• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا سوچئے !
پاکستان کا کئی ہزار کلومیٹر رقبے پر محیط اور کئی لاکھ انسانوں کی آبادی پر مشتمل علاقہ ایسا ہے کہ جو ہے تو پاکستان کا حصہ لیکن وہاں پر پاکستان کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔پاکستان کے اس محروم اور پسماندہ علاقے کے منتخب اراکین پارلیمنٹ پورے پاکستان کیلئے تو قانون سازی کرسکتے ہیں لیکن ان لوگوں کیلئے نہیں کرسکتے جنہوں نے ووٹ دے کر انہیں منتخب کیا ہے ۔جی ہاں یہ ایسا بدقسمت علاقہ ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے وہاں کے چیف ایگزیکٹو کیلئے لازم ہے کہ وہ دوسرے صوبے کا شہری ہو لیکن ازروئے آئین اس علاقے کا اپنا باسی اس کا چیف ایگزیکٹو یا حکمران نہیں بن سکتا۔
ذرا سوچئے!
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس علاقے میں انسانی آزادیوں کی اس صدی میں بھی بھائی کے جرم میں بھائی اور بیٹے کے جرم میں باپ کو اندر کیا جاتا ہے ۔ وہاں نافذ نظام کی رو سے ایک بندے کے جرم میں پورے خاندان کو سزا دی جاسکتی ہے اور دی جاتی ہے جبکہ قبیلے کے کسی ایک فرد کے جرم میں پورے قبیلے کے گھر مسمار کئے جاتے ہیں ۔
ذرا سوچئے!
اس علاقہ کے لوگ پاکستان کے اس قدر شیدائی ہیں کہ گزشتہ ستر سال میں وہاں سے علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں اٹھی لیکن ستر سال گزرنے کے بعد بھی یہ علاقہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور یہاں کے مظلوم شہری کسی بھی ظلم کے خلاف پاکستان کی کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے۔
ذرا سوچئے!
یہ علاقہ مملکت خداداد پاکستان کاحصہ ہے لیکن یہاں سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کےا سپیکر بھی گریڈ اٹھارہ کے ایک سرکاری افسر کی اجازت اور وہاں کے فوجی افسر کے اشارے کے بغیر داخل نہیں ہوسکتے ہیں ۔ نہ وہاں سراج الحق جاسکتے ہیں ، نہ اسفندیار ولی خان ، نہ مولانا فضل الرحمان ، نہ عمرا ن خان اور نہ بلاول بھٹو زرداری ۔ بلاول بھٹو نے تو یہ علاقہ خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ مولانا فضل الرحمان گزشتہ نو سال سے خواہش اور کوشش کے باوجود وہاں نہیں جاسکے جبکہ محمود خان اچکزئی کو تو اس علاقے کی زیارت کئے ہوئے دس پندرہ سال ہوگئے ۔ ان سب لیڈروں کو وہاں جانے کیلئے پہلے پولیٹکل ایجنٹ کی اجازت درکار تھی پھر طالبان کی اور اب فوج کی ۔
جی ہاں !
یہ پاکستان کا وہ علاقہ ہے کہ جسے قبائلی علاقہ جات یا فاٹا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ جہاں کے باسیوں کو ستر سال گزرنے کے باوجود پاکستانیوں جیسے حقوق نہیں دئیے گئے ۔ جہاںکے باسی پاکستان کی ہر جنگ میں بغیر کسی تنخواہ کے صف اول میں لڑے لیکن ان کوبطور شہری وہ بنیادی حقوق حاصل نہیں جو دیگر پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔وہاں کے باسیوں کو آزاد قبائل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن عملاً روئے زمین پر سب سے زیادہ غلام قوم ہیں ۔ صدیوں سے رائج انگریز کے ظالمانہ نظام کی وجہ سے آج وہاں غربت کی شرح پاکستان کے کسی بھی علاقے سے زیادہ ہے ۔اسی وجہ سے یہ علاقہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کیلئے زرخیز ترین علاقہ بن گیا ۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا میدان بن گیا ۔ اسی وجہ سے پاکستان کا فخر سمجھا جانے والا یہ علاقہ پورے پاکستان میں بدنام ہوگیا اور پھر پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا موجب بن گیا۔
لیکن ذرا سوچئے!
فاٹا کو قومی دھارے میں لانا پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی بشمول پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں شامل ہے لیکن مسلم لیگ کی حکومت کی مدت پوری ہونے کو ہے اور یہ علاقے آج بھی قومی دھارے سے باہر ہیں ۔فاٹا کو پختونخواکا حصہ بنانے کا نکتہ شاید ملکی سیاست کا واحد نکتہ ہے کہ جس پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ایک صفحے پر ہیں ۔ ایسا سراج الحق بھی چاہتے ہیں اور اسفندیارولی خان بھی ۔ پیپلز پارٹی بھی اس کی حامی ہے اور مسلم لیگ (ق) بھی ۔ لیکن پھر بھی فاٹا پختونخوا میں ضم نہیں ہورہا ۔
ذرا سوچئے!
فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا نکتہ، نیشنل ایکشن پلان جسے تمام سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر منظور کیا اور جس پر عملدرآمد کا ہر پاکستانی متمنی ہے،کا بھی حصہ ہے لیکن اسکے باوجود اس شق پر عمل نہیں ہورہا ۔
فاٹا کے پارلیمنٹرین کی اکثریت خود قومی اسمبلی میں فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ ادغام کے حق میں قرار داد پیش کرچکے ہے اور پختونخوا اسمبلی اس کو اپنے صوبے کا حصہ بنانے کے حق میں قرارداد منظور کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود اسے مدغم نہیں کیا جارہا ۔
اور ہاں ذرا سوچئے !
سرتاج عزیز کی قیادت میں قائم حکومتی کمیٹی فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ ادغام کی سفارش کرچکی ہے ۔ وزیراعظم نوازشریف کے زیرصدارت وفاقی کابینہ ان سفارشات کی من و عن منظوری دے چکی ہے لیکن پھر بھی ان سفارشات کو آئین کا حصہ نہیں بنایا جارہا ۔
ذرا سوچئے !
سرتاج عزیز کی کمیٹی پر مجھ جیسے طالب علم نے اعتراض کیا ۔ اسفندیار ولی خان نے کیا ، آصف علی زرداری نے کیا ، عمران خان نے کیا، سراج الحق نے کیا ، فاٹا کے ایم این ایز نے کیا لیکن نہیں کیا تو مولانا فضل الرحمان نے نہیں کیا اور محمود خان اچکزئی نے نہیں کیا ۔ کیونکہ وہ کمیٹی میاں نوازشریف نے بنائی تھی اور وہ دونوں ان کے دست ہائے راست اور ان کی حکومت کا حصہ ہیں ۔ اب اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کیلئے مذکورہ سب لوگ مطالبہ کررہے ہیں لیکن ان پر اعتراض ہے تو صرف اور صرف مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کو ہے ۔
ذرا سوچئے ! اللہ کے بندوذرا سوچئے!
اگر ہم نے فاٹا کو آئینی اور قانونی لحاظ سے پاکستان کا حصہ نہیں بنایا اور اس سلسلے میں ہر پاکستانی نے دامے درمے سخنے اپنا حصہ نہیں ڈالا تو کیا ہم پورے ملک اور بالخصوص فاٹا کی آئندہ نسلوں کے مجرم نہیں ہوں گے ۔ سوچنا اور اپنے گریبان میں جھانکنا تو سب کو چاہئے لیکن اگر پاناما سے فرصت ملے تو میاں نوازشریف بھی ذرا سوچیں کہ اگر انہوں نے فنڈز یا مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب کی وجہ سے موقع ضائع کرکے اپنی ہی بنائی ہوئی کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہ کیاتو اگلے انتخابات میں ان کے امیرمقام اور شہاب الدین خان کس منہ سے قبائلی علاقہ جات اور پختونخوا کے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے ۔ اور ہاں ذرا ایک بار آزاد کشمیر او رگلگت بلتستان کے بارے میں بھی سوچئے!
مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کیلئے بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں لیکن ذرا سوچئے کہ جو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے حصے میں آگیا ہے ، ہم ان کوبھی قومی دھارے میں لانے سے گریزاں ہیں ۔ ان کو صوبے کی حیثیت دینے میں تو مان لیتے ہیں کہ آئینی رکاوٹیں حائل ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ جو پی ایس ایل جیسی نمائشی چیزیں ہیں ، ان میں ہم ان کو کیوں برابر کا حصہ نہیں دے رہے ہیں ۔ میں نے ذاتی طور پر بھی نجم سیٹھی صاحب سے گزارش کی تھی اور ٹی وی اسکرین پر بھی مطالبہ کرتا رہا کہ پی ایس ایل میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نام سے ایک ایک ٹیم ہونی چاہئے ۔میری معلومات کے مطابق گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ نے بھی پی ایس ایل حکام سے مطالبہ کیا تھاتاہم گزشتہ دنوں ملتان کے نام سے چھٹی ٹیم کا اضافہ کردیا گیا لیکن گلگت اور آزادکشمیر کے نام سے ٹیم نہیں بنائی گئی ۔ ملتان بھی محروم سرائیکیوں کا مسکن ہے اور اس کے نام سے ٹیم خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آزادکشمیر او رگلگت بلتستان کے نام سے کیوں نہیں ۔ جب یہاں کے پیارے اور ہم سب سے زیادہ محب وطن باسی دیکھیں گے کہ ہر صوبے کے دارالحکومت کے نام سے تو ایک ایک ٹیم موجودہے اور ایک صوبے کے دو شہروں کے نام سے تودو ٹیمیں ہوگئیں لیکن ان کے نام سے کوئی ٹیم نہیں تو کیا انکے احساس محرومی میں اضافہ نہیںہوگا ۔ ٹیموں کے خریدار بہت ہیں ۔ ابھی ملتان کی ٹیم کیلئے بھی درجنوں پارٹیاں میدان میں آئی تھیں ۔ ٹیم کے مالک کیلئے ضروری نہیں کہ وہ وہاں کا باسی ہو۔ اس میں متعلقہ حکومت یا وفاقی حکومت کا ایک بھی پیسہ نہیں لگتا ۔ اسلئے میری التجا ہے کہ جلدازجلد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے نام سے بھی ایک ایک ٹیم بنادی جائے تاکہ پاکستان سپر لیگ حقیقت میں پاکستان سپر لیگ بن

تازہ ترین