدہ اور سنجیدہ تحریک کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ کام کسی بڑی سیاسی جماعت کے کرنےکا ہے کہ جو پہلے اپنی سوچ اور اپنے منشور میں تبدیلی پیدا کرے تبدیلی کے لئے جدوجہد تودور کی بات ہے، پہلے تو کوئی یہ سمجھے کہ حقائق کیا ہیں اور معاشرے کی موجودہ صورت حال کیا ہے۔
یہاں مجھے پاکستان کی اشرافیہ کے بارے میں ایک ذمہ دار پردیسی کا تبصرہ یاد آتا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے پاکستان میں سربراہ چارسال کی ملازمت کے بعد جب رخصت ہوئے توانہوں نے ایک اخبار کو انٹرویو دیا اور اس شرط پر کہ وہ ان کے چلے جانے کے بعد شائع ہو ۔ پاکستان سے اپنی محبت اور پاکستانیوں کی صلاحیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہماری اشرافیہ کے طرز عمل پر انتہائی تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا ۔ انٹرویو کی سرخی یہ بنی کہ پاکستان کی اشرافیہ کو یہ سوچناہے کہ انہیں اس ملک کی ضرورت بھی ہے یانہیں۔ ان کی نظر میں عدم مساوات، غربت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جس عدم مساوات پرانہوں نے زیادہ زور دیا اس کا تعلق عام لوگوں کے حقوق اور اپنی زندگی بہتر بنانے کے مواقع سے ہے۔ جنوبی افریقہ کی نسلی امتیاز کی پالیسی کی طرح ہم سماجی امتیاز کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔معاشیات کے ماہر اس شخص نے بڑے بڑے زمینداروں سے اپنی ملاقاتوں کاذکر کیا کہ جوصدیوں سے اپنی زمینوں کا پھل کھارہے ہیں اور جنہوں نے اکثر مفت پانی حاصل کیا اور کئی اپنے لوگوں سے جبری مشقت بھی کرواتے ہیں لیکن اپنے علاقوں میں تعلیم یا کسی دوسری اسکیم کے لئے اقوام متحدہ یا دوسری عالمی تنظیموں سے مالی امداد کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ ایک تفصیلی انٹرویو ہے۔ اس میں کراچی کی خستگی کا احوال بھی شامل ہے۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ ہے کہ اس انٹرویو کی اشاعت کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا ۔ لگتا یہ ہے کہ ہمارے حکمراں یعنی ہماری اشرافیہ کسی ٹہوکے سے تو کیا ، کسی بڑے سانحے یا سیلاب یا دھماکے سے بھی اس طرح نہیں جاگتی کہ حقیقت کو پہچانے اور کچھ کرے ۔اب پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے بہیمانہ قتل سے بڑا سانحہ کیا ہوسکتا ہے لیکن سب کچھ توتب بھی نہیں بدلا اور یہ بحث اب بھی ہورہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل ہوا ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے لڑتے ہوئے ہماری افواج نے تو کئی فتوحات حاصل کیں لیکن ہمارے ذہنوں میں جس جنگ کو لڑا جانا ہے، اس کی تو ہم نے تیاری بھی نہیں کی ۔ سیاسی سطح پر کتنی ہلچل ہے۔ حکومت میں کون رہیگا یانہیں رہیگا اس کی سب کو فکر ہے۔ لیکن اشرافیہ تواپنی جگہ کھڑی ہے۔ جانے والی، آنے والی ہر حکومت اسی کی ہے !!

تازہ ترین